دنیا کے دس بڑے گینگ اور ان کے جرائم

اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز حضرت انسان کی تاریخ جھگڑے، فساد اور جنگوں سے بھری پڑی ہے۔ کہیں یہ لڑائیاں قبیلوں کے درمیان ہیں تو کہیں ملکوں کے مابین ہیں اور چوں کہ ان لڑائیوں کا ایندھن انسان ہوتا ہے لہٰذا طرفین بہتر سے بہتر جنگجو اپنی صفوں میں رکھتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے نہ صرف جنگی آلات بنائے جاتے ہیں، بلکہ انہیں استعمال کرنے والے جنگجو بھی تیار کیے جاتے ہیں، جن کی آنکھوں میں خون اور ہاتھوں میں موت کا سامان ہوتا ہے۔ تاہم ضروری نہیں ہے کہ یہ صورت حال صرف ملکوں کے مابین جنگوں میں ہی ہو بل کہ مقامی سطح پر بھی لڑاکا گروپ ہوتے ہیں جن کے کرتا دھرتا انہیں مقامی تنازعات میں استعمال کرتے ہیں۔ ان غیر روایتی گروپس کو عموماً ’’گینگسٹرز‘‘ پکارا جاتا ہے، خون اور تشدد کے رسیا یہ گینگسٹرز دنیا بھر میں اپنا اثرورسوخ رکھتے ہیں اور اپنے آقاؤں کے اشارے پر جان کی بازی لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے زیرنظر مضمون میں ایسے ہی کچھ خوف کی علامت سمجھے جانے والے گینگسٹرز گروپس کے بارے میں معلومات فراہم کی جارہی ہے۔


