لاہور ہائی کورٹ سی ایل سی 2016 صفحہ نمبر 408 کے مطابق
رٹ پٹیشن نمبر2410/2014 کے پٹیشنرز میں سے ایک پٹیشنر سید علی مہدی قزلباش
نے1985 میں ایل ڈی اے لاہور کو درخواست دی کہ وہ 180 کنال کے مالک ہیں اور
اُنھیں مار رُخ ہاوسنگ سکیم کے نام سے ایک ہاوسنگ سکیم کی منظور دی جائے۔
سید علی مہدی قزلباش کو ہاوسنگ سکیم کی اجازت دے دی گئی اور اُنھوں نے اپنی
درخواست کی سکروٹنی کے لیے 15200 فیس ایل ڈی اے کو جمع کروادی۔ درخواست
دہنگان نے مزید 899کنال اور دس مرلے زمین خرید ی تاکہ ہاوسنگ سکیم کے لیے
خاطر خواہ زمین ہو اور اُنھوں نے ساتھ ایل ڈی اے کو اپروچ کیا کہ وہ ہاوسنگ
سکیم کا نام ممتاز ہاوسنگ سکیم کردے اتھارٹی نے نام تبدیل کر دیا لیکن ابھی
ہاوسنگ سکیم کی منظوری کو التوا میں رکھا۔ اسی اثنا میں ایل ڈی ائے نے
لاہور کی ایکسٹینشن کے لیے مولہنوال کے مقام پر 16000 کنال پر مشتمل ایک
ہاوسنگ سکیم کے لیے زمین ایکوائر کرنے کا پروگرام بنایا ِس ایل ڈی اے کی
سکیم میں درخواستگزاروں کی ماہ رخ ہاوسنگ سکیم بھی شامل کر دی گئی۔ پٹیشنرز
نے رٹ نمبر 13404/1994 کے تحت ایل ڈی اے کے اِس اقدام کو لاہور ہائی کورٹ
میں چیلنج کر دیا۔ایل ڈی اے کی سکیم جو کہ سولہ ہزار کنال پر مشتمل تھی کا
نو ٹیفکیشن خود ہی ختم ہوگیا کیونکہ اُس کی مدت ایک سال تھی یوں وہ
3-8-1994 کو میعاد ختم ہونے کی بناء پر خود ختم ہوگیا۔ 16-10-1995 کو چونکہ
نوٹیفکیشن سولہ ہزار کنال والی ایل ڈی اے سکیم کا ختم ہوچکا تھا بعدازاں
ڈائریکٹر جنرل ایل ڈی ائے نے ایل ڈ ای اے کے چیئرمین کو ایک سمری بھیجی کہ
چونکہ مذکوہ مارخ ہاوسنگ سکیم کے تمام تر قانونی معاملات درست قرار پائے جا
چکے ہیں اِس لیے ایل ڈی اے کی سولہ ہزار کنال والی لاہور ایکسٹینشن سکیم
میں سے مارخ ہاوسنگ سکیم کی زمین کو نکال دیا جائے۔ لیکن ڈائریکٹر جنرل ایل
ڈی اے کی اِس تجویز پر کوئی عمل نہ ہوسکا۔ اِس پر پٹیشنرز نے ایک رٹ
نمبر12750/1990 لاہور ہائی کورٹ میں کی جس میں یہ استدعا کی گئی کہ
نوٹیفکیشن مورخہ20-04-1994 میں سے پٹیشنرز کی زمین کو نکالا جائے۔
9-10-1996 کو ڈسٹرکٹ کلٹر لاہور نے ایک نوٹیفکیشن سیکشن کے تحت دو ایکٹر
زمین ورکزرز ویلفیئر بورڈ کی لیبر کالونی بنانے کے لے کیا ۔ پٹیشنرز کی
زمین بھی اِس نوٹیفکیشن کی زد میں آرہی تھی۔ پٹیشنرز نے رٹ نمبر 20394/1996
لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی ۔ پٹیشنرز کی جانب سے دائر کردہ تما م رٹ
پٹیشنز کو فائنل سماعت کے لیے5-06-1997 کو رکھا گیا۔ اِس پٹیشن کو ڈس پوز
آف کر دیا گیا ۔ اِس کے بعد 9-7-1997 کو درخواست دہندگان نے اتھارٹی کو
درخواست دی کہ ممتاز ہاوسنگ سکیم کے کیس کو فائنل کردیا جائے۔ لیکن درخواست
