اللہ کی وحدانیت واس کے ملائکہ و انبیاءپر ایمان لانے اور
سردارالانبیاءمحمد مصطفی ﷺ کی امت سے تعلق رکھنے والے اہل اسلام عیدالاضحی
مناتے ہوئے سنت ابراہیمی ؑ کی تقلید و پیروی میں قربانی کررہے ہیں !
یوں تو دنیا کی ہر قوم تاریخ کی کسی روایت کی تجدید یا خوشی اور دیگر جذبات
کے اظہار کیلئے تہوار مناتی ہے مگر چونکہ اسلام الہامی و آفاقی مذہب ہے اس
لئے اس کے ماننے والوں کے تہوار دیگر اقوام کے تہواروں سے مختلف اور
سنجیدگی و رب کی رضا یا پھر حصول ثواب کیلئے ہوتے ہیں ۔ اسلام کے تہواروں
میں دوبڑے تہوار عید الفطر یعنی میٹھی عید اور عید الاضحی یعنی عید قرباں
شامل ہیں ۔
عید الفطر ماہ رمضان میں کی گئی صو م و صلوٰة اور عبادات و ریاضات کی تکمیل
پر رب کے حضور سجدہ ¿ شکر بجالانے اور رمضا ن میں رب کی خصوصی اطاعت میں
کامیابی پر اظہار شادمانی کا نام ہے جبکہ عید الاضحی اللہ کی رضا کیلئے جان
و مال اور حتیٰ کہ اولاد تک قربان کردینے کی سنت ابراہیمی ؑ کی پیروی و
تجدید کیلئے اللہ کی راہ میں ذبیحہ کرنے کا نام ہے ۔
ہم اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار ‘ نعمتوں کا شکر اور ابراھیم علیہ
السلام کی اپنے رب کی اطاعت وفرمانبرداری کی یاد دہانی وتجدیدکیلئے
10ذوالحجہ کو عید الاضحی کی نماز کی ادائیگی کے بعد سے ایام تشریق کے آخری
دن تک ( تیرہ ذی الحجہ کی شام تک ) چوپائیوں ( اونٹ ، گائے ، بھیڑ ، بکری )
میں سے کوئی ایک اللہ تعالیٰ کی رضا و تقرب کے حصول کیلئے قربانی کرتے
ہیںاور جانور اس ذبیحہ کو ”اضحی“ کہا جاتا ہے جس کی مناسبت سے عید قرباں
’‘عیدالاضحی “ کہلاتی ہے ۔
اس بات سے انکار نہیں کہ ہم قربانی سنت ابراہیمی کی تجدید اور اللہ کی رضا
کے حصول کیلئے کرتے ہیں مگر اللہ کے حکم پر پیارے بیٹے کی گردن پر چھری
چلاتے ہوئے جو اخلاص و نیت حضرت ابراہیم ؑ کی تھی ہم اس کے عشر عشیر سے بھی
محروم ہوتے ہیں بلکہ موجودہ دور میں تو قربانی کو روایت و رواج بناکر اس سے
نمودونمائش کے حصول کی کوشش کی جاتی ہے جو یقینا ہمیں اللہ کی رضا اور اس
رحمت سے محروم رکھتی ہے جو اخلاص کے ساتھ قربانی کی ادائیگی سے حاصل ہوتی
ہے ۔
اخلاص سے قربانی کیلئے ضروری ہے کہ ہم حضرت ابراہیم ؑ کے اس جذبے اور اپنے
رب سے محبت کے ساتھ اس طاعت کو بھی سمجھیں جس کے تحت رضائے الٰہی کیلئے
خلیل اللہ نے پہلے سو اونٹوںکی ،پھردوسو اونٹوںکی اورآخرمیں تین سواونٹوں
کی قربانی کرنے کے بعد اللہ کے حکم پر اپنی محبوب ترین شے یعنی برسہا برس
کی عبادت و دعا کے بعد بڑھاپے میں ملنے والی اولاد اور ضعیفی کے سہارے اپنے
بیٹے کی گرد ن پر بھی چھری چلادی تو اس کا جواب یہ ہے کہ خلیل اللہ کی طلب
‘ چاہت اور خواہش سب ہی کچھ صرف اور صرف رضائے الٰہی تھی انہیں اس دنیا اور
اس کی نعمتوں کی الفت سے زیادہ اپنے رب کی رحمت و رضا مقصود تھی !
دوسری جانب سنت ابراہیمی کا واقعہ ہمیں اس بات کا بھی درس دیتا ہے کہ ابلیس
انسان کو رب کی رضا اور رحمت سے محروم کردینے کے مشن پر کاربند ہے اور اس
کیلئے وہ جہاں حضرت حاجرہ ؓ‘ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اور اسماعیل ؑ کو بھی
ورغلانے کی کوشش کرتا ہے مگر اطاعت الٰہی سے روکنے میں ناکام رہتا ہے!
اور شیطان کی یہی ناکامی انسان کی کامیابی اور اللہ کی رضا ہے کیونکہ ابلیس
نے مردودِ بارگاہ ہوتے وقت یہ کہاتھا کہ ”یااللہ!مجھے یہ طاقت دے کہ قیامت
تک تیرے بندوں کو راہ حق سے بھٹکاتارہوں۔“
تو اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ”جا!تجھے اجازت دی،لیکن یہ یادرکھناکہ جو بھی
میرا نیک بندہ ہوگاوہ کبھی بھی تیرے بہکاوے میں نہیں آئے گا۔“
حضرت حاجرہ ؓ ‘ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ نے رب کے اس فرمان کو
اپنے عمل سے ثابت کردکھایا اور شیطان کے بہکانے یا ورغلانے میں آنے کی
بجائے رب کی اطاعت و فرمانبرداری کی راہ پر گامزن رہے ۔
عید الاضحی کے موقع پر تجدید سنت ابراہیمی میں کی جانے والی قربانی (ذبیحہ)
ہمیں اس بات کا درس دیتا ہے کہ انسان وہی ہے جو اللہ کی رضا کے حصول کیلئے
جدوجہد کرے اور شیطان کے وسوسوں سے محفوظ رہے مسلمان وہی ہے جو اللہ کی رضا
کیلئے سب کچھ قربان کرنے کی تمنا کرے اور اس تمنا پر عمل پیرا ہونے کی
استقامت کا حامل بھی ہواور مومن وہ ہے جو سب کچھ رب کی رضا پر قربان کرنے
کے بعد بھی رب سے پوچھے ۔
”اے میرے رب بتا تیری رضا کیا ہے ؟“۔ |