1 ۔آرئین برادرہڈ
Aryan Brotherhood

’’اے بی‘‘ کی عرفیت سے بھی معروف اس گینگ کو دنیا کا سب سے بڑا گینگسٹرز گروپ مانا جاتا ہے امریکا کی جیلوں میں پنپنے والے اس گروپ کے کارندوں کے ہاتھوں اب تک ان گنت لوگ قتل ہوچکے ہیں۔ اپنے کارندوں کی تعداد کے لحاظ سے اور منظم انداز میں کام کرنے والے اس گینگ کے دو ٹکڑے ہیں، ایک ٹکڑا یا گروپ جیل میں دہشت گردی کا نیٹ ورک چلاتا ہے تو دوسرا حصہ جیل سے رہا ہونے کے بعد تشدد بھری سرگرمیاں جاری رکھتا ہے۔ تقریباً تریپن سال قبل سن انیس سو چونسٹھ میں منظرعام پر آنے والے اس گینگ میں صرف سفید فام جرائم پیشہ افراد ہی شامل ہوسکتے ہیں۔ ابتدا میں یہ گینگ جیلوں میں سیاہ فام مجرموں سے بچاؤ کے لیے سفید فام مجرموں نے تشکیل دیا تھا۔ تاہم سن انیس سو ستر میں اس گینگ کے کارندوں نے جیل سے باہر دیگر جرائم میں بھی حصہ ڈالنا شروع کردیا جن میں منشیات فروشی، قتل وغارت گری، اغوا، بھتہ خوری، جیلوں میں قحبہ گری اور کتوں کی لڑائی شامل تھی۔ لگ بھگ دس ہزار کل وقتی کارندوں پر مشتمل اس گروپ کے بارے میں امریکا کے تفتیشی ادارے ایف بی آئی کا کہنا ہے کہ امریکا کے جیلوں میں اس وقت قیدیوں کی مجموعی تعداد کے حوالے سے اس گروپ کے صرف صفر اعشاریہ ایک فی صد قیدی ہیں مگر امریکا کی جیلوں میں قتل ہونے والے تیس فی صد قیدی اس گروپ کے کارندوں کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں، جس سے اس گروپ کی قوت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ سفاکی کی علامت سمجھے جانے والے اس گینگ کے کارندے ریاست ایری زونا کے جیلوں میں ’’کنڈرڈ‘‘ کہلاتے ہیں۔ کنڈرڈ گروپ کی شکل میں خود کو فیملیز کہتے ہیں۔ ان فیملیز کو تجربہ کار مجرموں کی نگرانی میں رکھا جاتا ہے، جنہیں کونسل کہا جاتا ہے۔ کنڈرڈ کا بنیادی کام نئے سفید فام مجرموں کو آرئین برادرہڈ کا حصہ بنانا ہوتا ہے۔ سفید رنگت کے غرور میں مبتلا آرئین برادرہڈ کا اتحاد ایک اور خطرناک گروپ میکسیکین مافیا سے ہے۔ اس اتحاد کی وجہ مشترکہ دشمن ’’بلیک گوریلا فیملی‘‘ ہے، جس کے کارندے آرئین برادرہڈ اور میکسیکن مافیا کے خون کے پیاسے ہیں۔ ریاست کیلی فورنیا کی سینٹ کوائن ٹن جیل میں جنم لینے والے آرئین برادرہڈ کے کارندوں کی پہچان ان کے جسم پر انگریزی کے حروف ’’اے بی‘‘ کے ٹیٹوز کا نقش ہے۔ اس کے علاوہ یہ کارندے انجیل میں مذکور قرب قیامت کے وقت سمندر میں سے ظاہر ہونے والے وحشی درندے کی عددی علامت تین دفعہ چھے (666)، نازیوں کی علامت دو مرتبہ ایس ایس، جرمن زبان میں سورج کے لیے استعمال ہونے والا لفظ ’سگ رونس، جرمن نازی پارٹی کا نشان سواستیکا، آئرلینڈ کا قومی نشان شیمروک پھول اور ماضی بعید میں یورپ میں استعمال ہونے والی زبان کیلٹک پر مبنی آرٹ کے نمونے ٹیٹوز کی شکل میں بنواتے ہیں۔ آرئین برادرہڈ کی ابتدا کے وقت اس گروہ کا سربراہ بدنام زمانہ قاتل چارلس مینسن تھا۔ تاہم وہ جلد ہی اس گروہ کی سربراہی سے دست بردار ہوگیا اور اس نے مینسن فیملی کے نام سے گروہ تشکیل دے کر قتل و غارت گری شروع کردی تھی۔ واضح رہے کہ چارلس مینسن اس وقت بیاسی سال کا ہوچکا ہے اور کیلی فورنیا کی کورکورین جیل میں عمرقید کاٹ رہا ہے۔ اس کے علاوہ آرئین برادرہڈ کے لیڈروں میں کولوریڈو ریاست کے جیل میں قید بیری ملز اور ’’لیفٹینٹ‘‘ اور ’’دی ہاک‘‘ کی عرفیت سے معروف ٹیلر بنگ ہام شامل ہیں، جب کہ باون سالہ قاتل تھامس سلوسٹر بھی گروہ کی سربراہی کا دعوے دار ہے۔ آرئین برادرہڈ کی طاقت اور اثرورسوخ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سن دوہزار دو میں آرئین برادرہڈ کے انتیس بدنام اور قاتل سرکردہ لیڈروں پر ’’ریکو ایکٹ ’’جسے Racketeer Influenced and Corrupt Organizations Act کہا جاتا ہے کے تحت ایک ساتھ مقدمہ چلایا گیا، لیکن کسی بھی لیڈر کو موت کی سزا نہیں ہوسکی۔