گزار کی درخواست کو بورڈ نے کوئی پزیرائی نہ دی بلکہ 6-12-1997 کو بورڈنے
ایک نوٹیفکیشن سیکشن چھ اور 4 ۔ 1894 کے ایکٹ کے تحت جاری کردیا۔ اِس کے
علاوہ ڈپٹی کمشنر نے زمین مالکان کو زمین دینے کی بجائے اُن کو زمین کا
معاوضہ دینے کا حکم صادر فرما دیا جو لیبر کالونی کے لیے حکومت نے لی تھی۔
چونکہ پٹیشنرز کی جانب سے پرائیوٹ ہاوسنگ سکیم شروع کرنے کے لیے جو این او
سی پٹشنرز نے مانگا تھا نہیں دیا گیا اِس لیے پٹیشنرز نے ایک رٹ
نمبر812/1998 اِس ستدعا کے ساتھ ہائی کورٹ میں دائر کی کہ ورکرز بورڈ اور
ایل ڈی اے کو اُن کی زمین اپنی اسکیموں میں ڈالنے سے روکا جائے۔ابھی جب کہ
یہ والی رٹ زیر التوا ہی تھی کہ اے ڈی اے نے ایک اور اسکیم جس کا نام جوبلی
ٹاون فیز ٹو تھا شروع کرنے کا اعلان کردیا۔ اِس اسکیم کے لیے زمین حاصل
کرنے کے لیے سیکشن چار کے تحت لیند کلکٹر نے27-02-1998 کو نوٹیفکیشن جاری
کردیا۔ پٹیشنرز کی زمین کو پھر نئی اعلان کردہ زمین میں شامل کر لیا گیا۔
پٹیشنرز کی جانب سے ایک رٹ پٹیشن نمبر 812/1998 دائر کی گی جس میں دیگر
معاملا ت کا بھی ذکر تھا۔اِس میں 12750/1996 نمبر کی رٹ بھی شامل کر لی
گئی۔فائنل سماعت کے لیے 16-11-1999 کی تاریخ مقرر کی گئی۔ اِسکا آئی سی اے
میں فیصلہ ہوا۔ اِسے 18-11-1997 کو ڈس پوز آف کر دیا گیا۔اِس میں اتھارٹی
کو حکم دیا گیا کہ No.146/1996 ICA میں 18-111997 کو جو فیصلہ کیا گیا ہے
۔اُس کی روشنی میں ایل ڈی اے اتھارٹی دو ماہ کے اندر اندر پرائیوٹ ہاوسنگ
اسکیم کی بابت جو درخواست زیر التوا ہے اُس کافیصلہ کر دیا جائے۔ عدالت کے
حکم کے بعد پٹیشنرز نے ایک خط مورخہ 7-02-2001 کو اتھارٹی کو لکھا جس میں
اسکیم کا تبدیل شُدہ پلان پیش کیا گیا۔ لیکن اتھارٹی نے اِس تبدیل شُدہ
منصوبے کو مسترد کر دیا یہ کہ آپ کا یہ پلان اتھارٹی کے زیر غورپلان جوبلی
ٹاون فیز 2 سے متصادم ہے۔ تاہم پٹیشنرز نے بعد ازاں کا فی مرتبہ اتھارٹی کے
دفتر کے چکر لگائے اور کہا کہ اُن کے زمین کو ایکوائر کی جانے والی زمین
میں سے نکالا جائے۔ تاہم اتھارٹی نے کوئی مثبت جواب نہ دیا۔ بعد ازاں آخری
کو شش کے طور پر پٹیشنرز نے ایک رٹ دائر کی کہ 16-11-1999 کے فیصلے جو کہ
رٹ نمبر12750/1996 میں کیا گیا تھا اور ICA-No.146/1996 کا فیصلہ جو کہ بعد
میں اپیکس کورٹ سے کنفرم ہوا جس کا آرڈر کریمنل رٹ پٹیشن نمبر 194-l/2000
تا 199-L/2000 پہ تھا پر عمل درآمد کروایا جائے۔ رٹ میں مزید یہ بھی استدعا
بھی کی گئی کہ نہ صرف کاسٹ ڈالی جائے بلکہ پٹیشنرز کے حق میں پرائیوٹ
ہاوسنگ اسکیم بنانے کی منظوری کی بھی کروائی جائے۔ ابھی اِس رٹ پر فیصلہ نہ
ہوا تھا کہ ایل ڈی اے اتھارٹی کے کلکٹر نے سیکشن چار کے تحت کہ ایل ڈی ائے
