پاکستان میں ہر سال عید الاضحی پر سنت ابراہیمی ادا کرتے
ہوئے بڑھ چڑھ کر جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے۔ قربانی کے جانوروں کی خرید
اور دیکھ بھال میں بڑوں سے زیادہ بچوں کا شوق دیدنی ہوتا ہے لیکن پاکستان
جو کہ گریٹ گیم کے تحت پاکستان کے دشمنوں اور ان کے آلہ کار دہشت گردوں کے
نشانے پر ہے۔ ان دہشت گردوں کی مالی معاونت ایک بہت اہم معاملہ ہے۔ سوچنے
اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کہیں دہشت گردوں کے آپ دانستہ یا نادانستہ مالی
سہولت کار تو نہیں بن رہے جس کا ایک بڑا ذریعہ قربانی کی کھالیں ہیں۔ لہٰذا
قربانی کی کھالیں دیتے وقت اس بات کا مکمل اطمینان کرلیں کہ جس کو آپ
قربانی کی کھالیں دے رہے ہیں وہ شخص خود یا کسی ایسی تنظیم کا کارندہ تو
نہیں جو کالعدم اور دہشت گرد ہو۔ پاکستان میں انسداد دہشت گردی کے قومی
ایکشن پلان کے نفاذ کے باوجود اس مرتبہ بھی عید الاضحی سے پہلے مختلف
کالعدم تنظیموں کے ارکان قربانی کی کھالیں جمع کرنے کے لئے متحرک نظر آتے
ہیں۔
گزشتہ سال بھی دار الحکومت اسلام آباد سمیت چاروں صوبوں کی انتظامیہ نے عید
الاضحی سے چند روز قبل ہی قربانی کی کھالیں جمع کرنے کے حوالے سے ایک ضابطہ
اخلاق جاری کیا تھا۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ کالعدم تنظیمیں
قربانی کی کھالیں جمع نہ کر سکیں صرف انہی فلاحی اداروں اور تنظیموں کو
کھالیں اکٹھی کرنے کی اجازت دی گئی تھی، جنہوں نے ضابطہ اخلاق پر دستخط کیے
تھے۔
اس ضابطہ اخلاق کے تحت تمام کالعدم تنظیموں کی طرف سے کھالیں جمع کرنے اور
اس مقصد کے لئے کسی بھی قسم کی تشہیر پر مکمل پابندی عائد کی گئی تھی۔ تاہم
اسلام آباد سمیت مختلف شہروں میں شدت پسند کالعدم تنظیموں کے ارکان مختلف
تنظیموں کے نام استعمال کرتے ہوئے قربانی کے جانوروں کی کھالیں جمع کرتے
رہے۔
تاہم حکومتی دعوؤں کے باوجود اس مرتبہ بھی کالعدم تنظیمیں اپنا کام کر رہی
ہیں۔
ایک دوست کے مطابق ان کے گھر میں ایک کالعدم تنظیم کے کارندے ایک بیگ چھوڑ
گئے تھے، اس کے ساتھ ساتھ ایک ایسا تحریری پیغام بھی تھا، جس میں کہا گیا
تھا کہ یہ قربانی کی کھال دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے استعمال کی جائے گی۔
لیکن اُس نے سوچا کہ کس طرح یہ لوگ اب بھی کھالیں اکھٹی کرنے کا کام کررہے
ہیں۔اسلام آباد کے علاوہ دیگر شہروں میں بھی پابندی کے باوجود کاالعدم
تنظیموں کے نمائندے نام بدل کر منظم طریقے کے ساتھ اپنے مالی وسائل میں
اضافے کے لئے کام کر رہے ہیں۔ دوسری جانب صوبہ پنجاب سے موصولہ اطلاعات کے
مطابق بعض شہروں میں کالعدم تنظیموں کے ارکان نے کھالیں اکٹھی کرنے کی کوشش
کی تو متعلقہ پولیس اور انتظامیہ نے ان کو ایسا کرنے سے روکتے ہوئے چار
افراد کو گرفتار کر لیا۔
خیال رہے کہ ایک اسلامی ملک ہونے کے ناطے پاکستان میں ہر سال عید الاضحی
موقع پر اربوں روپے مالیت کے جانور قربان کیے جاتے ہیں۔ ان جانوروں کی
کھالیں بھی ثواب کی نیت سے لوگ مختلف امدادی تنظیموں، دینی مدارس اور یتیم
خانوں کو دیتے ہیں۔ تاہم گزشتہ چند سالوں میں مختلف جہادی اور شدت پسند
تنظیموں کے علاوہ بعض سیاسی جماعتیں بھی کھالیں اکٹھی کرنے کے کام میں پیش
پیش ہیں۔عید کے موقع پر بکرے یا دنبے وغیرہ کی ایک کھال پندرہ سو سے تین
ہزار روپے جبکہ گائے یا بیل وغیر کی فی کھال پانچ سے لے کر دس ہزار روپے تک
فروخت کی جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق قربانی کی کھالوں سے حاصل ہونے والی رقم
کالعدم اور شدت پسند تنظیموں کے لئے آمدن کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔
بہرحال قربانی کا عمل جس باقاعدگی کے ساتھ اور جن جن شرائط کے ساتھ اور جن
جن اثرات و نتائج کے ساتھ امت کے اندر جاری و ساری ہے اسکی مثال بھلا کہاں
ملے گی؟۔سال خیریت سے گزر جانے پر کل دنیاکے صاحب نصاب مسلمان جن پر زکوۃ
فرض ہوتی ہے شکرانے کے طور پر قربانی کرتے ہیں ۔سب مسلمان اس عمل بابرکت
میں یوں شریک ہوتے ہیں کہ صاحب نصاب قربانی کرتے ہیں اور جوصاحب نصاب نہیں
ہوتے وہ قربانی میں سے اپنا حصہ وصول کرتے ہیں اور وہ لوگ جو غربت کی وجہ
سے ساراساراسال گوشت جیسی نعمت سے محروم رہتے ہیں اب کی دفعہ وہ بھی پیٹ
بھرکے اور دل سیر کر کے گوشت کھا لیتے ہیں اور رب تعالی کا شکر بجالاتے
ہیں۔قربانی کا تصور گزشتہ امتوں سے جاری ہے۔حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے
ہابیل اور قابیل جب باہم اختلاف کا شکار ہوئے توانہیں حکم دیا گیا کہ اپنی
اپنی قربانی پیش کریں ،ہابیل بھیڑیں لے آیا اور قابیل جو کاشتکاری کرتا
تھا،اپنے اگائے ہوئے غلے میں سے ایک حصہ لے آیا۔دونوں نے اپنی اپنی قربانی
ایک میدان میں پیش کر دی۔گزشتہ امتوں میں قربانی کی قبولیت کا پتہ اس وقت
چلتا تھا جب آسمان سے ایک آگ آکرتو اسکو جلا دیتی تھی۔دونوں کی قربانیوں
میں سے ہابیل کی قربانی کو آسمانی آگ نے جلادیااور قابیل کی قربانی قبول نہ
ہوئی اور یوں انکے اختلاف کا فیصلہ اﷲ رب العزت کی طرف سے چکا دیا گیا۔ |