image


2 ۔ میکسیکین مافیا
Mexican Mafia

وحشیانہ تشدد اور منشیات کی ترسیل کے لیے معروف میکسیکن مافیا سن انیس سو پچاس کی دہائی میں وجود میں آیا۔ ابتدا میں یہ گروہ بلیک میلنگ اور قتل وغارت گری کی وارداتوں میں ملوث تھا۔ تاہم اب اس گروہ کی اہم ترجیح منشیات کی اسمگلنگ اور فروخت ہے۔ اگرچہ اس گروہ کا نام میکسیکو پر ہے، تاہم اس کی ابتدا خالصتاً امریکا کی جیلوں سے ہوئی۔ چونکہ اس گروہ کی ابتدا سڑکوں پر آوارہ گردی اور بدمعاشی کرنے والے تیرہ ہسپانوی گروپوں کے اتحاد سے ہوئی تھی، لہٰذا اس گروہ کو ’’دی ایم ‘‘ بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ انگریزی حروف تہجی میں حرف ایم کا نمبر تیرہ ہے۔ میکسیکن مافیا کا بانی ’’لوئیس فلورس‘‘ تھا، جو چاقو پھینک کر قتل کرنے کے فن میں ماہر تھا۔ اس نے یہ گروہ جیلوں میں قید ہسپانوی قیدیوں کو دیگر گروپوں کے قیدیوں کے ظلم وتشدد سے بچانے کے لیے تشکیل دیا تھا۔ واضح رہے کہ انیس سو پچاس کی دہائی میں امریکا کے جرائم پیشہ افراد کے مابین مختلف شہروں میں گینگ وار لڑی جارہی تھی اور یہی صورت حال امریکا کی انڈرورلڈ میں اس وقت بھی جاری ہے ۔ امریکا کے سرکاری اداروں کے مطابق اس گروہ میں تین سو کے لگ بھگ باضابطہ کارندے ہیں، جو کیلی فورنیا کے جیل سسٹم میں اپنی دھاک بٹھائے ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ ان لیڈروں کے زیراثر ہزاروں کی تعداد میں کارندے پورے امریکا میں وارداتیں کرتے ہیں۔ تفتیشی اداروں کا کہنا ہے کہ میکسیکن گینگ میں قتل کے احکامات دینے کا اختیار مخصوص افراد کو حاصل ہے۔ تاہم دیگر جرائم گینگ کے کارندے اپنے اپنے سرکل کے لیڈروں کے حکم پر عمل کرتے ہیں۔ گینگ کے آئین کے مطابق چار ایسے جرائم ہیں جن کی انجام دہی پر کارندے موت یا سخت سزا کے حق دار ہوتے ہیں، ان میں مخبری، ہم جنس پرستی، بزدلی اور اپنے ساتھیوں کی بے عزتی کرنا شامل ہے۔ اس کے علاوہ گینگ میں صرف وہ شامل ہوسکتا ہے جسے کوئی دوسرا ممبر متعارف کرواتا ہے۔ گینگ کے کارندے ایک دوسرے کے کاروبار ی یا معاشی معاملات میں دخل نہیں دے سکتے۔ اسی طرح لیڈر کی اجازت کے بغیر ناراضگی کی صورت میں کارندے ایک دوسرے پر ہاتھ بھی نہیں اٹھا سکتے۔ واضح رہے کہ اس وقت گینگ کا سربراہ سان ڈیاگو جیل میں مقید اکتالیس سالہ روڈی ایسکیڈو ہے، جو جیل میں پینتیس سال کی سزا کاٹ رہا ہے۔ یاد رہے کہ میکسیکین مافیا کے دشمن گروپوں میں نیوسترا فیملی اور بلیک گوریلا فیملی سرفہرست ہیں، جب کہ اس کے اتحادیوں میں آرئین برادر ہڈ شامل ہے۔ میکسیکین مافیا کے کارندے اپنی پہچان کے لیے بدن پر کالے رنگ سے ہاتھ کا ٹیٹو بنواتے ہیں، جب کہ میکسیکو کے جھنڈے پر بنا نشان سانپ اور عقاب کا ٹیٹو بھی بنواتے ہیں۔ اس کے علاوہ گنتی کے حروف تیرہ اور انگریزی کا حرف ایم بھی ان کے جسم پر کندہ ہوتا ہے۔

image


3۔دی منگی کی
The mungiki (Kenya mafia)