ایونیو1- ہاوسنگ اسکیم کے لیے زمین ایکوائر کرنے کے لیے ایک نوٹیفکیشن جاری
کردیا ۔پٹیشنرز نے ایک درخواست CM No.1/2003 اِس آرڈر کو روکنے کیے دائر
کردی جو زمین ایکوائر کرنے کے لیے کلکٹر ایل ڈی اے نے جاری کیا تھا اور اِس
کے ساتھ ہی یپٹیشنرز نے ایک درخواست CM No.86/2003 دائر کردی جس میں جمع
شدہ دو درخواستیں جو مورخہ 22-01-2003 کو دی تھیں کہ اُن کی استدعا میں
ترمیم کی جائے۔ اِس کے علاوہ دو مزید درخواستیں عدالت میں جمع کروائی گئیں
کہ نوٹفکیشن میں سے اُن کی زمین کے خسر ہ نمبروں کو نکالا جائے۔ عدالت میں
جمع کروائی گےء اِن درخواستوں کے مندرجہ ذیل نمبرCM NOo.605/2003, CM No.
824/2003 تھے۔ اِن درخواستوں کو جو پٹیشنرز نے دائر کیں اتھارٹی نے بھی ایک
درخواست نمبر825/2003 دائر کردی کہ یہ درخواستیں عمل درآمد کے قبل نہ رہی
ہیں۔ بعد ازاں پٹیشنرز نے ایک اور درخواست نمبر CM No. 118/2003 دائر کی کہ
اُن کی زمین کو اتھارٹی کے نوٹفکیشن نمبر 4 اور 6 اور(174)4) )کے تحت والے
نوٹفکیشن سے حذف کیا جائے۔بعد ازاں نے اتھارٹی نے ایک درخواست نمبرCM.No.
1/2012 دائر کی کہ پٹیشنرز کی درخواست قابلِ سماعت نہ ہے۔ پٹیشنرز نے ایک
اور درخواست نمبر CM No.2/2014 ایوارڈ کا اعلان نہ کیا جائے۔آخر میں
پٹیشنرز نے ایک درخواست نمبر CM. No.3/2014 عدالت میں دی کہ زمین مقدمہ کا
قبضہ اُن کے حق میں بحال کے جائے۔درخواست گزارن نے اِس سے متعلقہ توہین
عدالت کی درخواست جس کا تعلق مورخہ 20-10-2014 کے حکم سے تھا بھی عدالت میں
دائر کردی۔ اِس طرح تمام معاملات یکجاء ہوگئے۔ اِس لیے اِن کا ایک ہی آرڈر
کیا گیا ہے۔ اِس کیس میں پٹیشنرز نے اتھارٹی کو ایک پرائیوٹ ہاوسنگ اسکیم
کی اجازت کے لیے رجوع کیا کہ وہ اُسے این او سی جاری کرئے لیکن ایل ڈی اے
اتھارٹی نے اپنی ہاوسنگ سوسائٹی بنانے کے لیے اُس میں شامل کر لیا ۔ اور
پٹیشنرز کو اجازت نہ دی ۔پٹیشنرز نے اپنی زمیں کو اتھارٹی کے ہاوسنگ اسکیم
سے نکالنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا تو فیصلہ اتھارٹی کے خلاف ہوا۔ حکم ِ
امتناعی کے دوران اتھارٹی نے پٹیشنرز کی زمین کو ایکوائر کروالیا اتھارٹی
نے سیکشن چار آف ایکسیشن ایکٹ آف لینڈ کے تحت مزید کوئی قدم نہ اُٹھایا۔
حتی کے اِس بابت کیے جانے والے نوٹفکیشن کی مدت جو ایک سال کے لیے تھی ختم
ہوگئی یوں یہ نوٹفیکشن خود بخود ختم ہوگیا۔ ۔ عدالت عالیہ نے اِس کیس کا
جوفیصلہ کیا وہ قار ئین کی دلچسپی کے لیے ذیل میں بیان کیا جارہا ہے۔
1۔ اتھارٹی پر یہ لازم تھا کہ وہ ایک سال کے اندر اندراِس بابت فیصلہ کرتی
کہ وہ پٹیشنرز کی زمین ایکوائر کرنے میں دلچپی رکھتی ہے یا نہیں۔
