ایشیاء کے روایتی کھیلوں کے بارے میں تو اکثر وبیشتر
مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں جن میں سے بعض کھیل ماضی کا حصہ بن چکے ہیں جبکہ
کچھ اگرچہ شہروں میں متروک ہوچکے ہیں لیکن دیہی علاقوں کی تہذیب وثقافت کا
حصہ ہونے کی وجہ سے وہاں اب بھی نوجوانوں میں مقبول ہیں۔ یورپ میں بھی چند
کھیل ایسے ہیں جو دیہی علاقوں سے جنم لینے کے بعد نہ صرف یورپی شہروں بلکہ
امریکا‘ آسٹریلیا اور ایشیائی ممالک میں بھی نہ صرف ذوق و شوق سے کھیلے
جاتے ہیں بلکہ ملکی و عالمی سطح پر ان کی چیمپئن شپ کا بھی انعقاد
ہوتاہے۔ان میں سے چند ایسے کھیلوں کاتذکرہ ذیل میں پیش کررہے ہیں جن کے نام
سے بھی ایشیائی باشندے ناواقف ہوں گے لیکن یورپ امریکا اور آسٹریلیا میں ان
کے بین الاقوامی ٹورنامنٹس کا انعقاد کیا جاتاہے۔
وائف کیری انگ گیم
وائف کیری انگ گیم ، مرد حضرات کی جسمانی قوت اورہمت مرداں کا امتحان ہوتا
ہے جس میں شوہر اپنی بیوی کو اپنے اوپر سوار کرکے تیز دوڑنے کا مظاہرہ کرتا
ہے۔ بیوی کو کاندھے اور کمر پر سوار کرکے دوڑنے کے کھیل کا آغاز فن لینڈ کے
ایک دیہی قصبے سے حادثاتی طور پر ہواتھا لیکن یہ نہ صرف پورے ملک بلکہ دنیا
کے بیشتر ممالک میں رائج ہوتا گیا۔ 1800ء میں ’’ہرکوروزورونیکینن‘‘ نامی
شخص ڈاکوئوں کے ایک گروہ کا سردار تھا‘ جس نے ’’سونکاجروی‘‘ کے جنگلات میں
اپنا ٹھکانہ بنایاہواتھا۔وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ دیہاتوں پر حملہ کرتا اور
دیہاتیوں کا مال و متاع اوراشیائے خورونوش لوٹنے کے علاوہ ان کی بیویوں کو
بھی کمرپر لاد کر لے جاتا۔ سونکاجروی کے باسیوں کو اس طرح خواتین کو پیٹھ
پر سوار کرکے لے جانے کا انداز بہت بھایا اور وہ ان کی نقل میں اپنی عورتوں
کو اسی طرح کمر پر لاد کردوڑنے کی مشق کرنے لگے۔ کچھ عرصے بعد ان کا یہ
مشغلہ ایک کھیل کی شکل اختیار کرگیااور کچھ عرصےبعد مذکورہ گائوں میں
باقاعدہ اس کے مقابلے منعقد ہونے لگے۔چند ہی سالوں میں اس کی شہرت مختلف
قصبوں سے ہوتی ہوئی ملک کے شہروں تک جاپہنچی اور ڈاکو ہرکوروزونکینن کا
’’نظریہ ضرورت‘‘ کے تحت ایجاد کیاجانے والامذکورہ کھیل قومی سطح پر مقبولیت
اختیار کرگیا۔ 1990 فن لینڈ میں اس کی قومی اور 1992 میں عالمی چیمپئن شپ
کا انعقاد کیاگیا۔ اس کھیل کے قواعد وضوابط مرتب کئے گئے‘ اس کی تنظیمیں
وجود میں آئیں۔ اس کھیل میں شوہر بیوی کو اپنی سہولت کے مطابق بازوئوں میں
لے کر یا کمریا کاندھے پر لاد کر رکاوٹوں والے ٹریکس پر برق رفتاری سے