افریقی ملک کینیا میں سرگرم عمل یہ گروہ اپنی وحشیانہ کارروائیوں کے باعث پورے کینیا میں خوف کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ سن انیس سو اسی کی دہائی میں معرض وجود میں آنے والا یہ گروہ نہ صرف مغربی طرز بودوباش کا سخت مخالف ہے بلکہ افریقہ میں عیسائیت کے پھیلاؤ پر بھی قدغن لگانا چاہتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ افریقہ میں دوبارہ افریقی روائتی ثقافت کی بحالی کے لیے سرگرم عمل ہے۔ اپنی ان کاوشوں کے درمیان آنے والے ہر فرد یا ادارے کے خلاف اس کے منظم اور نوجوان کارندے ہر وقت متحرک رہتے ہیں۔ کینیا میں سب سے بڑے قبیلے کی حیثیت رکھنے والا ’’منگی کی‘‘ ایک ایسا قبیلہ ہے جس کے افراد افریقہ کے روایتی مذہب کیکیوا کے رسم ورواج کے مطابق اپنی مذہبی رسومات خفیہ طریقے سے ادا کرتے ہیں، جن میں انسانی جانوں کی قربانی بھی شامل ہوتی ہے۔ پہاڑی علاقوں میں رہائش پذیر اس گروہ کے سیکڑوں کارندے پورے کینیا میں پھیلے ہوئے ہیں، جنہیں پچاس کے قریب سرکردہ کارندے کنٹرول کرتے ہیں۔ قبائلی زمین پر قبضے کی جنگ کے باعث بننے والے اس گروہ کے بارے میں کینیا کی حکومت کا کہنا ہے کہ سن دوہزار سات میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں قتل و دہشت گردی کے واقعات میں بھی ’’منگی کی‘‘ گروہ کا ہاتھ تھا۔ اس دوران سیکڑوں افراد کو تلواروں اور چھریوں کے ذریعے بہیمانہ طریقے سے قتل کیا گیا تھا۔ دوسری طرف انسان دوست تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ کینیا کی پولیس حکومتی ایما پر ’’منگی کی‘‘ گروہ کی بیخ کنی کی آڑ میں معصوم اور بے گناہ منگی کی قبیلے کے افراد کی نسل کشی کررہی ہے۔ یہ دعویٰ نومبر دو ہزار سات میں انسانی حقوق کی مقامی تنظیم ’’آسکر فائونڈیشن فری لیگل ایڈ کلینک‘‘ کی جانب سے کیا گیا تھا۔ تاہم پولیس کے ذمے داروں نے سختی سے اس دعوے کی تردید کی تھی، لیکن کچھ ہی عرصے بعد آسکر فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر آسکر کمیو کنگارا کو قتل کردیا گیا۔ واضح رہے کہ ’’منگی کی‘‘ گینگ نہ صرف قتل وغارت گری میں ملوث ہے بلکہ کینیا میں چلنے والا بسوں کا نظام بھی ’’منگی کی‘‘ گینگ کے زیراثر ہے اور کوئی بھی ٹرانسپورٹ ’’منگی کی‘‘ گینگ کو بھتا دیے بغیر نہیں چل سکتی۔ ٹرانسپورٹ کا یہ نظام ’’ماتاتو‘‘ کہلاتا ہے، جس کے معنی ’’پرائیویٹ منی بس ٹیکسی‘‘ کے ہیں۔ اس کے علاوہ اس گینگ کے کارندوں نے اندرون شہر بجلی اور پانی کی فراہمی کے نظام پر بھی قبضہ کیا ہوا ہے۔ حتیٰ کے پولیس بھی ان علاقوں میں داخل ہوتے ہوئے گھبراتی ہے۔ اگرچہ سن دو ہزار دو سے ’’منگی کی‘‘ گینگ نے خود کو سیاسی حیثیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کی مگر حکومت نے گینگ پر پابندی لگادی جس کے بعد سے ’’منگی کی‘‘ گروہ کی جانب سے پولیس کے اہل کار اور حکومتی اراکین پر متعدد بار قاتلانہ حملے کیے جاچکے ہیں۔ یاد رہے کہ ’’منگی کی ‘‘ گینگ کے کارندے اپنے گروہ سے حلف برداری کے موقع پر ایک دوسرے کے خون کا پیالہ پی کر ایک دوسرے سے وفاداری کا اظہار کرتے ہیں۔

image


4 ۔ پرائمیورو کمانڈو دی کیپیٹل
Primeiro Comando da Capital (PCC)

