مسکن آبائے انساں جب بنا دامن ترا

از:مولاناسیدمحمد امین القادری صاحب ،(نگراں سنّی دعوت اسلامی ،مالیگاؤں)
کائنات میں حُسن وجمال ،نشیب وفراز،سبزہ وزار،بہتے آبشار،گُلستاں کی بہار،دَست وکُہسار،بَل کھاتی ندیاں،سمندروں میں مدّوجزرکاخُمار،ستاروں کی انجمن، چاند کی چمک، سورج کی رَمَق،بجلی کی دَمَک،کلیوں کی مسکراہٹ،بھَنوروں کے گُن گناہٹ،چڑیوں کی چہچہاہٹ،صبح کاسویرااوررات کااندھیراوغیرہ کو حُسن ِ اتفاق کا نام نہیں دیا جا سکتاکیوں کہ اکثرایسانہیں ہوتاکہ پانی زمین پرپھینکنے سے کسی ملک یا عمارت کانقشہ بن جائے،جب تک اُس کے پیچھے کسی مُصوّر کی فن کاری کا ذوق کار فرمانہ ہو۔بلا تشبیہ کائنات کی رعنائیاں بھی مصوّرِحقیقی کی کرشمہ سازیوں کا نتیجہ ہے۔جس کو جوملا،جتناملااورجس قدر ملا،اُسی رب الارباب بادشاہِ حقیقی کے دَر سے ملا۔اس لیے ہم جب بھی اپنے ملک ہندوستان پر نظرڈالتے ہیں تو حب الوطنی کی چنگاری شعلۂ جَوّال بنتی ہوئی نظر آتی ہے اور سینے میں اپنے وطن ہندوستان کا جذبہ ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے۔خطۂ ہند پر اﷲ پاک کی خصوصی نگاہِ کرم کااس سے بڑھ کرثبوت اور کیاہوگاکہ پہلے نبی ،پہلاانسان،پہلی اذان،پہلی نماز،پہلی تسبیح،پہلی تکبیر،پہلی توبہ، پہلی دعا ، پہلی ادا،پہلی صدا،پہلی ندااور پہلے آنسواﷲ عزوجل کی محبت میں اسی زمین کا مقد ررہے ہیں۔اسی خطے کی طرف کعبۃ اﷲ کاسب سے افضل ترین رکن’’ رُکن اَسود‘‘ ہے،سب سے بڑھ کر یہ کہ حبیب رب العلیٰ مالک کون ومکاں دانائے سُبل مولائے کُل ختم الرّسل خسروے خوباں سیاح لامکاں وجہ کُن فکاں مصطفی کریم رؤف الرحیم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ فرماکرکہ’’ ہند سے عاشقوں کی خوشبو آتی ہے‘‘ارضِ ہندکوارضِ محبت کاتمغہ عطاکرکے روم وفارس اور دیگرممالک کے لیے قابلِ رشک بنادیا ہے ۔