دوڑکر اختتامی حدتک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ٹورنامنٹ میں انعامات کاتعین
بیوی کے چثےسے کیاجاتاہے۔ 1995ء میں فن لینڈ کے بعد یہ کھیل دنیا کے دیگر
شہروں میں بھی مقبول ہوگیا۔2000ء سے یہ آسٹریلیا میں کھیلا جانے لگا اور
2005ء میں آسٹریلین وائف کیری انگ ٹائٹل چیمپئن شپ کا آغاز ہوا۔ گزشتہ دس
سال کے دوران چیمپئن شپ کے ان مقابلوں میں 130 آسٹریلوی جوڑے حصہ لے چکے
ہیں جن میں سے 8 نے فن لینڈ میں ہونے والی عالمی چیمپئن شپ تک رسائی حاصل
کی۔2016 میں ورلڈ وائف کیری انگ ورلڈچیمپئن شپ میں ایڈریان اور ایمنڈا نامی
آسٹریلوی جوڑے نے شرکت کی تھی اوران مقابلوں میں پانچویں نمبر پر رہنے کا
اعزاز حاصل کیا تھا۔
امریکا میں نوے کی درمیانی دہائی میں اس کھیل کا رواج ہوا اور اکتوبر 1999ء
میں نارتھ امریکن وائف کیری انگ چیمپئن شپ کا آغاز ’’سنڈے ریور‘‘ سے ہوا۔
گزشتہ اٹھارہ سال سے وہاں اس کا انعقاد باقاعدگی سے ہورہاہے۔دریا کے کنارے
گھاس کے بلند قطعات سے اس دوڑ کا آغاز ہوتاہے اور شوہر اپنی بیویوں کو کمر‘
کندھے اور بازوئوں میں لادکر یا گود میں اٹھا کر رکاوٹیں پھلانگتے دریا کے
پانی میں دوڑتے ہوئے فشنگ پوائنٹ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کینیڈا اور
امریکا کی مختلف ریاستوں سے ہرسال ہزاروں تماشائی یہاں صرف اس دوڑ کو
دیکھتے آتے ہیں۔رواں سال نارتھ امریکن وائف کیری انگ ٹائٹل جیتنے والے جوڑے
کو فن لینڈ میںہونے والی چیمپئن شپکے لیے منتخب کیاگیاہے۔برطانیہ میں بھی
یہ کھیل نوے کی دہائی میں پہنچا تھالیکن وہاںقومی سطح پر اس کے مقابلوں
کاآغاز 2000ء سے ہوا۔2007 میں اسے قومی کھیلوں میں شامل کیاگیا اور اسی سال
وہاں ’’یوکے وائف کیری انگ‘‘ چیمپئن شپ کا آغاز ہوا۔ رواں سال مارچ میں اس
سلسلے کی دسویں چیمپئن شپ منعقد ہوئی تھی جس میں برطانیہ کے علاوہ جنوبی
افریقہ اور آسٹریلیا کے 35 جوڑوں نے شرکت کی۔ اس مقابلے کی سب سے وزنی بیوی
کیری ہوف تھیں جن کا وزن 85 کلوگرام تھا۔ان کے دھان پان سے شوہر نے انہیں
کمر پر لاد کر رکاوٹیں پھلانگتے ہوئے تیز دوڑنے کا مقابلہ جیتا۔اس ٹورنامنٹ
کیلئے 380 میٹر یعنی 1250 فٹ طویل ٹریک بنایا گیا تھا جس میں ہرپندرہ منٹ
کے فاصلے پر رکاوٹیں حائل کی گئی تھیں۔
بھارت میں بھی اس کھیل کا انعقاد ہوچکا ہے لیکن ابھی یہ صرف ایک ریاست تک
محدود ہے۔ جنوری 2011 میں بھارت میں ماحولیاتی شعور سے متعلق آگہی دینے
والی تنظیم ’’ایکورن انڈیا‘‘نے کیرالا میں اس ریس کاآغاز کیا۔ ملیالم زبان
