سوشل میڈیا سے ماخوذ
برماکے بارے میں ایک بہت معلوماتی اور حقائق پر مبنی تحریر
-------------------------
میانمار یا برما ساڑے 5 کروڑ آبادی والا ملک ہے جسکی سرحدیں چین، انڈیا،
بنگلہ دیش، تھائی لینڈ اور لاؤس سے ملتی ہیں۔ اس کے ایک طرف سمندر ہے۔
میانمار اپنی 5 لاکھ فوج کے ساتھ دنیا کی 12ویں بڑی فوجی قوت ہے جسکی ایک
تگڑی بحریہ اور ائر فورس بھی ہے۔
میانمار میں مسلمانوں کی کل تعداد 20 لاکھ سے اوپر ہے جس میں 13 لاکھ
روہینگیا مسلمان ہیں۔
روہینگیا کسی جگہ کا نہیں بلکہ ایک نسل کا نام ہے۔ اس نسل کی اکثریت مسلمان
اور تھوڑے سے ہندو ہیں۔ برما کے صوبے آراکان میں تقریبا 13 لاکھ روہینگیا
مسلمان آباد ہیں۔
روہنگیا مسلمانوں کو میانمار میں شہریت ملنے کا حق نہیں ہے اور صدیوں سے
وہاں رہائش پذیر ہونےکے باوجود انھیں وہاں غیر قانونی شہری تصور کیا جاتا
ہے۔ وہاں انکو بنگالی کہا جاتا ہے۔
ان کو خصوصی کاغذات کے بغیر سفر کی اجازت نہیں۔
ان کو زمین خریدنے کی اجازت نہیں۔
اور ان کو دو بچوں سے زیادہ پیدا کرنے کی اجازت نہیں۔
-----------------------
اراکان میں آباد راخائن نسل کے لوگوں کو یہ خطرہ ہے کہ روہینگیا مسلمان ان
پر اکثریت حاصل کر لینگے اس لیے وہ ان سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ راخائن کا
تعلق بدھ مذہب سے ہے۔ اراکان صوبے میں انکی آبادی روہینگیا مسلمانوں کے
برابر ہے۔ دونوں میں کئی عشروں سے تناؤ کی سی کیفیت ہے اور ہلکی پھلکی
جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔
1962 سے 2011 تک برما پر فوجی حکومت رہی اور حالات کنٹرول میں رہے۔
لیکن 2012ء میں جیسے ہی ملک کا تمام نظام نو منتخب جمہوری حکومت نے سنبھالا
روہینگیا مسلمانوں اور راخائن بدھوں کے درمیان فسادات پھوٹ پڑے۔
الزام یہ ہے کہ 3 روہینگیا مسلمانوں نے ایک راخائن عورت کا ریپ کر کے اس کو
قتل کر دیا۔ جواباً راخائن نے مسلمانوں پر حملہ کر کے 10 مسلمان قتل
کردئیے۔
تاہم کچھ دیگر ذرائع کے مطابق مسلمانوں کے کئی گاؤں تباہ کیے گئے۔ 650 کے
قریب مسلمانوں کو قتل کیا گیا جبکہ 80 ہزار بے گھر ہوئے۔
حکومت نے کرفیو لگا کر اراکان صوبے کا کنٹرول فوج کے حوالے کر دیا۔ جس سے
فسادات تو کم ہوگئے لیکن مسلمانوں پر زندگی سخت ہوگئی اور بڑے پیمانے پر
روہینگیا مسلمانوں کی گرفتاریاں شروع ہوگئیں۔
حالات مزید خراب ہوئے تو روہینگیا مسلمان علاقہ چھوڑنے لگے۔
2016ء تک کم از کم 1 لاکھ روہینگیا کشتیوں کے ذریعے مختلف ملکوں میں پناہ
لے چکے تھے جن میں ملائیشیا، آسٹریلیا اور تھائی لینڈ شامل ہیں۔ ان سفروں
میں مختلف حادثات میں کئی سو لوگ سمندر میں ڈوب گئے۔
جولائی 2017ء تک کم از کم 73 ہزار روہینگیا مسلمانوں نے کسی نہ کسی طرح
بنگلہ دیش کی سرحد عبور کر کے وہاں پناہ لے لی۔