اﷲ رب العزت کی خصوصی عنایتوں اوررسول اعظم صلی اﷲ علیہ وسلم کے الطاف وکرم کو نگاہ میں رکھتے ہوئے ہردور میں ہماراپیاراوطن ہندوستان سب کی توجہ کامرکز رہا ہے ۔ ہمارے آقارؤف الرحیم صلی اﷲ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے بھی ہندسے دوسری قوموں کے علاوہ اہل ِ عرب کے تعلقات اورآمدورفت کے ٹھوس شواہد ملتے ہیں۔اہل عرب اور اہل فارس کی شاعری میں جابجا ہندوستان کاذکر ملتاہے۔صحیح معنوں میں اگر شرافت کی نگاہ سے اور تعصب کی عینک ہٹاکردیکھاجائے تو ہندوستان کاسب سے قدیم مذہب ’’اسلام‘‘ ہے۔کیوں کہ حضرت آدم علیہ السلام مذہب اسلام کے سب سے پہلے پیغمبر،دنیاکے پہلے انسان اور تمام انسانوں کے باپ ہے۔اس اعتبار سے ہندوستانیوں کاآبائی مذہب ’’اسلام‘‘ ہے۔اسلام کاآغاز ہندوستان ہے اور تکمیل عرب۔اس لیے پورے وثوق کے ساتھ کہاجاسکتاہے کہ ہندوستان میں اسلام کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی انسانیت کی تاریخ۔چنانچہ خاتم النبین جانِ آدم فخرِ بنی آدم جناب محمدالرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی دعوت اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کانظامِ رحمت ہندوستان میں کب آیااس سلسلے میں تاریخ کے معتبر حوالے یہی پتہ دیتے ہیں کہ جب حضرت بلال رضی اﷲ عنہ کی آواز عرب کے صحراؤں میں گونج رہی تھی اُس وقت دیوانگانِ رسول گنگاجمناکے کنارے وضوکررہے تھے اور مالابار کے ساحلوں پر جبینیں سجدوں کے لیے بے قرار تھی۔
شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال فرماتے ہیں ؂
اے آب رودِ گنگا کیا دن ہے یاد تجھ کو
اُترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا
بانگ درا ’’ہمالہ‘‘میں مزیدلکھتے ہیں ؂
اے ہمالہ!داستاں اس وقت کی کوئی سنا
مسکن آبائے انساں جب بنا دامن ترا
کچھ بتا اس سیدھی سادی زندگی کا ماجرا
داغ جس پہ غازۂ رنگ تکلف کا نہ تھا
ہاں دکھا دے اے تصور! پھر وہ صبح وشام تو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو

اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم جب عرب کے بوریاں نشینوں کو قرآن سناکرمعرفت خداوندی عطاکررہے تھے اُس وقت قرآن کی انقلاب آفرین صدائیں گجرات کے ساحلی علاقوں کواپنے آغوشِ کرم کی طرف متوجہ کرچکی تھی۔گویاکہ آقائے کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ظاہری حیات میں اسلام کا پیغام ہندپہنچ چکاتھا۔محمد بن قاسم ثقفی،سلطان محمود غزنوی،سلطان شہاب الدین محمدغوری اور ان جیسے متعدد جیالے نوجوانوں کے علاوہ بہمنی سلطنت،قطب شاہی،عادل شاہی،نظام شاہی ،برید شاہی،عماد شاہی،مغلیہ اور آصفیہ سلطنتوں کے بانیان ،بادشاہوں اور حکمرانوں نے اس ملک کے نظام جہاں بانی میں انقلاب پیداکیا۔نیزبادشاہوں کے ساتھ صوفیائے کرام نے بھی اپنے اخلاق وکردار سے اہل ہند کے دل جیت لیے ۔یہ کہناقطعاً مبالغہ نہ ہوگاکہ بادشاہ زمینوں کوفتح کررہے تھے اور صوفیائے کرام دلوں کو۔گویاخطۂ ہندکانصیبہ عروج پر تھا ، ایک طرف زمین کے فاتح اور دوسری طرف ضمیر کے۔اُسی حسین دور کی رہین منت نے ملک ہندوستان کو سونے کی چڑیابنادیاکیوں کہ مسلم بادشاہوں نے یاصوفیائے کرام نے ہندوستان کودیارِ غیرسمجھ کر لوٹ ماراور قتل وغارت گری کرنے کی بجائے اپنے باپ حضرت آدم علیہ السلام کی زمین اور اپناآبائی وطن سمجھ کرخوب سجایااور سنوارا جس کی روشن دلیلیں تاج محل آگرہ،لال قلعہ دہلی اور آگرہ،جامع مسجددہلی اور فتح پور سیکری،پنچ محل فتح پور سیکری،قطب مینار دہلی،بلنددروازہ گجرات،شالیمار باغ کشمیر ، ہمایوں کامقبرہ دہلی،شیر شاہ سوری کامقبرہ بہار،اعتمادالدولہ کامقبرہ آگرہ،بی بی کا مقبرہ اورنگ آباد،گول گنبدبیجاپور،قابلی مسجد پانی پت،چار مینار حیدرآباد،تاج المسجد بھوپال،اشرفی محل مدھیہ پردیش، اوران جیسی بہت سی خوبصورت عمارتوں کی شکل میں موجود ہیں۔خطیب الہند علامہ عبیداﷲ خان اعظمی صاحب نے اس کی منظرکشی یوں کی ؂
ہند کو ناز ہے جس پر وہ نشانی ہم ہیں
تاج اور لال قلعہ کے یہاں بانی ہم ہیں