میں اس دوڑ کا نام ’’بھاری آسا میتھام‘‘ رکھا گیا جب کہ فن لینڈ کے مقامی
باشندے اسے ایکن کانٹو اور سویڈش کیری کانگ کہتے ہیں۔
چیز رولنگ
’’چیز‘‘ انگریزی میں پنیر کو کہتے ہیں۔ برطانیہ کے شہر گلوسسٹر شائر میں
ہرسال ’’چیز رولنگ ریس‘‘ کا انعقاد ہوتاہے، جس میں سینکڑوں شائقین شرکت
کرتے ہیں۔ مقابلے کے شرکاء ساڑھے تین کلو وزنی پنیر کاگول ڈبہ حاصل کرنے
کیلئے پہاڑی بلندیوں سے قلابازیاں کھاتے ہوئے نشیب کی جانب آتے ہیں۔جن میں
سے زیادہ تر افراد اپنی ہڈی پسلی تڑوالیتے ہیں جب کہ جیتنے والے شخص کو
پنیر کا ڈبہ ودیگر انعامات دیئے جاتے ہیں۔یہ کھیل برطانیہ میں گلوسسٹرشائر
کے علاقے میں ’’کوپرہل چیزرولنگ اینڈویک‘‘ کے نام سے معروف ہے۔اس کا آغاز
گزشتہ صدی میں بروک ورتھ کے قصبے سے ہوا، بعد میں علاقے کا روایتی کھیل بن
گیا۔اس کی شہرت سن کر دنیا بھر سے تماشائی گلوسسٹر شائر آتے ہیں جب کہ ان
میں سے بعض اس میں حصہ بھی لیتے ہیں۔نیپال‘ امریکا‘ نیوزی لینڈ‘ ویلز اور
آسٹریلیا سے آنے والے کئی کھلاڑی اس کے فاتح رہے۔یہ کھیل کوپر ہل کی
پہاڑیوں پر کھیلا جاتاہے۔مارچ 2010ء میں اسے مقامی انتظامیہ کی نگرانی میں
شروع کیا گیا تھا لیکن اس کے بعد سے ہرسال اس کاانعقاد، کھیل کے مقامی
شائقین اپنے طور سے کرتے ہیں۔ 9 پونڈ وزنی پنیر ایک گول ڈبے میں رکھ کر اسے
پہاڑی کی بلندی سے لڑھکایاجاتاہے جس کے ساتھ ہی مقابلے کے شرکاء اسے پکڑنے
کیلئے قلابازیاں کھاتے ہوئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے
ہیں۔لیکن گول قطر کا ڈبہ کسی پہیے کی مانند 112 کلومیٹرفی گھنٹہ کی رفتار
سے لڑھکتا ہوا نیچے کی جانب آتا ہے۔اسے پکڑنے کی تگ دو حالاں کہ لاحاصل
رہتی ہے لیکن جو کھلاڑی پہاڑی کے نیچے بنائی گئی فشنگ لائن پر پہلے پہنچتا
ہے ،وہ مقابلے کا فاتح قرار پاتا ہے اور اسے پنیر کے علاوہ دیگر انعامات
واعزازات سے بھی نوازا جاتاہے۔مقابلے کے لیے پنیر خصوصی طور پر قریبی گائوں
شرنگٹن میں تیار کیاجاتا ہے جو کوپر ہل سے 3 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔پہاڑی
پر سے قلابازیاں کھاکر اختتامی پوائنٹ پر پہنچنے کی کوشش میں ہرسال بے شمار
افراد زخمی ہوتے ہیں لیکن اس صورت حال سے نمٹنے کیلئےپہاڑی کے نیچے،سینٹ
جان ایمبولینس کابوتھ بنایا گیا ہے جہاں چیز رولنگ کے موقع پر ایمبولینس
گاڑیوں کا بیڑا موجود رہتاہے۔ سینٹ جان کے رضاکار زخمی ہونے والوں کو فوری
طور سے طبی امداد فراہم کرتے ہیں جب کہ شدید زخمیوں کو ایمبولینس میں ڈال
