عید قربان مسلمانوں کا وہ تہوار ہے جو کہ حضرت ابراہیم ؑ
کی طرف سے خواب میں خدا تعالیٰ کی جانب سے اپنی سب سے پیاری اور قیمتی چیز
کو قربان کرڈالنے کے بموجب ان کی طرف سے اپنے بیٹے اسماعیل ؑ کو باہر دور
دراز علاقہ میں لے جا کر اسکے گلے پرچھری پھیرنے کے واقعہ کی یاد میں منایا
جاتا ہے خدا تعالیٰ بھی اپنے انبیاء کو کبھی کبھار آزمائش کے مرحلوں میں
گزارتے ہیں۔حضرت ابراہیم ؑ نے فوراً حکم خدا وندی کی تعمیل کی اسی لمحہ
فرشتوں کو حکم ہوا کہ یہ چھری حضرت اسماعیل کے گلے پر کند ہو جائے مگر حضرت
اسماعیل کی جگہ ایک مینڈھا وہاں پہنچا دواور وہ چھری اس کی گردن پر چل کر
اسے ذبح کر گئی تمام صاحب استطاعت لوگوں پر ہر سال قربانی کرنا ضروری قرار
پایا مگر جدید مادی دور کے آغاز سے ہی ہر کسی کو اپنی اپنی پڑی ہے اور کسی
دوسرے کے دکھ درد میں حصہ ڈالنا اب مفقود ہی ہوتا چلا جارہا ہے ۔ہر صورت
چھینا جھپٹی کے ذریعے مال کمانا ہی ہر کوئی ضروری سمجھتا ہے اس طرح قربانی
کا گوشت بھی زیادہ تر خود ہی رکھ لیا جاتا ہے یا پھر عزیز و اقارب اور
قریبی دوستوں میں بانٹ دیا جاتا ہے اور غریب وپسے ہوئے طبقات کے لوگ گوشت
سے ہر سال کی طرح محروم ہی رہ جاتے ہیں کوئی چھیچڑے ہڈیاں یا ایک آدھ بوٹی
حاصل ہو بھی گئی تو وہ نہ ہونے کے برابر ہی ہے اورغریبوں کو بدستور دال
سبزی سے ہی عید کا دن گزارنا پڑتا ہے حالانکہ اسطرح سے جانوروں کے ذبح کرنے
کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے اور عین ممکن ہے کہ خدا کے گھر میں یہ قربانی بھی
قابل قبول نہ ہو مگر بڑے بڑے نو دولتیے سود خور سرمایہ دار ظالم و جابر
وڈیرے اور بدقماش جاگیردار صرف اپنی ظا ہری جھوٹی شان و شوکت اور نچلے
طبقات پر اپنا رعب داب قائم رکھنے کے لیے ہی جانوروں کی قربانیاں کرتے ہیں
ان میں سے غرباء کا حصہ آٹا میں نمک کے برابر بھی نہیں رکھتے کہ انہوں نے
تو ہر دوست اور رشتہ دار کے گھروں میں سالم ران بھجوا کر اپنا طرہ بلند
رکھنا ہوتا ہے۔رانوں اور دستیوں کی ابھی سے لسٹیں تیار کرلی گئی ہیں اسی
طرح جن کو یہ بھجوائیں گے انہوں نے بھی واپسی ان کو اعلیٰ گوشت ہی بجھوانا
ہے اسطرح قربانی کا گوشت اوپر ہی اوپر بڑے لوگوں اور سرمایہ داروں کے گھروں
میں ہی گھومتا اور اس کا لین دین ہوتا رہتا ہے حالانکہ گوشت ذبح کرکے سارا
ملا کر ہی اس میں سے اپنا حصہ ،اپنے عزیز و اقارب اور غرباء کابھی نکالا
جانا چاہیے ۔ اسلئے ایسی قربانیاں صرف گوشت کھانے کی حد تک محدود ہو جاتی
ہیں۔اور عظیم قربانی کا مقصد ہی پورا نہیں ہوتا۔پھر ان دنوں پولیس بالخصوص
ٹریفک والے جب کسی موٹر سائیکل ویگن ٹریکٹر وغیرہ کو روکتے ہیں توعام دنوں
کی نسبت کئی گنا زیادہ رشوت کی رقم طلب کرتے ہیں کوئی اﷲ کا بندہ ان سے
پوچھ ہی لے کہ بھائی چند روز قبل تو آپ 100,150روپے لیکر ہماری جان خلاصی
کردیتے تھے تو اب یہ پانچ سو روپے کا نوٹ کیوں طلب کیا جارہا ہے پولیس والے
بڑی معصومیت اور ڈھٹائی سے فرماتے ہیں کہ عید آگئی ہے "اسیں بکرانہیں لینا
۔"ہم نے بھی تو قربانی کرنی ہے اسلیے نکالو پانچ سو روپے "اب ذرا کرپٹ
افراد کی قربانی کا تصور دیکھیں کہ جہاں سے بھی جیسے بھی حرام مال دستیاب
ہو اس سے بکرا وغیرہ خرید کر قربانی کردینا ہی ضروری خیال کرتے ہیں اسی طرح
لوگوں نے لاکھوں روپے قرض لے رکھے ہوتے ہیں حالانکہ قریبی دوست احباب اور
ہمسایوں کا بھی قرضہ دینا ہوتا ہے مگر پھر بھی قربانی کا جانور ذبح کرنے پر
تلے ہوتے ہیں حالانکہ قرض دارجب تک اپنا حساب بیباک نہ کرے وہ کیسے قربانی
کرسکتا ہے؟ یہ سب کچھ دکھاوے کے لیے کیا جارہا ہوتا ہے حلال کمائی اور حلال
روپوں کی صورت میں جمع پونجی سے ہی اﷲ کی راہ میں قربانی کرنے ہی میں عظمت
ہے ظاہری شان و شوکت کے لیے اور ادھار وغیرہ لیکرقربانی کے جانور خریدنا
اور انھیں ذبح کرکے حضرت ابراہیم خلیل اﷲ کی روایت پورا ہونا ناممکن ہے
خدائے عز وجل سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حلال کمائی کرنے اور دنیا کے غلیظ ترین
کافرانہ نظام سود سے چھٹکارا پانے کی توفیق عطا فرمائیں اور ہم اسلا م کی
عظیم روایات پر عمل کرکے دنیا و آخرت میں سر خرو ہوسکیں وما علیناالا
البلاغ۔ |