رقبے اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کے پانچویں ملک برازیل سے تعلق رکھنے والا یہ گروہ سن انیس سو ترانوے میں تشکیل دیا گیا۔ جیل توڑ کے قیدیوں کی رہائی، جیلوں میں بلوے اور افراتفری پھیلانے کے عمل سے شروع ہونے والا یہ گینگ جلد ہی برازیل کے خطرناک مافیا میں تبدیل ہوگیا اور اس وقت برازیلین حکومت کے لیے دردسر بنا ہوا ہے برازیل کی ریاست سائوپالو کی ’’ٹیوبیٹ جیل ‘‘ میں چند قیدیوں کی منصوبہ بندی کے بعد بننے والا یہ گروہ اس وقت برازیل کی ستائیس میں سے بائیس ریاستوں میں اپنا اثرورسوخ رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ پڑوسی ممالک بولیویا اور پیراگوئے میں بھی اس کے کارندے موجود ہیں ایک محتاط اندازے کے مطابق اس گروہ کے اراکین کی تعداد تیرہ ہزار سے زاید ہے، جس میں سے چھے ہزار جیلوں میں قید ہیں گروہ کے کارندے اسٹریٹ کرائم سے لے کر قتل تک کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔ سن دو ہزار چھے اور دو ہزار بارہ میں برازیل میں ہونے والے فسادات میں سیکڑوں افراد کو قتل کیا گیا تھا، جن میں بیشتر پولیس افسران تھے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق سن دو ہزار چھے میں دو سو نناوے پبلک مقامات پر حملے کیے گئے جن میں جیل، عدالتیں، بس اسٹاپ، ریلوے اسٹیشن وغیرہ شامل تھے، جب کہ سن دو ہزار بارہ میں دسمبر کے مہینے میں تقریباً تیس دنوں میں یومیہ ایک یا دو پولیس اہل کاروںکو قتل کیا گیا اور یہ حملے اس وقت کیے گئے جس وقت بیشتر پولیس والے دفاع کی پوزیشن میں نہیں تھے یا تو آرام کررہے تھے ، چھٹیوں پر تھے یا پھر ڈیوٹی کے بعد اپنے روزمرہ کے نجی کاموں میں مصروف تھے۔ ان نشانہ بننے والے اہل کاروں میں ریٹائرڈ پولیس افسران بھی شامل تھے۔ واضح رہے کہ حکومت نے ان افسران کے قتل کا ذمے دار’’پرائمیو رو کمانڈو دی کیپیٹل‘‘ کے کارندوں ہی کو قرار دیا تھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ گروہ کے کارندوں نے یہ منظم کارروائیاں جیلوں میں موجود اپنے سرغنوں سے موبائل فون پر ملنے والی ہدایات پر کی تھیں۔ ان حملوں کے بعد پولیس نے سائوپولو اسٹیٹ کی تمام جیلوں میں سرچ آپریشن کے بعد پینتیس ہزار سے زائد موبائل فون برآمد کئے تھے۔ گروہ کا موجودہ لیڈر ’’ماکوس مارکولا‘‘ (Marcos “Marcola” Willians Herbas Camacho) ہے، جو اس وقت قتل، منی لانڈرنگ، منشیات فروشی، دہشت گردی اور بینک ڈکیتی سمیت دیگر کئی جرائم میں ملوث ہے اور ’’پریذیڈنٹ وینسی سولو‘‘ جیل میں مجموعی طور پر دو سو چونتیس برس کی قید کاٹ رہا ہے۔ جیل میں قید ہونے کے باوجود مارکوس مارکولا کے اثرورسوخ کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ سن دو ہزار چھے میں ایک اخباری نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے مارکوس مارکولا کا کہنا تھا کہ ’’ وہ تم ہوگے جو ڈرتے ہوگے میں ایسا نہیں ہوں، تم مجھے جیل میں نہیں مار سکتے مگر میں جیل میں رہتے ہوئے اپنے کارندوں کے ذریعے تمھیں مارنے کا حکم دے سکتا ہوں۔‘‘ یہ گروہ جسے PCCبھی کہا جاتا ہے اس کے کارندے سولہ نکات پر مبنی حلف لیتے ہیں اور ان نکات کی خلاف ورزی کی سزا صرف اور صرف موت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ہر کارندہ اس بات کا بھی پابند ہے کہ اگر وہ جیل میں ہے تو پچاس اور جیل سے باہر ہونے کی صور ت میں پانچ سو برازیلین ریال ماہانہ عطیہ دے۔ گروہ کے بیشتر کارندے اپنی پہچان کے لیے اپنے جسم پر چینی ٹیٹو ’’ین اینڈ ینگ‘‘ چھدواتے ہیں۔ یہ ٹیٹو سفید اور کالے دائرے پر مبنی ایک ایسا نشان ہے جو بدی اور نیکی کے درمیان تفریق کو ظاہر کرتا ہے۔ اسے چینی زبان میں Taijitu بھی کہتے ہیں۔ گروہ کے اراکین ایک دوسرے کو ’’برادر‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔

image


5 ۔ بلیک گوریلا فیملی
Black Guerrilla Family

سن انیس سو چھیاسٹھ میں سرگرم عمل ہونے والے اس گروہ کی ابتدا کیلیفورنیا کی جیل سینٹ کوائنٹن میں ہوئی۔ بنیادی طور پر یہ گروہ انیس ساٹھ کی دہائی میں امریکا میں چلنے والی بلیک پاور موومنٹ سے متاثر ہوکر بنایا گیا تھا۔ اس گروہ کا بانی سیاہ فام امریکی باشندہ جارج جیکسن تھا، جس نے اپنی قید کے دوران جیلوں میں سیاہ فام افریقی نژاد امریکی قیدیوں کی سفید فام قیدیوں پر بالادستی قائم رکھنے کے لیے یہ گروہ تشکیل دیا تھا۔ جارج جیکسن کو سن انیس سو اکہتر میں انتیس سال کی عمر میں دوران قید جیل کے محافظوں نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔ اسٹریٹ کرائم سے جنم لینے والے اس گروہ میں اس وقت تقریباً پچاس ہزار کارندے ہیں، جو پورے امریکا کی جیلوں میں پھیلے ہوئے ہیں، جب کہ سرکاری ذرائع کے مطابق تین سو کے لگ بھگ مرکزی لیڈر ہیں، جو ان کارندوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دو برس قبل سن دو ہزار پندرہ میں امریکی ریاست میری لینڈ کے شہر بالٹی مور میں ہونے والے خونیں فسادات کے حوالے سے امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ ان فسادات کے پیچھے بلیک گوریلا فیملی کے اراکین کا ہاتھ تھا۔ واضح رہے کہ یہ ہنگامے ایک چوبیس سالہ سیاہ فام لڑکے کی پولیس کی حراست میں مارے جانے کے بعد شروع ہوئے تھے۔ ان ہنگاموں میں پولیس کے اہل کاروں کو نشانہ بنایا گیا تھا اور انتظامیہ شہر میں ریاستی ایمرجینسی اور کرفیو نافذ کرنے پر مجبور ہوگئی تھی۔ اپنے قیام کے وقت سیاہ فام طبقے کی معاشی اور سماجی بہتری کے لیے کام کرنے والا یہ گروہ اپنے نظریات پر قائم نہ رہ سکا اور وقت گزرنے کے ساتھ بلیک گوریلا فیملی پرتشدد مافیا میں تبدیل ہوچکا ہے، جس کے کارندے پورے امریکا کی جیلوں میں قائم منظم نیٹ ورک سے جُڑے ہوئے ہیں اور اسٹریٹ کرائم سے لے کر قتل وغارت گری، منشیات کی ترسیل، ہتھیاروں کی خرید وفروخت، اغوا، بھتاخوری سمیت دیگر جرائم میں ملوث ہیں۔ بلیک گوریلا فیملی کے سب سے بڑے دشمن آرئین برادر ہڈگینگ کے اراکین ہیں۔ ان دونوں گروہوں کے مابین اکثر وبیشتر امریکا کی مختلف جیلوں میں اور شہروں میں گینگ وار ہوتی ہے۔ بلیک گوریلا فیملی کے کارندے اپنی پہچان کے لیے اپنے جسم پر مختلف نشانات ٹیٹوز کی شکل میں کندہ کرواتے ہیں۔ ان نشانات میں نوکیلے دندانوں والا چاقو، خنجر، رائفل اور شاٹ گن وغیرہ شامل ہیں۔ ان نشانات میں انگریزی کے حروف بی، جی، ایف یا انگریزی حروف تہجی کی عددی ترتیب کے لحاظ سے دو، سات اور چھے کا عدد لکھا جاتا ہے۔ اس وقت بلیک گوریلا فیملی کا سب سے مضبوط گروپ ’’ ٹیوون وائٹ‘‘ کا ہے۔ ٹیوون وائٹ اس وقت بالٹی مور کی جیل میں مختلف جرائم میں سزا کاٹ رہا ہے۔ گینگ کے بیشتر کارندے ٹیوون وائٹ ہی کو اپنا لیڈر مانتے ہیں۔ تاہم بلیک گوریلا فیملی گینگ میں سربراہی کی جنگ جاری ہے اور اس حوالے سے چودہ قتل ہوچکے ہیں۔