کر اسپتال پہنچایا جاتا ہے۔ 1997ء سے اب تک گلوسسٹر شائر میں چیز رولنگ کے
21 مقابلے منعقد ہوچکے ہیں۔
چیس باکسنگ
جیساکہ نام سے ہی ظاہر ہے کہ ’’شطرنج اور باکسنگ‘‘ یعنی یہ شطرنج جیسے
ذہانت اور باکسنگ کے جسمانی قوت کے مظاہرے کا امتراج ہے۔1979 میں اس کا
تصور ایک کنگفو مووی میں پیش کیا گیا تھا۔نوے کی دہائی میں ہالینڈ میں اسے
عملی شکل دی گئی اور چیس اور باکسنگ کو ملاکر اسے مخلوط کھیل کی صورت میں
پیش کیا گیا اوراس کے کلب اور تنظیمیں قائم کی گئیں۔ابتدا میں نمائشی
اورقومی سطح کے مقابلوں کے بعد ہالینڈ میں 2003ء میں پہلی چیس باکسنگ عالمی
چیمپئن شپ کا انعقاد ہوا۔اس کے کھلاڑیوں کا دونوں کھیلوں میں یکساں طور سے
ماہر ہوناضروری ہوتاہے۔ یہ مقابلہ گیارہ رائونڈز پر مشتمل ہوتاہے جس میں چھ
رائونڈ شطرنج کے ہوتے ہیں جن میں سے ہر رائونڈ 4 منٹ پر محیط ہوتاہے جس کے
بعد باکسنگ کے 5 رائونڈز کا آغاز ہوتا ہے اور ہر رائونڈ کا دورانیہ 3 منٹ
کا ہوتاہے جب کہ رائونڈز کے درمیان ایک منٹ کا وقفہ دیاجاتاہے۔شطرنج کی
بساط باکسنگ رنگ کے وسط میں لگائی جاتی ہے۔یہ مقابلہ دو کھلاڑیوں کے درمیان
ہوتاہے جو تماشائیوں کے شوروغل سے بچنے کیلئے اپنے کانوں پر ہیڈفون لگائے
ہوتے ہیں۔چیس باکسنگ کا نتیجہ ناک آئوٹ یا شطرنج کے دوران شہہ اورمات سے
نکالا جاتا ہے جب کہ دونوں کھلاڑیوں کے گیارہ رائونڈ تک مقابلے کی صورت میں
پوائنٹ اسکورنگ کی بنیاد پر ان کی فتح یا شکست کا فیصلہ کیاجاتا ہے۔اگر
شطرنج کا مقابلہ برابر رہے تو باکسنگ کے پوائنٹس کی بنیاد پر نتیجہ مرتب
کیا جاتاہے لیکن اگر باکسنگ کے پوائنٹس بھی برابر رہیں تو پھر شطرنج کے
عالمی قوانین کے مطابق سیاہ مہرے والے شاطرکو جیت کاحق دار قرار
دیاجاتاہے۔شطرنج میں چال کاآغاز سفید مہروں کا حامل کھلاڑی کرتاہے اور اسے
اپنے مقابل پر ایک چال کی برتری حاصل ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود کالے مہرے
والا کھلاڑی بازی کو برابر کرنے میں کامیاب رہتاہے اس لیے وہ فاتح قرار
پاتاہے۔اس کھیل کے قانون کے مطابق ’’شاطر باکسر‘‘ کی عمر 35 سال سے کم ہو
اور وہ باکسنگ کی 20 فائٹس میں حصہ لے چکاہو۔چیس باکسنگ کی پہلی عالمی
چیمپئن شپ کا انعقاد ڈچ باکسنگ ایسوسی ایشن اور ڈچ چیس فیڈریشن کے اشتراک
سے ورلڈ چیس باکسنگ آرگنائزیشن کی تنظیم بناکر 14 نومبر 2003 کو یونان میں
کیاگیاجس میں ڈچ مڈل ویٹ باکسر لیپے روبنگھ اور جین لوئیس کے درمیان مقابلہ
ہوا۔لیپے روبنگھ ورلڈچیس باکسنگ آرگنائزیشن کے بانی صدر ہیں۔انہوں نے اپنے