محبتوں کی سرزمین ہندوستان پر مسلم حکمرانوں نے صدیوں تک حکومت کیں،اسی اثنامیں ایک وقت ایسابھی آیاکہ تن کے گورے من کے کالے انگریزوں نے تجارتی کمپنیوں کے بہانے ہندوستان پر قابض ہوناچاہا،اس وقت مسلم حکمرانوں میں نہ کوئی محمود غزنوی تھااور نہ ہی کوئی اورنگ زیب عالمگیر جیسا بہادر بادشاہ۔نتیجتاً دھیرے دھیرے پورے ملک پر انگریزوں کا قبضہ ہوگیا۔ اقتدار مسلمانوں سے چھیناگیاتھااس لیے فطرتاًجو درداور کرب مسلمانوں کو تھا دوسروں کونہ ہوا۔ کیوں کہ انگریز مذہب کے بھی دشمن تھے اور جان کے بھی۔اس لیے انگریزوں کے خلاف مسلم قائدین نے صدائے انقلاب بلندکیا۔اس ضمن میں مجاہدین اور باالخصوص علمائے کرام کی قربانیاں آبِ زرسے لکھنے کے قابل ہیں۔مگربڑے افسوس کے ساتھ کہناپڑتاہے کہ جن کاملک کی آزادی میں دورکابھی واسطہ نہیں وہ آج چند ایمان فروشوں کے سبب آزادی کے ہیروبنادیئے گئے ہیں اور جن کی جائیدادیں ضبط کی گئیں،جن کا گھربار نیلام کیاگیا،جن کی لائبریریاں پھونک دی گئیں، جنھیں ملک بدرکیاگیا،جن کی زندگیوں کو کانٹوں سے زیادہ پُرخاربنادیاگیا،جنھیں جیل بھیجاگیا، جنھیں پھانسیا ں دی گئیں،جنہیں خنزیر کی کھالوں میں سِل دیاگیا،جن کی آنکھوں کے سامنے اُن کے گھروالوں کوگولیوں سے بھون دیاگیااورجنہوں نے تن من دھن کی قربانیاں دیں،ان سرفروشوں کو فراموش کرکے تاریخ ہندکی گردن کو اُلٹی چھُری سے ذبح کیا جا رہا ہے۔جب بھی آزادیِ ہند کی بات کی جاتی ہے تو بڑی صفائی سے جھوٹ،فریب اور مکر سے انگریزوں کے ایجنٹ اور ملک وملت کے غداروں کو مجاہد ِ حریت بناکرپیش کیا جاتاہے۔ایسا سفیدجھوٹ بولنے والے تاریخ دشمن لوگوں کوحیرت بھی حیرت سے تکتی ہوگی ۔ مگریاد رہے جہاں کذب ہے وہی صداقت بھی ،جہاں دجل وفریب ہے وہی پیکرانِ خلوص ووَفابھی ،جہاں جھوٹ کوسچ بنانے والے ہیں وہی جھوٹ کاپردہ فاش کرنے والے بھی۔بھَلاہواُن علمائے کرام اور قلم کاروں کاجنہوں نے تاریخ پر ظلم کرنے والوں کاپنجہ مروڑنے کے لیے کمر کَس لی ہیں۔اﷲ انھیں سلامت رکھیں جو تاریخی سچائیوں کو نسلِ نوتک پہنچانے کے لیے اَنتھک کوششیں کررہے ہیں۔اُنہیں میں موجودہ دورمیں سرِ فہرست’’ اسلاف شناسی کی تحریک‘‘ پیش کرنے والے عظیم مفکر،رئیس التحریر حضرت علامہ یاسین اخترمصباحی صاحب قبلہ مدظلہ العالی جن کاکارنامہ لائق تحسین بھی ہے اور قابلِ تقلید بھی۔علامہ یاسین اخترمصباحی کی کوششوں نے نوجوان قلم کاروں کومتاثرکیااور اس سمت میں اہلسنّت کی طرف سے کام کاآغازہوا۔نئی نسل جن بزرگوں کے نام تک نہیں جانتی تھی اب ان کے ناموں اور کارناموں کو پڑھ اورسُن کراپنی معلومات میں اضافہ کررہی ہے۔