image


6۔ لا نیوسترا فیملی
La Neuestra Familia

شمالی کیلیفورنیا کی جیلوں میں میکسیکو نژاد امریکی قیدیوں کا یہ گروہ منشیات کے پھیلاؤ میں سن انیس سو اڑسٹھ سے سرگرم ہے۔ لانیوسترا فیملی کے کارندے ہیروئن، کوکین، ماری جوانا سمیت مختلف نشہ آور اشیا کا کاروبار کرتے ہیں۔ اس گروہ کا اثرورسوخ چودہ ریاستوں میں ہے۔ لانیوسترا فیملی گینگ کے سب سے بڑے دشمن میکسیکو مافیا کے کارندے ہیں، جو جنوبی کیلی فورنیا کی جیلوں سے جرائم کا نیٹ ورک چلاتے ہیں۔ ان دو گروہوں میں جاری گینگ وار کی وجہ بھی نہایت دلچسپ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سن انیس سو اڑسٹھ میں میکسیکن مافیا کے کارندے نے ایک تقریب میں لانیوسترا فیملی کے ایک کارندے کے جوتے چوری کرلیے تھے، جس کے بعد سے دنوں گروہوں میں تلخی بڑھتے بڑھتے گینگ وار میں تبدیل ہوگئی اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے، جس کے دوران ہزاروں افراد قتل ہوچکے ہیں۔ واضح رہے کہ لانیوسترا فیملی کا لیڈر ’’ڈیوڈ کاروینٹس‘‘ ہے، جو ڈی سی کی عرفیت سے معروف ہے۔ جنرل، کیپٹن اور سولجر کی درجہ بندی کی بنیاد پر کام کرنے والے اس گینگ کے خلاف امریکی حکومت نے اب تک دو آپریشن کیے ہیں، تاہم گینگ کا قلع قمع کرنے میں ناکامی ہوئی ہے۔ تقریباً دو ہزار کُل وقتی کارندوں پر مشتمل اس گینگ کے کارندے اپنی کلائیوں پر سرخ رنگ کی پٹی باندھتے ہیں، جس پر انگریزی کے حروف این ایف اور گنتی کے حرف ایک اور چار لکھے ہوتے ہیں اس کے علاوہ ان کے جسم پر چاقو، خنجر اور میکسیکو کے روایتی ہیٹ کے نشانات بھی ٹیٹوز کی شکل میں کندہ ہوتے ہیں۔

image

7۔ ٹیکساس سینڈیکٹ
Texas Syndicate

بُل فائٹنگ کے رسیا ٹیکساس سینڈیکیٹ کے کارندوں کا تعلق ریاست ٹیکساس سے ہے۔ سن انیس سو ستر کی دہائی میں بننے والے اس گروہ کے کل وقتی کارندوں کی تعداد چار ہزار کے لگ بھگ ہے۔ تاہم ان کا دائرہ کار ٹیکساس کی جیلوں تک محدود ہے۔ اس کے علاوہ یہ گینگ ٹیکساس کی سڑکوں پر جرائم کے حوالے سے بھی خاصا متحرک نظر آتا ہے۔ ٹیکساس سینڈیکٹ دیگر دوسرے جرائم پیشہ گروہوں کے لیے ٹیکساس میں اپنی خدمات پیسوں کے عوض فراہم کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیکساس کی زیرزمین جرائم کی دنیا میں اور جیلوں میں کام کرنے والے جرائم کے نیٹ ورک میں دوسرا کوئی بھی مافیا اپنے پیر جمانے سے اب تک قاصر ہے۔ ٹیکساس سینڈیکیٹ کے کارندے عموماً اپنی پیٹھ اور گردن پر بُل فائٹنگ میں لڑنے والے بیل کے سینگ کے ٹیٹوز بنواتے ہیں۔ اس کے علاوہ انگریزی کے حروف ٹی اور ایس بھی منقش کرواتے ہیں۔

image

8۔ کرپس
Crips

نیلے رنگ سے محبت کرنے والا یہ گینگ سن انیس سو انہتر میں معرض وجود میں آیا۔ اس گینگ کے کارندوں کے لباس میں نیلے رنگ کا عکس ضرور ہوتا ہے۔ ابتدا میں یہ گروہ صرف سولہ سال کے لڑکوں پر مشتمل ہوتا تھا۔ تاہم بعدازاں اس میں زیادہ عمر کے جرائم پیشہ افراد نے بھی شمولیت اختیار کرلی۔ سیاہ فام افروامریکن کارندوں پر مشتمل اس گروہ میں جزوقتی کارندوں کی تعداد تیس سے پینتیس ہزار ہے، جنہوں نے لاس اینجلس پولیس کو تگنی کا ناچ نچا رکھا ہے۔ گینگ کی بنیاد اسٹینلے ولیمز اور ریمنڈ واشنگٹن نے رکھی تھی۔ دونوں کم عمری ہی سے لاس اینجلس کی سڑکوں اور گلیوں میں ہونے والے جرائم میں ملوث تھے۔ بعدازاں سیاہ فام مجرموں کو پولیس اور سفید فام جرائم پیشہ افراد سے تحفظ کے پیش نظر دونوں نے کرپس گینگ کی بنیاد رکھی۔ تاہم ریمنڈ واشنگٹن کو پچیس سال کی عمر میں قتل کردیا گیا، جس کے بعد اس گینگ کے دیگر کارندوں نے نسلی بنیاد پر سیاہ فام جرائم پیشہ افراد کے ساتھ مل کر منظم جرائم شروع کردیے۔ کرپس گینگ کے کارندوں کا کہنا ہے کہ ریمنڈ کا قتل بلڈ گینگ کے کاندوں نے کیا تھا، یہی وجہ ہے کہ تین دہائیاں گزرنے کے باوجود ان دو گروہوں میں آج بھی لاس اینجلس کی سڑکوں پر خفیہ گینگ وار جاری ہے۔ کرپس گینگ کی ایک امتیازی خصوصیت اس کے کارندوں کا ہاتھ کی انگلیوں کے ذریعے مختلف نشانات بناکر ایک دوسرے کو سگنلز پہنچانے کا نظام ہے۔