اس وقت 4 لاکھ کے قریب روہینگیا مسلمان دنیا کے مختلف ملکوں میں پناہ گزین
ہیں۔
لیکن پچھلے ایک ہفتے سے روہینگیا کے مسلمانوں پر قیامت ٹوٹی ہوئی ہے۔
امریکن نیوز ایجنسیوں کے مطابق راخائن ملیشیاء اور برمی فوج ملکر مسلمانوں
کے خلاف آپریشن کر رہی ہیں جس میں اب تک 2000 سے زیادہ مسلمانوں کو شہید
کیا جا چکا ہے۔ جبکہ ان کے 2600 گھر جلائے گئے ہیں۔
صرف ایک ہفتے میں 73000 مزید مسلمانوں نے بنگلہ دیش میں پناہ لی ہے۔
یہ بھی خدشہ ہے کہ مرنے والوں کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔
جبکہ اسی دوران کم از کم 26 مختلف چوکیوں پر مسلمانوں کے حملے میں درجنوں
سیکورٹی اہلکار بھی ہلاک ہوئے.
مسلم ممالک کا ردعمل:
سعودی عرب اور او آئی سی نے معاملے کی رسمی مذمت کی ہے اور برمی حکومت سے
مطالبہ کیا ہے کہ وہ اقلیتیوں کے حقوق کا خیال رکھیں۔
ترکی 5 سالوں میں اب تک 70 ملین ڈالر کی امداد روہینگیا مسلمانوں کے لیے
بھیج چکا ہے۔
طیب رجب اردگان نے اعلان کیا ہے کہ بنگلہ دیش اگر روہینگیا مسلمانوں کو
پناہ دے دے تو وہ انکا خرچ اٹھانے کے لیے تیار ہے۔ لیکن بنگلہ دیشی حکومت
کےمطابق انہیں ابھی تک پناہ گزینوں کے لیے کہیں سےکوئی امداد نہیں ملی۔
یہ بھی جھوٹ ہے کہ بنگلہ دیش روہینگیا مسلمانوں کو مکمل طور پر دھتکار چکا
ہے۔
1978ء میں بذریعہ طاقت 2 لاکھ روہینگیا مسلمانوں کو بنگلہ دیش بدر کیا گیا
تھا۔
2012ء سے اب تک 1 لاکھ 40 ہزار روہینگیا مسلمان بھاگ کر بنگلہ دیش میں پناہ
لے چکے ہیں یوں وہاں پناہ گزینوں کی تعداد ساڑھے 3 لاکھ کے قریب ہے۔
امریکہ اور مغرب کی دلچسپی کے حوالے سے راقم الحروف کی رائے؛
سوشل میڈیا پر جتنا جھوٹ روہینگیا مسلمانوں کے حوالے سے بولا رہا جا رہا ہے
شائد ہی کسی معاملے میں بولا گیا ہو۔ مثلاً۔۔۔۔
سب سے بڑا جھوٹ یہی ہے کہ روہینگیا مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر امریکہ
اور عالمی برادری چپ ہے۔
سچ یہ ہے کہ روہینگیا مسلمانوں کے لیے اٹھنے والی سب سے طاقتور آواز ہی
امریکہ اور برطانیہ کی ہے بلکہ وہاں ہونے والے ظلم کی تمام تر اطلاعات اور
تصاویر تک ہمیں امریکی اور برطانوی نیوز ایجنسیوں یا سماجی تنظیموں کے
ذریعے ہی پہنچ رہی ہیں۔
حیران کن انداز میں روہینگیا میں مسلمانوں پر ہونے پر ظلم پر اس وقت سب سے
زیادہ شور امریکہ اور اس کے اتحادی مچا رہے ہیں۔
امریکہ اور برطانیہ کے دباؤ پر اقوام متحدہ کی معائنہ کار ٹیم کو میانمار
بھیجا گیا جس کو انہوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
2015 میں مختلف امریکی تنظیموں نے بیان دیا کہ روہیینگیا مسلمانوں کے مکمل
قتل عام کا خطرہ ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور یو ایس ڈپارٹمنٹ آف سٹیٹ کے مطابق میانمار حکومت
