تحریر: محمد مبین امجد، گجرانوالا
صبح سے شام ہو گئی تھی۔ شام سمٹ کر رات میں ڈھلی اور پھر اور بھی گہری۔ وقت
کا سفر بے آواز مگر تیز رفتار۔ مگر اس نے ابھی آنکھیں نہیں کھولیں تھیں اور
وہ اتنا وقت گذرنے کے باوجود ابھی وہاں ہی کھڑی تھی۔ لمبے سے کوریڈور کے
اختتام پر۔ وہیں۔ جہاں سے محض چند قدم کے فاصلے پر شیشے کی دیوار سے پرے وہ
پٹیوں میں جکڑا پڑا تھا۔
بنا آواز ، بنا الفاظ، جانے اس نے کتنی ہی بار اپنے رب کو پکارا ہوگا۔؟؟؟
اس کے شدت غم سے کون واقف ہو سکتا تھا کہ وہ ٹوٹا پھوٹا وجود اس کے بیٹے کا
تھا۔ اس کے جگر کے ٹکڑے کا جسے اس نے اپنی کوکھ میں رکھ کر سینچا تھا۔ ہاں
ہاں وہ اس کا اکلوتا بیٹا تھا، اور تین بہنوں کا اکلوتا ویر۔اتنا سعادت مند
کہ اپنے بخار کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ماں کی دوائی لینے نکل پڑا تھا۔
اور۔شاید۔شاید بھول گیا تھا کہ آج یوم آزادی ہے۔
٭٭٭٭٭
جب ہمیں اطلاع ملی ہم اس وقت نکل پڑے تھے مگر سارا راستہ یہی دعا کرتے آئے
تھے کہ یہ جھوٹ ہو۔ لیکن۔۔لیکن یہ جھوٹ نہیں تھا۔ آئی سی یو میں شیشے کی
دیوار کے اس پار ہمارا ہی بیٹا تھا۔ یا اﷲ مجھے ہمت عطا کر میں بہت کمزور
انسان ہوں۔ ہر انسان کی طرح اولاد کی محبت میں مجبور و بے بس۔ اور اولاد۔؟؟؟وہ
انٹر کا سٹوڈنٹ۔ جو بڑی منتوں مرادوں سے ملا تھا۔ بہنوں کی آنکھ کا تارا
تھا اور ماں باپ کے بڑھاپے کا سہارا تھا۔ مگر آج کس کسمپرسی کی حالت میں
پڑا تھا۔ ہائے میرا تو سینہ کٹ رہا تھا اس کی حالت پہ۔میں کسی ہارے ہوئے
جواری کی طرح۔ جو اپنی ساری پونجی ہار بیٹھتا ہے۔ صبح سے اسی بنچ پہ بیٹھا
تھا۔ ایک ہی کیفیت میں۔ کبھی رو لیتا تھا اور گھٹنوں میں سر دے لیتا تھا۔
ایک پل چین نہ تھا۔ جانے یہیں بیٹھے کتنی بار میں نے خاموشی سے اپنے رب کو
پکارا تھا۔ الٰہی رحم۔ الٰہی کرم۔ میرے بچے کو صحت یاب کر دے۔!
٭٭٭٭٭
میں صبح سے ادھر ہی بیٹھا تھا کہ میری ہمت نہ ہوئی تھی کہ اپنے بیٹے کو
پٹیوں میں جکڑے دیکھ سکتا۔ وہ جو میری انگلی پکڑ کر چلنا سیکھا تھا آج۔ اس
حال میں پڑا تھا کہ دیکھ کر دل کٹتا تھا۔مجھے تو اس کی ایک ایک بات یاد تھی۔
جب وہ پیدا ہوا۔جب اس نے پہلی بار مجھے ابو کہا تھا۔ جب اس نے پہلی مرتبہ
اپنی توتلی زبان سے پہلا کلمہ سنایا تھا۔ ’’پہلا کلمہ طیب۔ طیب معنی
پاک‘‘جب وہ رک رک کر اٹک اٹک کر پڑھتا تو میرے سارے جسم میں سرشاری بھر
جاتی تھی۔ اور جب اس نے مجھے پہلی بار سورہ الکوثر سنائی تھی وہ صرف اڑھائی
سال کا تھا۔
اور جب وہ اپنے ننھے منے کومل پیروں میں میرے بڑے بڑے جوتے پہن کر چلتا تو
اس کی خوشی دیدنی ہوتی۔ وہ گر پڑتا مگر خود کو کسی شہنشاہ سے کم نہ سمجھتا
تھا۔!ہائے اس کا اسکول میں پہلا دن۔ مجھے کیسے بھول سکتا ہے۔ مگر شاید اسے
اسکول پسند نہیں آیا تھا اور کتنے ہی دن وہ بخار میں مبتلا رہا تھا۔ اس کی
دادی کہتیں کہ اسے نظر لگ گئی ہے۔ اور شاید وہ ٹھیک ہی کہتیں تھیں کتنا ہی
تو پیارا لگ رہا تھا وہ یونیفارم پہنے۔غرض کتنے ہی لمحے تھے جو بہت یادگار
اور حیران کن تھے۔ وہ بچپن سے ہی اتنا ذہین اور سعادت مند تھا کہ کبھی ضد