image

9 ۔ بلڈز
Bloods

اپنے دشمن گینگ کرپس کے برعکس بلڈز گینگ کے کارندے سرخ رنگ سے انسیت رکھتے ہیں، جو کہ ان کے گروہ کے نام سے بھی ہم آہنگ ہے۔ ابتدا میں یہ گروہ بھی سیاہ فام افرو امریکن کارندوں پر مشتمل تھا۔ تاہم اب اس میں سفید فام جرائم پیشہ افراد بھی شامل ہیں۔ اس گینگ کا اثرورسوخ امریکا کے علاوہ کینیڈا میں بھی پایا جاتا ہے، جہاں بعض جرائم میں اس گروہ کے کارندے ملوث پائے گئے ہیں۔ اس گینگ کے کارندے پانچ کونے والے ستارے یا پانچ نوکوں والے تاج کو اپنا امتیازی نشان ظاہر کرتے ہیں۔ چوری، ڈکیتی، منشیات فروشی اور قتل جیسے جرائم میں ملوث بلڈز گینگ میں اس وقت جزوقتی کارندوں کی تعداد بھی کرپس گروپ کے ہم پلہ ہے۔

image

10۔ مارا سلواتروچا
Mara Salvatrucha

وسطی امریکی خطے میں واقع ممالک ایل سلواڈور، گوئٹے مالا اور ہونڈوراس کے جرائم پیشہ افراد پر مشتمل اس گروہ کے کارندے لاس اینجلس اور خلیج فرانسسکو سے لے کر برطانیہ، جرمنی اور اسپین تک میں جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں، جن میں قتل، اغوا، منی لانڈرنگ، منشیات فروشی، انسانی اسمگلنگ جیسے قبیح جرائم شامل ہیں۔ سن انیس سو اسی کی دہائی میں تشکیل پانے والے اس گروہ کے ستر ہزار سے زائد کارندے ہیں۔ ایم ایس تیرہ کی عرفیت سے بھی پہچان رکھنے والا یہ گینگ موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بھی سخت تنقید کا نشانہ بن چکا ہے، جب کہ ہونڈوراس اور ایل سلوا ڈور کی حکومت کی جانب سے مارا سلواتروچاگینگ کا القاعدہ سے تعلق بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ وسطی امریکی خطے سے امریکہ منتقل ہونے والے تارکین وطن کے تحفظ کے لیے بنائے جانے والا یہ گروہ اس وقت ایک ایسا پرتشدد گروہ بن چکا ہے جس میں غداری کرنے والے کو فوراً موت کا پروانہ تھما دیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے لاس اینجلس پولیس کے اہل کاروں کا کہنا ہے کہ ماراسلواتروچا گینگ میں مخبری کا نظام اتنا جان دار ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں میں جب بھی اس گروہ کے باغی کارندوں نے پولیس سے رابط کیا تو کچھ ہی دنوں بعد ان کارندوں کی تشدد زدہ لاشیں شہر کی سڑکوں پر پڑی ملیں۔ اس گینگ کے کارندے بھی اپنے جسم پر گینگ کے نام کے ابتدائی حروف کے ٹیٹوز بنواتے ہیں اور ایک دوسرے سے رابطے کے لیے ہاتھوں سے اشاروں کا طریقہ بھی اپناتے ہیں۔

image
YOU MAY ALSO LIKE:

Gang is a group of people who are very dangerous and work with intentions of robbery, killing and other activities. There are gangs everywhere. Gangs can be formed by anyone who has little power. The members in the gangs are very harsh. There are many types of gangs in the world. There are many gangs which are very famous and very popular.