راخائن بدھوں کا ساتھ دے رہی ہے قتل عام میں۔
میانمار حکومت نے الزام لگایا ہے کہ روہینگیا مسلمانوں نے 2300 گھر جلادئیے
تو انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے فوراً اسکی تردید کرتے ہوئے
بیان دیا کہ سیٹیلائٹ سے لی گئی تصاویر سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آگ میانمار
کی فوج نے لگائی ہے۔
اقوم متحدہ کے خصوصی نمائندے یانگ ہی لی کے مطابق میانمار کی حکومت
روہینگیا مسلمانوں کو مکمل طور پر ختم کر دینا چاہتی ہے۔
پوپ فرانس نے بھی اس قتل عام کی پرزور مذمت کی ہے۔
اور تو اور عراق، شام اور کشمیر میں لاکھوں مسلمانوں کے قتل عام پر چپ رہنے
والی ملالہ بھی بول پڑی ہے اور عالمی برادری سے اپنا کردار ادا کرنے کی
اپیل کی ہے ۔۔۔۔۔۔ :)
کیوں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
امریکہ یا اس کے حواریوں کو مسلمانوں سے ہرگز کوئی ہمدردی نہیں۔ بلکہ اصل
وجہ...
برما یا میانمار تیل و گیس کے ذخائر سے مالامال ایک انتہائی اہم سٹریٹیجک
لوکیشن پر واقع ہے۔ یہاں پر چین اور بھارت اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کی تگ و
دو کر رہے ہیں اور چین اپنی بے پناہ سرمایہ کاری کی بدولت بھارت پر حاوی
ہے۔
میانمار میں چینی اثرورسوخ امریکہ کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ امریکہ کی پوری
کوشش ہے کہ اقوام متحدہ کی امن فوج کے نام پر وہ میانمار میں ڈیرے ڈال لے۔
یوں نہ صرف وہاں تیل و گیس کے محفوظ ذخائر سے استفادہ کر سکے بلکہ چین کی
ناکہ بندی بھی کر سکے۔
یہ ہے اصل وجہ جس کے لیے امریکہ اور برطانیہ روہینگیا مسلمانوں کے غم میں
پاگل ہو رہے ہیں۔
آپ نوٹ کیجیے میانمار میں قائم جمہوری حکومت کی کرتا دھرتا آنگ سان سوچی کو
فوجی حکومت ختم کرنے پر امریکہ نے امن کے نوبل انعام سے نوازا تھا اور اس
وقت اسی کے حکم پر فوج روہینگیا مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔
اس وقت کئی چینی کمپنیاں میانمار میں کام کر رہی ہیں۔ لیکن میانمار کی
حکومت کا دعوی ہے کہ چین وہاں باغیوں کو بھی سپورٹ کر رہا ہے جو میانمار
فوج پر حملے کر رہےہیں۔
چین اس وقت کم از کم 30 ہزار روہینگیا مسلمانوں کو اپنے کیمپوں میں پناہ دے
چکا ہے۔
چین نے میانمار حکومت کو پیش کش کی ہے کہ وہ روہینگیا مسلمانوں کے معاملہ
پر بنگلہ دیش کے ساتھ انکے معاملات حل کر سکتا ہے لیکن میانمار حکومت نے
چینی پیشکش مسترد کر دی ہے۔
اب آتے ہیں پاکستان کی طرف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کی دفتر خارجہ نے معاملے کی رسمی مذمت کی ہے۔
بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ کم از کم 2 لاکھ روہینگیا مسلمان اس وقت بھی