نہیں کرتا تھا۔
مگر جانے آج کیوں ضد کیے پڑا تھا۔ نہ بولتا تھا اور نہ ہی آنکھیں پٹ پٹا کر
ہمیں تکتا تھا۔جان وہ کیوں اتنا ناراض تھا۔؟؟؟ حالانکہ اس کی ماں کب سے
شیشے کے ساتھ کھڑی اسے منانے میں مصروف تھی مگر۔ مگر وہ تھا کہ مان کر نہیں
دے رہا تھا۔ مگر شاید ضدی تو وہ بچپن سے تھا۔
٭٭٭٭٭
ہاں ہاں وہ بچپن سے ہی ضدی تھا۔میں صبح صبح اسے جگانے کی کوشش کرتا کہ بیٹا
اٹھو اسکول کا وقت ہو گیا ہے۔ اور وہ کروٹ بدل کر منہ بسورتے ہوئے کہتا تھا
کہ ’’ ابو۔ میں ٹول نہیں جانا‘‘ جب وہ نرسری میں تھا تو پورے محلے میں اس
کی ’’ابو۔ میں ٹول نہیں جانا‘‘کی آہ و زاری مکینوں کو آبدیدہ کردیا کرتی
تھی۔ ہر صبح جب اس کے دادا اس کا بستہ اٹھائے، اسے انگلی سے لگائے نکلتے۔
تو وہ مڑ مڑ دروازے کو تکتا جہاں میں کھڑا ہوتا تھا۔ اور جونہی اس کی نظر
مجھ پہ پڑتی تو ایسی دلدوز آواز میں ’’ابو۔ میں ٹول نہیں جانا‘‘گاتا کہ
اکثر میں اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر پیچھے ہوجاتا کہ وہ مجھے دیکھ نہ سکے۔
وہ تھا ہی اسقدر حسین کہ کبھی کبھی میں اس کے دادا سے کہتا۔ بابا اسے اسکول
نہ لے جائیں۔ اور کبھی تو ہمسائے بھی اس کی سفارش کرتے کہ بچہ رو رو کر
ہلکان ہو رہا ہے کہ ’’میں ٹول نہیں جانا‘‘۔ تو آج نہ بھیجیں اسے۔ ٹول۔اور
وہ تو آج بھی اتنا ہی ضدی تھا تبھی تو اپنے بخار کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ماں
کی دوائی لینے نکل پڑا تھا۔ اور شاید۔شاید بھول گیا تھا کہ آج تو یوم آزادی
ہے۔ ہمارے منع کرنے کے باوجود وہ چلا گیا تھا۔ اور پٹیوں میں لپٹے واپس آیا
تھا۔
٭٭٭٭٭
اور اب وہ جانے کتنی ہی دیر سے انکھیں بند کیے پڑا تھا اور اس کی ماں۔ شیشے
سے ماتھا ٹکائے ، بنا پلک جھپکائے، ایک کے بعد ایک کتنے ہی آنسو گرائے جانے
کس کو منانے میں مصروف تھی۔؟؟؟ اپنے رب کو یا اپنے بیٹے کو۔؟؟؟کون
جانے۔؟؟؟اور میرا بچہ جو کسی ون ویلر کی زد میں آگیا تھا ، اب آنکھیں کھولے
گا بھی یا نہیں۔؟؟؟کون جانے۔؟؟؟
٭٭٭٭٭
آج یوم آزادی ہے جسے آج کی نوجوان نسل نے یوم بربادی بنا ڈالا تھا۔یوم
بربادی۔ بربادی کا دن۔!جس دن سینکڑوں گھرانوں کے چراغ محض ایک فضول شوق کے
بدولت گل ہو جاتے ہیں۔ محض اس لیے کہ ان لونڈوں نے آزادی کا مطلب محض
سائلنسر نکال کر ون ویلنگ کرنے کو سمجھ لیا ہے اور اس کے بغیر ان کی آزادی
کا جشن ادھورا ہے۔وہ تو جو کرتے ہیں بھگتتے ہیں مسئلہ مگر تب ہوتا ہے جب
کوئی بے قصور ان کی زد میں آجاتا ہے۔ اپنی دنیا تو خراب کرتے ہی ہیں مگر
ساتھ آخرت بھی خراب کر لیتے ہیں اور پیچھے لواحقین کو روتا چھوڑ جاتے ہیں۔
خدا را اپنے بچوں کو اس فضول شوق سے بچائیں۔ ورنہ اس بنچ پہ میری جگہ آپ
بھی ہو سکتے ہیں اور۔ اس کوریڈور کے اختتام پہ شیشے کی دیوار کے اس پار
میرے بچے کی جگہ آپ کا جگر گوشہ بھی ہو سکتا ہے۔اور اس شیشے سے ماتھا ٹکائے
آنسو بہانے والی میری بیوی کی جگہ آپ کی بیوی بھی ہو سکتی ہے۔اور یہ بھی
ممکن ہے کہ۔ آگے کی کہانی بڑی دلدوز ہے خدارا ویسے ہی سمجھ جائیں۔
|