حریف کوہراکر چیس باکسنگ کے پہلے عالمی چیمپئن ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔یہ
مقابلہ شطرنج کے کھیل کاوقت ختم ہونے کے بعد باکسنگ میں گیارہ رائونڈز تک
جاری رہا۔دو سال بعداکتوبر 2005 میں پہلی یورپین چیس باکسنگ چیمپئن شپ برلن
میں منعقد ہوئی جس میں ’’ٹاہیوسرایٹانا ‘‘ پہلے یورپین چیمپئن بنے۔2006 میں
جرمنی کے شہر کولون میں گلوریا تھیٹرہال میں ورلڈ چیمپئن شپ کے کوالیفائنگ
رائونڈ کھیلے گئے جنہیں 800 تماشائیوں نے دیکھا۔حتمی مقابلہ زورن میجاٹووک
اور فرنیک اسٹولڈٹ کے درمیان ہوا جو سات رائونڈ تک محیط رہا۔فرینک اسٹولڈٹ
فاتح قرار پائے۔2007 میں دوسری عالمی چیمپئن شپ کا انعقاد برلن میں ہوا جس
میں فرینک کامقابلہ امریکی چیس باکسر ڈیوڈ ڈیپٹو سے ہوا جس میں فرینک نے
اپنے حریف کوناک آئوٹ کرکے عالمی چیس باکسنگ چیمپئن شپ کا ٹائٹل جیتا۔
2005 تک یہ کھیل دنیابھر میںمعروف ہوگیا۔2008 میں لندن میں اوکراس نویارسک
میں برٹش چیس باکسنگ کلب کا قیام عمل میں آیا۔2009 میں امریکا کے شہر لاس
اینجلس اور 2010 میں نیویارک میں کلب قائم کئے گئے۔میونح میں باکس ورک کے
نام سے تربیتی مرکز بنایاگیا۔2011 میں لندن اور برلن کے درمیان چیس باکسنگ
کا مقابلہ ہوا جس میں لندن کی ٹیم کو فتح حاصل ہوئی۔2011 میں یہ کھیل بھارت
میں بھی فروغ پذیر ہوا اور وہاں چیس باکسنگ آرگنائزیشن انڈیا کی تنظیم قائم
کی گئی۔بھارت کے بعد اس کی مقبولیت ایشیاء کے دیگر ممالک میں بھی
ہوگئی۔تہران میں چیس باکسنگ آرگنائزیشن ایران اور چین میں چائنا چیس باکسنگ
ایسوسی ایشن قائم ہوئی۔2012 میں اٹلی کے کھلاڑی بھی اس کھیل میں حصہ لینے
لگے اور وہاں چیس باکسنگ فیڈریشن اٹلی کا قیام عمل میں آیا۔2012 میں تیسری
چیس باکسنگ عالمی چیمپئن شپ کے مقابلے کا انعقاد ہوا جس میں روسی چیس باکسر
نکولائی سازن نے برطانیہ کے اینڈی کوسٹیلو کو ہراکرعالمی چیمپئن کا اعزاز
حاصل کیا۔رواں سال چیس باکسنگ کے کھلاڑیوں کی تنظیم چیس باکسنگ ایسوسی ایشن
کے نام سے قائم کی گئی جس کے صدر برطانیہ کے چیس باکسنگ کے چیمپئن ٹم ووگلر
ہیں۔2014 میں جرمنی کے قوانین کے تحت چیس باکسنگ گلوبل کو اس کھیل کی
مارکیٹنگ کے لیے حقوق دے دیئے گئے، جس کے بعد یہ کھیل بھی پروفیشنل بن گیا
ہے۔
ایگ ٹاسنگ یا ایگ تھروانگ
ایگ ٹاسنگ یا ایگ تھروانگ، برطانیہ کامذہبی وروایتی کھیل ہےجو ایسٹر کے
تہوار کے ساتھ مربوط ہے۔’’میڈی ویل‘‘ برطانیہ میں انڈے پھینکنے کا کھیل اس
تہوار کے موقع پر گرجاگھروں میں منعقد کیا جاتاہے۔اس میں اس بات کا خیال