پاکستان میں مقیم ہیں جو مختلف وقتوں میں پاکستان آئے تھے۔
روہینگیا مسلمانوں نے قیام پاکستان سے پہلے پاکستان میں شامل ہونے کی تحریک
چلائی تھی اور ان کے لیڈر خود کو محمد علی جناح کہتے تھے۔
موجودہ مسئلے پر پاکستان کا ردعمل فی الحال دفتر خارجہ کے ایک بیان تک ہی
محدود ہے۔
سوشل میڈیا پر بیٹھے کچھ مجاہدین کو پاک فوج پر تنقید کرنےکا نیا بہانہ مل
گیا ہے۔ انکی خواہش ہے کہ پاک فوج فوری طور پر میانمار پر حملہ کر دے
۔۔۔۔۔۔ :)
انکو غالباً علم ہی نہیں کہ ہماری کوئی سرحد میانمار سے نہیں ملتی۔ اگر
فضائی حملہ کرنا چاہیں تو انڈیا اور چین اپنی فضائی حدود میانمار کے خلاف
ہرگز استعمال نہیں کرنے دینگے کیونکہ دونوں نے وہاں بہت بڑی سرمایہ کاری کر
رکھی ہے۔ نہ ہی بنگلہ دیش کو اس معاملے میں قائل کیا جا سکتا ہے جو فوجی
قوت کے لحاظ سے میانمار سے بہت کمزور اور خوفزدہ ہے۔
میانمار کو فوجی امداد دینے والے سب سے بڑے ممالک چین، انڈیا اور روس ہیں۔
پاکستان کو چاہئے کہ چین، میانمار کی حکومت، بنگلہ دیش اور روس کو قائل کرے
کہ اگر اس مسئلے کو حل نہیں کیا گیا تو امریکہ امن فوج کے نام پر یہاں بھی
ڈیرے ڈال لے گا۔ اور امریکہ جہاں بیٹھ جائے پھر وہاں سے مشکل سے ہی جاتا
ہے۔
پاکستان تھائی لینڈ اور ملاایشیاء جیسے ممالک سے بات کرے کہ اگر یہ ظلم بند
نہ کیا گیا تو وہاں بسنے والے مینمار کے تمام شہریوں کو واپس بھیج دیا
جائیگا۔ یاد رہے کہ صرف ان دو ممالک میں کم از کم 18 لاکھ کے قریب لوگ کام
کرتے ہیں جنکی واپسی میانمار کی حکومت کسی بھی طرح برداشت نہیں کر سکتی۔
اگر میانمار کی حکومت قائل نہیں ہوتی تو روس اور چین فوجی امداد بند کریں۔
پاکستان سمیت بڑے اسلامی ممالک کے سربراہان میانمار کے دورے کریں۔ کسی
ریاست کے سربراہ کا دورہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ایسے دوروں کا اثر فوری طور
پر نظر آئیگا۔
مجاہدین کی مدد سے وہاں روہنگیا مسلمانوں کی گوریلا جنگ سود مند نہیں رہے
گی کیونکہ طاقت کا توازن بری طرح سے خلاف ہے۔ 5 لاکھ باقاعدہ فوج اور
لاکھوں کی راخائن ملیشیا کے مقابلے میں ایسی کسی کوشش کے نتیجے میں ان
مسلمانوں پر مزید تباہی آئیگی۔
کئی دہائیوں سے جاری یہ کشمکش اگر پھر بھی ختم نہیں ہوتی تو امریکہ کی نام
نہاد امن فوج کو بلانے کے بجائے دنیا کے 56 اسلامی ممالک ان 10/12 لاکھ بے
وطن اور مظلوم مسلمانوں کو آپس میں تقیسم کر لیں۔ خاص طور پر وسطی ایشیائی
ریاستوں میں اسکی بہت گنجائش ہے۔
راقم الحروف نے آخری تجویز مسلمانوں کی کمزور عالمی حیثیت کے تناظر میں
غالباً مایوس ہوتے ہوئے دی ہے. اس کی بجائے انڈونیشیا کے مشرقی تیمور کی
نئی عیسائی ریاست کے قیام کو مثال بناتے ہوئے برما میں نئی مسلم ریاست کی
تجویز زیادہ درست تھی. |