-2 اتھارٹی کو یہ خیال آنا کہ وہ وہ خود ہاوسنگ اسکیم بنا نا چاہتی ہے اور
اِس بناء پر پٹیشنرز کی درخواست کو مسترد کیا جانا کوئی وجہ نہ ہے۔
-3 اتھارٹی کو معلوم تھا کہ حکم امتناعی ہوا ہوا ہے اُس نے سٹے کو ختم
کروانے کے لیے متعلقہ عدالت سے یا ہائر فورم سے رجوع نہ کیا اور نہ ہی
سپریم کورٹ میں سیکشن چار آف لینڈ ایکوزیشن ایکٹ کی بابت کوئی درخواست دی۔
-4 اتھارٹی کی جانب سے حکم امتناعی کی خلاف ورزی کرنا غیر قانونی اورمطلق
قانونی کی روح کے خلاف ہے۔ یعنی ایب انشیؤ ہے۔ یعنی اُس کا وجود میں آنا ہی
غلط ہے۔
5 -اتھارٹی پابند تھی ہ وہ پٹیشنرز کی این او سی حا صل کرنے کے درخواست کا
وجوہات کے ساتھ قانون کیمطابق فیصلہ کرتی۔
-6 یہ درست ہے کہ حکومت عوامی مفاد عامہ کے لیے زمین ایکوائر کرسکتی ہے
لیکن بغیر قانونی تقاضے پورے کیے اُس کے حقیقی مالک کو زمین کے قانونی
استعمال سے مالک کو اپنے خواہشات کے مطابق استعمال کرنے سے کیسے روک نہیں
سکتی ہے۔
-7 اتھارٹی کی جانب سے بدنیتی کی گئی جبکہ ہائی کورٹ نے اتھارٹی کے
نوٹفکیشن کو معطل کر دیا تھا۔ اِس کے باوجود اتھارٹی نے زمین پر قبضہ کر
لیا اور اُس پر ڈھانچہ بھی کھڑا کیا۔
-8 ایکوائرنگ ایجنسی ہاوسنگ زمین کے لیے زمین حاصل کر سکتی ہے اگر وہ منظور
ہوچکی ہوتی لیکن ڈویلپمنٹ ورک کے حوالے سے اتھارٹی نے کچھ بھی نہ کیا۔
9 ایسا کرنے کیاجازت نہیں دی جاسکتی کہ ایسا کرنے کی اجازت دی جائے جس کی
بابت عدالت پہلے ہی حکم امتناعی دے چکی ہو۔ اور مقدمہ میں وہ زمین سبجیکٹ
میڑ کا درجہ رکھتی ہو۔
10 - اپنی آئینی حدود سے باہر نکل کر حکومتی اداروں کی جانب سے اختیارات کا
استعمال کرنا غلط تصور ہوگا۔
11 - ہائی کورٹ قرار دے چکی ہے کہ اتھارٹی کی جانب سے نوٹفکیشن سیکشن چار
آف لینڈ ایکوزیشن ایکٹ 1894 سے لے کر قبضہ لینے تک غیر قانونی ہے جبکہ اِس
کے پاس پہلے ہی قبضہ تھا اِس لیے اُسے اب نئے سرئے سے پراسیس شروع کرنا
ہوگا۔ اگر اتھارٹی ایسا کرتی ہے تو وہ نوٹفکیشن کے جاری ہونے سے مقررہ مدت
کے اندر اندر طریقہ کار پر عمل کرئے گی۔
12 ۔ ہائی کورٹ نے چھ لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا تاکہ جو
اتھارٹی کی جانب سے پٹیشنرز کی زمین پر تعمیر تھی اُسے ہٹایا جاسکے۔ اِس
آئنی پٹیشن کو ڈسپوز آف کر دیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاہور ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ جسٹس شجاعت علی خان کا ہے۔ اِس کواُردو آسان
فہم میں ڈھالنے کے لیے بردارم جناب اعجاز چغتائی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ اور
بردارم محمد احسان الحق رندھاوا ایڈووکیٹ ہائی کورٹ نے رہنمائی فرمائی جس
کے لیے راقم اُن کا تہہ دل سے شُکر گزار ہے۔
|