میانمارمیں روہنگیامسلمانوں پرمظالم

سچ تو یہ ہے کہ اس دورمیں مسلمان جہاں بھی آبادہیں وہ کسی نہ کسی کے ظلم کاشکارضرورہیں۔دنیاکے تمام ممالک میں مسلمانوں پرکیے جانے والے مظالم کے اندازاورحربے مختلف ضرورہیں تاہم اس ظلم میں کوئی کسرنہیں چھوڑی جارہی ہے۔جس کاجتنابس چلتاہے وہ اتناہی مسلمانوں پرظلم کرتاہے۔مسلمانوں پرمظالم کی تاریخ توصدیوں پرانی ہے۔موجودہ دورمیں برماکے مسلمانوں پرسب سے زیادہ ریاستی ظلم ہورہا ہے۔برماکے مسلمانوں پرمظالم یہ کوئی دوچارسال سے نہیں ہورہے بلکہ ان مظالم کی تاریخ سال ہاسال پرانی ہے۔سال دوہزارپندرہ عیسوی میں انٹرنیٹ پراپ لوڈکی گئی ایک ویڈیوکے مطابق برماکی حکومت وہاں کے مسلمانوں کویہ کہہ کرنہیں رہنے دیتی کہ ان کے آباؤاجدادبرطانوی دورحکومت سے پہلے آبادنہ تھے جبکہ مسلمانوں کاکہنا ہے کہ ان کے آباؤاجدادیہاں صدیوں سے آبادہیں۔آٹھویں صدی عیسوی میں خلیفہ ہارون رشیدکے دورمیں مسلمان تاجرتجارت کی غرض سے اس خطے میں آئے۔ ان مسلمان تاجروں نے تجارت کے ساتھ ساتھ یہاں کی مقامی آبادی کواسلامی تعلیمات سے بھی روشناس کرایا۔ان تعلیمات سے متاثرہوکریہاں کی کثیرآبادی نے اسلام قبول کرلیا۔سال چودہ سو تیس عیسوی میں اراکان کے بادشاہ نے بھی اسلام قبول کرلیا۔اراکان کے بادشاہ نے ملک میں ہزاروں مساجداورمدارس قائم کیے۔یہاں ساڑھے تین سوسال تک مسلمانوں کی حکومت رہی۔اراکان کی کرنسی پرکلمہ طیبہ لکھاہواہوتاتھا۔انیسوی صدی عیسوی تک مسلمان یہاں سکون سے رہ رہے تھے۔ایسٹ انڈیاکمپنی نے جب اس خطے پرقبضہ کیاتواس نے تقسیم کرواورحکومت کروکے بدنام زمانہ اصول کے تحت اراکان میں بدھوں کومسلمانوں کے خلاف بھڑکاناشروع کردیا۔سال انیس سوبیالیس میں یہاں پہلے مسلم کش فسادات ہوئے ۔ چالیس دنوں میں ڈیڑھ لاکھ مسلمانوں کوشہیدکردیاگیا۔۷۳۹۱ء میں برمانے انگریزوں سے آزادی حاصل کرلی۔ ۷۴۹۱ء میں انگریزجب اس خطے سے واپس گئے تواس وقت مسلم کش فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کوشہیدکردیاگیا۔سال انیس سوانچاس سے اب (سال دوہزارپندرہ ) تک برماکے مسلمانوں کے خلاف چودہ فوجی آپریشن ہوچکے ہیں۔جن میں سے ۸۷۹۱ء کاآپریشن بدترین تھا۔ جس میں ہزاروں مساجداورمدارس کوبھی شہیدکردیاگیا۔اس آپریشن کے نتیجہ میں تین لاکھ برمی مسلمان بنگلہ دیش، دولاکھ پاکستان جبکہ چوبیس ہزارملائیشیامیں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔برمامیں لاؤڈ سپیکرپراذان دینے پرپابندی ہے۔ مسلمانوں کونمازاداکرنے سے روکاجارہا ہے۔مسلمان کوئی جانورذبح نہیں کرسکتے، سرکاری اجازت کے بغیرشادی نہیں کرسکتے، بچے پیدانہیں کرسکتے،ایک سے دوسرے شہرمیں نہیں جاسکتے۔یہ سال دوہزارپندرہ تک کی برماکے مسلمانوں کی حالت زارکی دردبھری داستا ن ہے۔اس وقت دوسال کاعرصہ اورگزرگیا ہے۔ برماکے مسلمانوں پرمظالم میں کبھی کمی نہیں آئی۔برماکے مسلمان اس وقت بھی سمندرمیں بے یارو مددگار تھے اب بھی سمندرمیں بے یارومددگارہیں۔اس وقت بھی بنگلہ دیش کی حکومت انہیں قبول کرنے کوتیارنہیں تھی اوراب انہیں قبول کرنے سے انکاری ہے۔ روہنگیا مسلمانوں پرجس طرح ظلم کیاجارہا ہے اس کی تصاویرمیڈیامیں تونہیں دکھائی جاسکتیں تاہم فیس بک، واٹس اپ اوردیگرسوشل میڈیاپرعام ہوچکی ہیں ، ان تصاویر کودیکھنے کی کسی صاحب دل شخص میں ہمت نہیں ہے۔ پانچ ستمبردوہزارسترہ کے ایک قومی اخبارمیں برماکے مسلمانوں پرظلم کی تازہ ترین داستان کچھ یوں ہے کہ میانمارمیں روہنگیامسلمانوں کی آبادیوں پرفوج ملیشیاکے حملوں کے بعدنوے ہزارکے قریب مسلمان جان بچاکربنگلہ دیش کی سرحدپرپہنچ گئے ہیں۔لیکن بنگلہ دیش کی طرف سے کوئی بھی مثبت جواب نہیں پایا۔میانمارمیں مسلمانوں کے اڑھائی ہزارسے زیادہ گھروں کوآگ لگادی گئی۔صرف تین دن میں تین ہزارمسلمان شہیدکردیے گئے۔ایسے میں ترکی میدان میں�آگیا میانمارکی حکومت کی امدادکی بندش کاعندیہ دیتے ہوئے اعلان کیاہے کہ بنگلہ دیش کی حکومت روہنگیا مسلمانوں کوپناہ دے ان پناہ گزینوں کے تمام اخراجات ترک حکومت اداکرے گی۔یہ اعلان ترکی کے وزیرخارجہ نے عیدالاضحی کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ترک صدرنے روہنگیاکے مسلمانوں پرہونے والے مظالم کانوٹس لے لیا ہے۔اورہم نے فوری طورپراسلامی تعاون تنظیم کومتحرک کیا ہے ۔اسی مسئلے پرایک کانفرنس کاانعقادبھی کیاجائے گا۔ہم اس مسئلے کافیصلہ کن حل چاہتے ہیں۔برماکے مسلمانوں پرہونے والے مظالم روکنے کے لیے ترک حکومت نے اپنانقطہ نظرواضح کردیاہے۔اس سے قبل میانمارمیں مسلمانوں پرہونے والے تشددپرترک وزیرخارجہ نے اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل اورمشاورتی کمیشن کے سربراہ کوفی عنان سے فون پررابطہ کیااورتمام ترصورت حال پربات کی۔میانمارکی فوج نے روہنگیامیں مسلمانوں سے جینے کاحق بھی چھینناشروع کردیا ہے۔دوہزارچھ سوگھروں کوآگ لگادی گئی۔وہاں سے جان بچاکربھاگنے کی کوشش کرنے والے مسلمانوں کے سرقلم کیے جارہے ہیں۔مظالم اپنی انتہاکوپہنچنے کے بعدسعودی شاہ بھی میدان میںآگئے۔عرب میڈیاکے مطابق سعودی عرب نے میانمارکے روہنگیامسلمانوں پرتشددکی مذمت کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں روہنگیامسلمانوں پرمظالم رکوانے کے لیے قراردادلانے کااعلان کیاہے۔قراردادمیں مظالم اورانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی جائے گی اورمطالبہ کیاجائے گاکہ روہنگیامسلمانوں پروحشیانہ مظالم کانوٹس لیاجائے۔سعودی عرب کے اقوام متحدہ کے مشن نے ایک ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ روہنگیامسلمانوں کے مسائل کے حل کی خاطراوربے حسی کے خاتمے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔سعودی عرب نے سیکیورٹی کونسل کے ارکان سے رابطہ کیا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں پروحشیانہ مظالم کانوٹس لے۔جس کے بعداقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے میانمارحکومت کی مذمت کی ہے۔پاکستان نے روہنگیامسلمانوں کے قتل عام اورجبراً نقل مکانی کی رپورٹس پرشدیدتحفظات کااظہارکرتے ہوئے میانمارحکومت سے مسلمانوں کے حقوق کے لیے اقدامات کرنے کامطالبہ کیاہے ۔ دفترخارجہ کے بیان میں ترجمان نفیس زکریا نے کہا کہ عیدالاضحی کے موقع پرپاکستان کوروہنگیامسلمانوں کے قتل اورنقل مکانی کی رپورٹس پرشدیدتحفظات ہیں ۔ بیان میں کہاگیا ہے میانمارکی حکومت معاملے کی تحقیقات کرائے اورذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے حقوق کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں۔پاکستان عالمی برادری بالخصوص اسلامی تعاون تنظیم کے ساتھ مل کرروہنگایامسلمانوں کے ساتھ اظہاریکجہتی اوران کے حقوق کے مفادات کاتحفظ کرتارہے گا۔ہزاروں مسلمانوں کے قتل عام اورلاکھوں کے ترک وطن کے بعداقوام متحدہ کی جانب سے بالآخرپہلابیان آہی گیا۔نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرمیں ایک پریس کانفرنس کے دوران سیکرٹری جنرل انتونیوگوتیرش نے میانمارکی حکومت سے تشدد فوری بندکرنے کامطالبہ کیا ہے۔انہوں نے خبردارکیا کہ روہنگیابحران پورے خطے کوغیرمستحکم کرسکتاہے۔سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ سلامتی کونسل سے اپیل کی ہے کہ روہنگیامسلمانوں کے بحران کے حل کے لیے تجاویزدی جائیں ،مالدیپ کی حکومت نے میانمارسے تجارتی تعلقات ختم کرنے کااعلان کیاہے۔میانمارکے دورے پرپہنچے بھارت کے وزیراعظم نریندرمودی نے آنگ سان سوچی سے ملاقات میں روہنگیابحران پربھی بات کی۔بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینی واجدنے سلامتی کونسل کولکھے گئے ایک خط میں مطالبہ کیا ہے کہ میانمارکی حکومت پرتحمل اوربرداشت کی پالیسی اپنانے کے لیے دباؤڈالے، انہوں نے عالمی راہنماؤں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بحران جل کرنے کے لیے میانمارحکومت پردباؤڈالیں ترکی اورانڈونیشیانے روہنگیامسلمانوں کے بحران کے حل کے لیے سفارتی کوششیں تیزکردی ہیں۔ترک صدرطیب اردوان نے میانمارکی راہنماآنگ سان سوچی کوفون کیااورمسلمانوں کی نسل کشی پرمسلم ممالک کی تشویش سے آگاہ کیا۔انڈونیشیاکی وزیرخارجہ میانمارپہنچ گئی ہیں جہاں وہ آنگ سان سوچی اورفوجی کمانڈروں سے ملیں گی۔آنگ سان سوچی کاجواب بھی سامنے آگیا ہے کہ سرکاری میڈیامیں شائع خبرکے مطابق آنگ سان سوچی نے طیب اردوان کوبتایا کہ ان کی حکومت نے رخائن صوبے کے تمام افرادکوتحفظ فراہم کرنے کی ہرممکن کوشش کی ہے،اخبارکے مطابق آنگ سان سوچی نے کہا کہ کئی افرادسے بہت زیادہ بہترہم جانتے ہیں کہ انسانی حقوق اورجمہوری تحفظ سے محروم ہوناکیاہوتاہے۔سوچی نے کہا کہ اس لیے ہم اس بات کویقینی بناتے ہیں کہ ہمارے ملک کے تمام افرادکے حقوق کاتحفظ ہوجونہ صرف سیاسی ہوسماجی اورانسانی تحفظ بھی فراہم کیاجائے۔آنگ سان سوچی کایہ بیان توروہنگیامسلمانوں کے زخموں پرنمک چھڑکنے سے بھی کہیں زیادہ سخت ہے جس میں اس نے کہا کہ بہت سی غلط خبریں اورتصاویرگردش کررہی ہیں۔جوکہ غلط اطلاعات پرمبنی ہیں تاکہ دہشت گردوں کے مفادات کے لیے مختلف برادریوں کے درمیان مسائل میں اضافہ کیاجائے۔کس ڈھٹائی کے ساتھ آنگ سان سوچی نے روہنگیامسلمانوں پرکیے گئے ظلم سے یہ کہہ کرانکارکردیا ہے کہ ہم اس بات کویقینی بناتے ہیں کہ ہمارے ملک کے تمام افرادکے حقوق کاتحفظ ہوجونہ صرف سیاسی ہوسماجی اورانسانی تحفظ بھی فراہم کیاجائے۔ اس سے بڑی ڈھٹائی اورکیاہوسکتی ہے کہ اس نے ظلم کی خبروں اورتصاویرکوبھی غلط قراردے دیا ہے۔یہ کہہ کراس نے دنیاکی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی ہے۔اس نے تمام افرادکوتحفظ دینے کاکہا ہے مسلمانوں کااس نے نام ہی نہیں لیامسلمانوں کوتواس کی حکومت میانمارکاشہری ہی نہیں سمجھتی۔ شہبازشریف نے کہا ہے کہ میانمارمیں مسلمانوں کاقتل عام نسل کشی کی بدترین مثال ہے۔عالمی برادری ، مسلم دنیااوراقوام متحدہ روہنگیامسلمانوں پرظلم وستم پرچشم پوشی کی بجائے میانمارحکومت پردباؤڈالے۔روہنگیامسلمانوں پرمظالم کے خلاف قومی وصوبائی اسمبلیوں میں قراردادیں جبکہ سینیٹ میں تحریک التواء جمع کرادی گئی ہے۔ بلاول بھٹونے مطالبہ کیا ہے کہ میانمارمیں مسلمانوں کاقتل عام بندکیاجائے۔پاکستان سنی تحریک نے حکومت پاکستان سے جہادکااعلان کرنے کامطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان سنی تحریک کے کارکنان روہنگیامسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کٹ مرنے کوتیارہیں۔ علامہ خادم حسین رضوی نے پندرہ ہزارروہنگیامسلمانوں کے اخراجات برداشت کرنے کااعلان کیا ہے۔ مولاناالیاس قادری نے بھی روہنگیامسلمانوں پروحشیانہ ظلم کی مذمت کی ہے ۔ علامہ محمدرضاثاقب ایک جلسہ میں روہنگیامسلمانوں کاتذکرہ کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے۔بحری ٹاؤن کے ملک ریاض نے روہنگیامسلمانوں کے لیے ایک ارب روپے کی امدادکااعلان کیا ہے ۔بہت سے سیاسی راہنماؤں نے بھی روہنگیامسلمانوں پروحشیانہ ظلم کی مذمت کی ہے اوراقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان مظالم کانوٹس لے۔

میانمارمیں مسلمانوں پرظلم وستم پرعالمی ومسلمان برادری نے انگڑائی لی توہے تاہم دونوں طرف سے مظالم کے تناسب سے انتہائی کمزورردعمل سامنے آیا ہے۔ حیرت کی بات تویہ ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بھی میانمارحکومت سے مطالبہ کررہے ہیں۔اتنے بڑے ادارے کاسربراہ بھی صرف مطالبوں پرہی اکتفاکرے تویہ اندازہ ہوجاناچاہیے کہ عالمی برادری کومسلمانوں خاص طورپر میانمارکے مسلمانوں کے مسائل سے کتنی دلچسپی ہے۔وہ امریکہ جوپاکستان کوپتھرکے زمانے میں دھکیلنے کی دھمکی دے سکتاہے، افغانستان، عراق، شام اوردیگرمسلم ممالک پرچڑھائی کرسکتاہے، ایٹمی طاقت حاصل کرنے کے غم میں پاکستان اورایران پرپابندیاں لگاسکتاہے، پاکستان پردہشت گردوں کوپناہ دینے کاالزام لگاسکتاہے کیا وہ امریکہ میانمارکی حکومت سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ مسلمانوں پرظلم بند کرے ۔ اس نے اس ظلم وستم پرایسے چپ سادھ رکھی ہے جیسے کچھ ہواہی نہ ہو۔جوظلم میانمارمیں مسلمانوں پرہورہا ہے اس سے نوے فیصدسے بھی کم ظلم کسی مسلمان ملک میں غیرمسلم پرہورہا ہوتا تواب تک اس مسلمان ملک پرپابندیاں لگ چکی ہوتیں۔اس ملک کواب تک دہشت گرد ملک قراردے کراس کی حکومت کے خلاف جنگی جرائم کامقدمہ بھی چلایاجاچکاہوتا۔میانمارمیں چونکہ مسلمانوں پرظلم ہورہا ہے اس لیے ایساکچھ بھی نہیں ہوگا۔انسانی حقوق کی وہ تنظیمیں جوپاکستان میں توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال اورغیرت کے نام پرقتل کے نام پرآسمان سرپراٹھائے رکھتی ہیں انہوں نے میانمارکے مسلمانوں پرظلم پرآنکھیں بندکررکھی ہیں ۔جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ یہ تنظیمیں اورممالک دہشت گردی، ظلم اورانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف نہیں مسلمانوں کے خلاف ہیں۔مسلمانوں سے ہمدردی ہوتی تواب تک میانمارکی حکومت پرپابندیاں لگائی جاچکی ہوتیں اس کے خلاف جنگی جرائم کامقدمہ چلایاجاچکاہوتا۔ ترکی،مالدیپ ،انڈونیشیااوربنگلہ دیش نے میانماربحران حل کرنے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے ہیں۔مسلم ممالک اپنی کمزوریوں کی وجہ سے اورکچھ نہیں کرسکتے روہنگیامسلمانوں کوپناہ تودے سکتے ہیں، تمام مسلمان ممالک روہنگیامسلمانوں کوآپس میں تقسیم کرلیں توہرایک کے حصہ میں چند ہزار روہنگیامسلمان ہی آئیں گے ۔اگران مظلوم مسلمانوں کو کسی ایک جگہ بسایاجائے اوران کے اخراجات تمام مسلم ممالک مل کربرداشت کریں تویہ اوربھی آسان حل ہے۔یہ اقدام کرلیاجائے تومخیرحضرات اورمذہبی ، سماجی تنظیمیں بھی تعاون کریں گی۔
 

Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 350631 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.