رکھاجاتا ہے کہ انڈا پھینکے جانے کے بعد جب میدان میں گرے تو ٹوٹنے سے
محفوظ رہے۔یہ اس صورت میں ہی ممکن ہے اگر اسے گھاس کے قطعے پر پھینکا
جائے۔میڈی ویل کے گرجاگھروں میں اسے ’’پاگان‘‘ کے مسیحی نظریے کی رو سے
مذہبی حیثیت حاصل ہے۔اس کھیل کیلئے پادری کھلاڑیوں کو سخت ابلا ہوا انڈا
فراہم کرتاہے۔ہالینڈ میں بچے اس قسم کا کھیل ’’ایگ سیل‘‘ کے نام سے کھیلتے
ہیں۔اس میں ایک بچہ دوسرے کو انڈا فروخت کرتاہے جو اسے گھاس پر پھینکتا
ہے۔اگر انڈا ٹوٹنے سے محفوظ رہے تو وہ فروخت کرنے والے بچے کو واپس
کردیاجاتاہے۔ یہ کھیل دو افراد کی ٹیم کے درمیان کھیلا جاتاہے۔جب اس ٹیم کا
ایک کھلاڑی دوسرے شخص کی جانب انڈا پھینکتا ہے تو وہ اسے کیچ کرنے کی کوشش
کرتاہے۔اگر وہ اسے پکڑنے میں کامیاب رہے یازمین پر گرنے کے بعد ٹوٹنے سے
محفوظ رہے تو یہی عمل دوسرا کھلاڑی دہراتا ہے اور یہ کھیل اس وقت تک جاری
رہتاہے جب تک انڈا نہ ٹوٹے‘آخری رائونڈ میں بھی انڈا سلامت رہے تو کسی ایک
کھلاڑی کو جیت کا حق دار قرار دیا جاتاہے۔4 جولائی 2011 کو’’ گریک ول‘‘
اداہومیں اس کھیل میں 2130 افراد نے حصہ لے کر عالمی ریکارڈ قائم کیا
تھا۔نومبر 1978 میں ٹیکساس کے قصبے ’’جیوٹ‘‘ میں کیتھ تھامس نامی شخص نے
مرغی کا تازہ انڈا گھاس کے قطعہ میں پھینکا جو 323 فٹ کے فاصلے پر گرا اور
ٹوٹنے سے محفوظ رہا۔یہ کارنامہ نہ صرف ایگ ٹاسنگ کا عالمی ریکارڈ قرار
دیاگیا بلکہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی درج کیاگیا۔اس کا یہ ریکارڈ
1999 تک برقرار رہا۔
ورلڈ ایگ تھروانگ فیڈریشن انگلینڈ کے مصدقہ ریکارڈ کے مطابق 2012 میں
ہالینڈ کے اینڈیزاسمنک اور ہل برائڈویسر نے 69.5 میٹر یعنی 228 فٹ کے فاصلے
تک ایگ تھروانگ کا مظاہرہ کیا ‘2013 میں آئرلینڈ کے ولی اوڈینون اور ویرن
میک ایلہن پر مشتمل ٹیم نے آئرش ایگ ٹاسنگ قومی چیمپئن شپ کے مقابلے میں
71.2 میٹر کے فاصلے پر انڈا پھینک کر نیاعالمی ریکارڈ قائم کیا۔2014 میں ان
سے یہ اعزاز ہالینڈ کے اینڈریز اور باکے جیٹنر نامی کھلاڑیوں نے چھینا،
جنہوں نے 76.27 میٹر کے فاصلے پر ایگ ٹاسنگ کرکے عالمی چیمپئن شپ کانیا
ریکارڈ قائم کیا۔جون 2017 میں ان کی برتری نیوزی لینڈ کی دو رکنی ٹیم کے
کھلاڑیوں ’’روبی ہولینڈر‘‘ اور ’’رنک ہارینٹن‘‘ نے 81 میٹر کے فاصلے پر
انڈا پھینک کر ختم کی اور ایک ٹاسنگ عالمی چیمپئن کی حیثیت سے اپنا نام ثبت
کرایا۔2000ء کے بعد یہ کھیل دنیا کے بیشتر ممالک میں مقبول ہوگیا اور ان
میں اس کی تنظیمیں وجود میں آگئیں جن کی نگرانی میں یہ کھیل کھیلا
