دروازے پر گھنٹی بجی تو میرے بیٹے عبد الرافع نے دروازہ
کھولا۔ باہر میرے کرکٹ کے دور کا دوست مسرت عرف عبد القادر اور اُس کے ساتھ
ایک اجنبی جس کا نام جابر عباس سکنہ تھنیل روڈ نزد بھنوڑا قبرستان چکوال
تھا موجود تھے۔ میں نے اُن کو ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ آنے کی وجہ دریافت کی
تو پتہ چلا کہ جابر عباس کی بیٹی نے گورنمنٹ گرلز ہائی سکول نمبر 1 چکوال
راولپنڈی بورڈ میں میٹرک کے سالانہ امتحان میں 1100 میں سے 1042 نمبر حاصل
کر کے سب کو حیران کر دیا۔ جابر عباس نے اپنی دُکھ بھری داستان سنائی تو
مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے وعدہ کر لیا کہ میں آپ کے گھر ضرور آؤں گا۔
جب وعدہ وفاء کرنے اُن کے تین مرلے کے ایک کمرے والے گھر میں پہنچا تو میری
آنکھیں بھیگ گئیں۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ علیشہ حجاب نے اس ایک کمرے کے گھر
میں بیٹھ کر اتنا بڑا معرکہ سر انجام دیا جبکہ نجانے کتنے ایسے پاکستانی
ہیں جن کے پاس بے پناہ وسائل بھی موجود ہیں، اُن کو والدین پڑھانا بھی
چاہتے ہیں مگر وہ پڑھنا نہیں چاہتے۔ علیشہ حجاب ایک ایسے گھر میں رہتی ہیں
جس میں نہ باورچی خانہ ہے اور نہ ہی باقاعدہ ٹائلٹ۔ مجھے دروازے کپڑے کے
پردے کے نظر آئے۔ ایک کمرہ جس میں ہر طرف علیشہ حجاب کی کتابیں ہی پڑی نظر
آئیں۔ جابر عباس نے اپنی دُکھ بھری داستان سنائی کہ وہ نیشنل بینک چکوال کی
مین برانچ میں 2013ء سے 2015ء تک نوکری کرتا رہا۔ بینک کی صفائی کرنے کی
نوکری تھی۔ صبح سب سے پہلے جاتا اور سب سے آخر میں واپس لوٹتا۔ جابر عباس
کو چند افراد نے ملی بھگت سے بغیر کسی وجہ کے نوکری سے نکال دیا مگر جابر
عباس نے ہمت نہ ہاری اور اپنے خاندان کی کفالت کرنے کے لئے رنگ کا کام شروع
کر دیا۔ جس مکان میں رہتے ہیں وہ اُن کا اپنا نہیں ہے اُن کے بھائی کا ہے۔
جابر عباس نے روتے ہوئے بتایا کہ میرے دو بچے ہیں۔ میں اپنے بچوں کی تعلیم
کسی صورت بھی ادھوری نہیں چھوڑنا چاہتا۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے بچے اعلیٰ
تعلیم حاصل کریں اس کے لئے مجھے جو بھی قیمت ادا کرنی پڑی میں کروں گا۔
اگرچہ مجھ پر 6 مرتبہ ٹائیفائیڈ کا حملہ ہو چکا ہے مگر میں پھر بھی اپنے
بچوں کی خاطر محنت مشقت کر رہا ہوں۔ علیشہ حجاب کے اندر کمال کی خود
اعتمادی دیکھی۔ علیشہ نے کہا کہ میں ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں اور ڈاکٹر بن کر
ملک و قوم کی خدمت کروں گی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف سے اپیل
کی کہ مجھے تعلیم حاصل کرنے کے لئے اچھے مواقع دئیے جائیں تاکہ میں میڈیکل
میں جا سکوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جس کے پاس کچھ نہیں ہوتا وہ کچھ حاصل
کرنے کے لئے سب کچھ داؤ پر لگا دیتا ہے۔ میں نے اتنے نمبر حاصل کرنے کے لئے
سخت محنت کی۔ رات کو ایک بجے تک پڑھتی تھی، اگرچہ ایک کمرہ ہونے کی وجہ سے
گھر والوں کو بھی پریشانی ہوتی تھی مگر میرے والدین نے میرا برابر کا ساتھ
دیا اور میں نے اتنے اچھے نمبر لئے۔ میں مزید 40 نمبر اور حاصل کر سکتی تھی
یعنی 1100 میں سے 1080 نمبر حاصل کرنا میرے لیے مشکل نہ تھا مگر میرے پاس
نہ کمپیوٹر ہے اور نہ ہی جدید وسائل۔ اگر میرے پاس اچھے مواقع ہوتے تو میں
ضرور مزید اچھی کارکردگی دکھاتی۔ علیشہ حجاب نے مزید بتایا کہ میں نے ایسے
دن بھی گذارے ہیں جب ہمارے گھر میں لائٹ تک نہ تھی۔ اگرچہ میرے والد بیمار
ہیں مگر اُن کی ہمت اور حوصلے کی وجہ سے مجھے مشکل حالات کے ساتھ مقابلہ
کرنے کی ہمت پیدا ہوئی۔ ابھی میرا سکالرشپ پر پنجاب کالج میں داخلہ ہوا ہے
مگر میرے پاس کتابیں اور یونیفارم خریدنے کے وسائل نہیں ہیں مگر میں ہمت
نہیں ہاروں گی، میں ضرور کامیابی حاصل کروں گی۔ میں بڑی ہو کر کامیاب انسان
بن کر غریبوں کے لئے ایک ٹرسٹ بنانا چاہتی ہوں، والدین کی اُمیدوں پر پورا
اُترنا چاہتی ہوں۔
قارئین محترم! علیشہ حجاب پاکستان کی بیٹی ہے، ہمارے معاشرے کی بیٹی ہے۔ ہم
روزانہ نجانے کتنے پیسے ایسے کاموں میں لگا دیتے ہیں جن کا کوئی مقصد نہیں
ہوتا۔ ہمیں اس طرح کی بیٹیوں کا مستقبل محفوظ بنانا ہو گا۔ اگر آج ہم علیشہ
کو سپورٹ کریں گے تو آنے والے وقت میں علیشہ غریبوں کا سہارا بنے گی۔ ہمیں
اس بچی کے مستقبل کو تابناک بنانا ہے۔ میں علیشہ حجاب کے والد جابر عباس کا
موبائل نمبر لکھ رہا ہوں۔ آپ ضرور ایک ایسے انسان کی مدد کریں جو صرف اپنی
سفید چادر کو بچا کر انتہائی کسمپرسی کی زندگی گذار رہا ہے اور اپنی بیٹی
کی تعلیم پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہے۔ بے شک ہر اچھے کام کا اجر
اﷲ کی ذات ہی دیتی ہے۔ جابر عباس موبائل نمبر 0315-3691272۔ اﷲ تعالیٰ
پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔
|