اسی کی ایک کڑی میرے مخلص ساتھی تحقیقی ذہن رکھنے والے سندیافتہ صحافی جناب عطاء الرحمن نوری (مبلغ سنّی دعوت اسلامی،مالیگاؤں)نے علمائے اہلسنّت باالخصوص علامہ یاسین اختر مصباحی صاحب کی کتابوں سے استفادہ کرتے ہوئے ملک ہندوستان کی آزادی میں قربانی دینے والے اورتحریک آزادی کے اصل بانیین وقائدین کاتذکرہ بنام ’’جنگ آزادی ۱۸۵۷ء میں علما کا مجاہدانہ کردار‘‘لکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔امسال اس کتاب کا دوسرا اور تیسرا ایڈیشن منظر عام پر آرہاہے۔گذشتہ تین چارسالوں سے یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کے موقع پر ماہنامہ سنّی دعوت اسلامی ممبئی،ماہنامہ کنزالایمان دہلی،سالنامہ روشنی دہلی ،ممبئی کے اخبارات انقلاب ،اردوٹائمز،صحافت ،ہندوستان اورنگ آباد،ماہانہ پیغام رضا اُجین،مالیگاؤں کے اخبارات شامنامہ،دیوان عام،ترجمان،نشاط نیوز ، بہار سنّت، ڈسپلن اور ہماری ویب ڈاٹ کام پرعطاء الرحمن نوری کے آن لائن مضامین آرہے تھے۔سال گذشتہ ’’دیوان عام‘‘ میں مسلسل گیارہ دنوں تک گیارہ قسطیں شائع ہوئیں۔مذکورہ تمام مضامین کو فقیر قادری کی فرمائش پر برادرگرامی نے کتابی صورت میں مرتب کیا ہے جس میں انہوں نے تاریخی قرائن وحقائق کے ساتھ یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ ہندوستان کی آزادی علمائے اہلسنّت کے دم قدم سے متصور ہے اور ملک کی آزادی کے معاملے میں مسلمانوں کوباالخصوص علمائے اہلسنّت کو نظرانداز کرنابہت بڑی زیادتی وناانصافی ہے۔ تعصب اورمسلکی تضاد کی بنیاد پر سارا کریڈٹ دوسروں کودینا روایت ودرایت کے خلاف ،تاریخ سے چھیڑخانی کرنے کے مترادف اور سچائی کاگلاگھوٹناہے۔ اﷲ تعالیٰ برادرِ گرامی جناب عطاء الرحمن نوری کوبہترجزاعطافرمائے اور ان کی کوششوں کو شرف قبولیت عطافرمائے۔اﷲ ہم سب سے وہ کام لے جس سے اﷲ عزوجل اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اضی ہوجائے ۔آمین بجاہ الحبیب الامین وعلیٰ آلہٖ وصحبہٖ اجمعین برحمتک یا ارحم الراحمین
کام وہ لے لیجیے تم کو جو راضی کرے
ٹھیک ہو نام رضا تم پہ کروڑوں درود
٭٭٭

 

Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 731554 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More