جاتاہے۔میری لینڈ امریکا میں 2005ء میں نیشنل ایگ ٹاس چیمپئن شپ کا آغاز
ہواجو اب ہرسال ہوتاہے۔2006 سے سواٹن انگلینڈ میں نیشنل ایگ تھروانگ چیمپئن
شپ کا انعقاد ہوتاہے جو ہرسال جون کے مہینے میں پہلے اتوار کو
کیاجاتاہے۔ایگ تھروانگ کی طرح یورپ اور امریکا میں اس طرح کا ایک کھیل
’’ایگ رولنگ‘‘ بھی خاصا مقبول ہے۔ لیکن یہ اول الذکر سے زیادہ قدیم
شمارہوتاہے۔اس کا تصور 1835 میں جیکب گریم نے ایک مذہبی کھیل کے طور سے پیش
کیاتھا۔برطانیہ میں لنکاشائر کی ’’ہول کوبے‘‘ کی پہاڑیوں‘پرلسٹین میں ایون
پارک پر صدیوں سے کھیلاجاتاہے۔اس میں انڈوں کو رنگین کاغذوں سے سجاکر پہاڑی
ڈھلوان سے لڑھکایاجاتا ہے‘ لیکن حالیہ عرصے میں انڈوں پر چاکلیٹ کی تہیں
چڑھاکر یہ اسے کھیلاجاتاہے۔ اس کھیل کے دوسرے مقامات‘ پنرتھ میں کیل ہل‘
ڈربی شائر میں بنکرہل اور ایڈن برگ میں آرتھرزسیٹ ہیں۔
امریکا میں اس کھیل کے سالانہ مقابلے کا انعقاد ایسٹر کے تہوار کے بعد پہلے
پیرکو وائٹ ہائوس کے جنوبی لان میں کیاجاتاہے‘ جس میں 13 سال تک کی عمر کے
بچے اوران کے والدین حصہ لیتے ہیں۔کھیل کی میزبانی امریکی صدر اور خاتون
اول کرتی ہیں۔مقابلے کے شرکاء کے ہاتھوں میں لمبے دستے والا چمچہ ہوتاہے جس
سے وہ انڈے پر ہٹ لگاکر دور پھینکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس بچےکی ضرب لگایا
ہوا انڈا سب سے دورجاتا ہے وہی فاتح قرار دیاجاتاہے اورا سے امریکی صدر کی
جانب سے انعامات واعزازات سے نوازا جاتاہے۔ابتداء میں اس کھیل کے لیے
واشنگٹن میں کانگریس کے کیپٹل گرائونڈ میں ایک نیالان بنایا گیا تھا۔ایک
روایت کے مطابق چوتھے امریکی صدر جیمزمیڈیسن اوران کی اہلیہ ڈولی میڈیسن نے
یہاں پہلے ایگ رولنگ ٹورنامنٹ کا افتتاح کیاتھا۔لیکن اس کے اختتام پر
امریکی کانگریس کی طرف سے کیپٹل گرائونڈ میں اسے بچوں کیلئے کھیل کا میدان
بنانے کوغیرقانونی اقدام قرار دیاگیا‘جس کی وجہ سے ایگ رولنگ کے مزید
مقابلوں کا انعقاد کئی عشرے تک نہ ہوسکا۔اس کھیل کی بحالی کے لیے ہزاروں
بچوں کی طرف سے امریکی صدر کوعرض داشت پیش کئے جانے کے بعد 19ویں امریکی
صدر رتھ فورڈہائیز اوران کی اہلیہ لوسی ہائیزنے اس کا انعقاد وائٹ ہائوس کے
لان میں کیاجس کے بعد سے وہاں ہرسال باقاعدگی سے اس کے مقابلوں کا انعقاد
کیاجاتاہے جرمنی میں بھی یہ خاصامقبول ہے۔ڈنمارک میں بھی اس کے مقابلے
منعقد ہوتے ہیں جب کہ مصر‘لتھوانیاا ور مشرقی یورپ کے دیہاتوں میں بھی اس
کے شائقین بڑی تعداد میں موجودہیں۔ |