الف: بابا جی میرےاندر ایک کشمکش ہے، میرے رگ و پے میں،
میرے دل میں ، میرے حواس پہ اور میرے موجود کی ہر گھڑی میں، اپنے آپ سے ہٹ
کر کچھ ہونےکی خواہش زور پکڑ گئی ہے۔ میں جتنا اپنے مرکز کے قریب ہونا
چاہتا ہوں، اس سے دو گنا دور ہٹ جاتا ہوں، ایسا لگتا ہے میرا وجود ایک نہ
نظر آنے والی توڑ پھوڑ کی زد میں ہے، میں رکنا چاہتا ہوں، ٹھہرنا چاہتا ہوں
لیکن حرص کی ہواہے، جو میرے وجود کو تنکےکی مانند اڑائے پھرتی ہے، میرے
اندر لامتناہی خواہشات کا ایک بے ہنگم ہجوم ہے ، ایسا ہجوم جو قطار بنانے
کے سلیقے سے بے نیاز، ان لوگوں کی مانند ہے، جو سٹیڈیم کے باہر کھڑے اپنے
پسندیدہ کھلاڑی کے ایک آٹو گراف کےلیے اپنا آپ تک بھلا دیتے ہیں ، میں بھی
ایسے ہی کسی نا معلوم ہجوم کا حصہ ہوں، جس کو پیچھے ہٹاتےاور اپنا راستہ
بنانے کی کوشش نےمجھے تھکا ڈالا ہے، میری عزت نفس کو مجروح کر دیا ہے۔ میرا
لاشعور تقاضا کرتا ہے کہ کچھ ہونے کے لیےمجھےلوگوں کی مہر تصدیق چاہئے، اور
جتنا میں اس خواہش کو اپنے سے الگ کرنا چاہوں، اتنا ہی وہ رستہ بدل بدل کہ
ہر موڑ پہ جگا ٹیکس وصول کرنے آکھڑی ہوتی ہے۔ میں اچھا بننا چاہتا ہوں، میں
تعریف کا بھوکا ہوں، اپنے نفس کا بے دام غلام ہوں میں ! اور جانتے ہیں بابا
جی ، یہاں میرا دل اور دماغ دونوں میرے خلاف بر سر پیکار ہیں ۔ دل میں اپنی
برتری ثابت کرنے کی آرزو سمائی ہے اور دماغ پر بھی دل ہی کا تصرف ہے، میں
کیا کروں بابا جی۔۔۔۔میں کہاں جاؤں؟؟میں اپنی ذات کو اس انا اور تکبر کی
قید سے کیسے آزاد کرواوں؟
بابا جی: دیکھ بیٹا، اللہ نےتخلیق کے عمل کے دوران ، کئی صفات قدسی کے
زریعے سے انسان کو اپنی ذات سے متصل کردیا یے۔ زمین سے آسمان تک ہر
جانداراور بےجان شے اللہ کی تعریف اور کبریائی بیان کرتی ہےاوراللہ بھی اس
بات کو محبوب جانتے ہیں، لیکن انسان بہت نادان ، بہت کمزور ہے، اپنی جبلت
کے ہاتھوں مجبور، ہمہ وقت اپنی تعریف سننے کا خواہاں ہے۔ وہ بھول جاتا ہے
کہ تمام تعریفیں بس آللہ جل جلالہ کی ذات کے لیے ہیں۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ
انسان اپنی ذات کو پہچاننے کا قصد کرے، خالص اپنی اصلاح کی نیت سے، اوراللہ
کے قرب کے حصول کی خاطر، اپنی انا اور دوسروں کی مہر تصدیق بالائے طاق رکھ
کہ ۔۔۔
انسان پر اپنی تخلیق کے مقصد کو پہچاننا لازم ہے!
یار دکھنا، سفر کہیں کا بھی ہو بیٹا، قصد/ارادے کا محتاج ہوتا ہےاور ارادہ
، عمل میں تحلیل ہوتے وقت ، آخری مرتبہ سوالیہ نگاہوں سے نیت کی جانب
دیکھتا ہے، عین اسی وقت اپنی نیت کو ٹٹول ، اپنےاندر جھانک کہ خوب غور سے
دیکھ، اور پوچھ اپنی نیت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کہ وہ تجھ سے کیا اور
کیوں کروانا چاہتی ہے؟؟ کان لگا کہ اپنے اندر کے جواب کو سن، کیا تو اس لیے
اچھا کرنا چاہتا ہے تاکہ تو نیک کہلائے؟ اپنی اچھائی کی قیمت لوگوں کی
آنکھوں میں ڈھونڈتا پھرتا ہے؟ پھر تو اچھا بننے اور اچھا بن کے دکھانے کے
فرق کو تو نہیں جان پایا! اپنی ذات سے بڑھ کہ کچھ ہونے کا عمل اس وقت وجود
میں آتا ہے جب اپنی کسی بھی اچھائی کا معاوضہ مخلوق سے وصول کرنے کی خواہش
دم توڑ دیتی ہے۔ اپنے دل سے تکبر کو نکال پھینک۔۔۔۔اور وہ طاقت جس سے تو
لوگوں کے ذہنوں پہ زور آزمائی کرتا ہے، اس کو اپنے دل پہ لگا، اور ایسا کئے
جا بغیر تنقید اور تبصرے کے۔۔۔جب تک کہ تیرا دل پھر نہیں جاتا مخلوق سے
خالق کی طرف، فانی سے لافانی کی طرف ۔۔۔تیرا ہر عمل صرف اللہ اور اس کے
رسول صل اللہ علیہ والہ وسلم کے لیےہو ۔۔اور جس دن تو یہ کرنے میں کامیاب
ہو گیا، تیرے وجود سے لپٹی خوف کی طنابیں خودبخود ڈھیلی پڑ جائیں گی۔ اور
تیرے دل میں پھیلی "میں" کی حکومت کا تختہ الٹ جائے گا۔
دھیان سے سن بیٹا، انسان اپنے عمل میں بااختیار سہی لیکن نیکی کی توفیق بھی
من جانب اللہ ہوتی ہے، وہ زات جس کو چاہے ہدایت دے اور جب چاہے اچھائی کی
توفیق سلب کر لے۔ سو تو جب کبھی نیک عمل کرنے کا تصور کرے تو خیال رہے کہ
نیت پہ کڑی نگاہ ہو اور اس کے عوض معاوضے یا بخشش کا متقاضی مخلوق سے ہرگز
نہ ہو، اور اس بات پہ پختہ یقین ہو کہ دنیا اور دنیا سے وابسطہ ہر چیز ،
محض وقتی تسکین کا سامان ہے، اور دائمی سکون ہے صرف اس کھوج میں جو اللہ کی
ذات سے شروع ہو کر اسی کی زات پر ختم ہو جاتی ہے۔
عارضی سہارے چھوڑ ۔۔۔۔۔۔۔مانگنا ہے تو اس سے مانگ جو خود ہر احتجاج سے
بالاتر، اپنے بندے کے گمان کے مطابق، اس کی شہ رگ سے بھی قریب اور سب سے
بڑا قدردان ہے۔ سچا سودا کر بیٹا ۔۔۔سچا سودا!!
|