ہر میدان میں ’عطائی‘ ہیں!

 خبر سے یہ تو معلوم نہیں ہوا کہ آیا جلّادوں کی کمی کی وجہ سے مجرموں کی پھانسیوں میں تاخیر ہو رہی ہے، یا پھانسی کا انتظار اس لئے کیا جا رہا ہے کہ تربیت یافتہ جلّاد دستیاب نہیں۔ تاہم یہ بتایا گیا ہے کہ جنوبی پنجاب میں جلادوں کی کمی کی وجہ سے غیرتربیت یافتہ وارڈرز سے ہی کام چلایا جارہا ہے، اس سے پھانسی پانے والے بھی اذیت کا شکار ہوتے ہیں، کیونکہ تکنیکی طور پر پھانسی پانے والے فرد کی روح آٹھ دس منٹ میں قفسِ عنصری سے پرواز کر جاتی ہے، مگر اناڑی جلّادوں کی کارروائی سے آدھ آدھ گھنٹہ تک پھانسی پانے والا لٹکتا اور تڑپتا رہتا ہے۔ اس تکلیف دہ خبر کے ساتھ یہ اطلاع بھی موجودہے کہ تقریباً چالیس برس قبل ضیاء الحق کے دور میں ایک جلّاد کو ایک پھانسی لگانے کا معاوضہ دس روپے دیا جاتا تھا، تاہم ٹی اے ڈی اے الاؤنس اس کے علاوہ ہوتا تھا (پھانسی دینے کے معاوضے کی رقم سے ان کو دیئے جانے والے دیگر اخراجات کا اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں) معاوضے کی یہ رقم مشرف دور تک قائم رہی۔ زرداری کے پانچ سالہ دور میں ایک بھی مجرم کو پھانسی نہیں دی گئی۔ جبکہ گزشتہ ڈھائی سالوں میں جنوبی پنجاب میں نوّے مجرم پھانسی پر لٹکائے گئے، جن کے لئے تربیت یافتہ جلّاد کی خدمت حاصل نہیں کی گئی، بلکہ وارڈرز نے ہی یہ فریضہ نبھا دیا۔ جب آئی جی جیل خانہ جات سے اس ضمن میں بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ پھانسی کے لئے کسی تربیت کی ضرورت نہیں ہوتی، کوئی بھی اہلکار پھانسی کا لیور کھینچ سکتا ہے۔

ایسے جلّادوں کو ’عطائی جلاّد‘ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ کیونکہ تربیت تو یقینا ہر کام کے لئے درکار ہوتی ہے، جو لوگ دہائیوں سے کسی شعبے میں کام کر رہے ہوتے ہیں، ان کی تربیت کے بندوبست بھی کئے جاتے ہیں، تاکہ وہ ماحول اور گردو پیش آنے والی بہتر تبدیلیوں سے آگاہ رہ کر اپنے فرائض سرانجام دے سکے۔ معاملہ خواہ تعلیم کا ہو، صحت کا یا پھر انتظامی امور کا، تربیت ہر کسی کے لئے لازم وملزوم کا درجہ رکھتی ہے۔ مگر اپنے ہاں یہ رواج عام ہے کہ اکثر شعبہ ہائے زندگی میں انسان کے بہت سے معاملات ’عطائیوں‘ کے ہاتھ میں ہیں۔ ابھی چند روز قبل ہی عید الاضحی گزری ہے، گلی گلی میں ’عطائی قصابوں‘ کے چکر تھے، وہ صرف چکر لگا ہی نہیں رہے تھے، بلکہ بہت سے لوگ ان کے چکر میں آبھی رہے تھے۔ ایسے قصاب جانتے ہیں کہ رش کی وجہ سے لوگوں کو قصاب کی ضرورت ہے، اس لئے انہوں نے ’موسمی قصاب‘ کا روپ دھار کر لوگوں کو اپنے جال میں پھنسایا۔ معلوم اس وقت ہوتا ہے، جب کام شروع ہو جاتا ہے، اس وقت انسان جعل سازوں کا کچھ کر بھی نہیں سکتا۔ ایسے میں جہاں بیچارہ قربانی کا جانور اذیت کا شکار ہوتا ہے، وہاں اُس گھر والے بھی پریشان ہوتے ہیں، بلکہ ایک عرصہ تک یہ تلخ یاد انہیں پریشان کرتی رہتی ہے، کیونکہ انہوں نے گوشت بھی ترتیب سے اور اچھے طریقے سے نہیں بنایا ہوتا۔

تجربہ کا معاملہ جلّادوں اور قصابوں تک ہی محدود نہیں، بلکہ ناتجربہ کاری کا میدان بہت وسیع ہے، یہاں تو لفظ ’’عطائی‘‘ نے شہرت ہی انسانی جانوں سے کھیلنے والوں سے پائی ہے، بغیر کسی ضروری تعلیم اور معقول تجربے کے جو لوگ مریضوں کے علاج معالجہ کی ذمہ داری اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھا لیتے ہیں، لوگوں سے ہی انہیں تجربہ ملتا ہے، اور انہی کی جانوں سے وہ کھیلتے ہیں۔ اپنی حکومتیں عطائیوں کے خلاف ’’آپریشن ‘‘ بھی کرتی رہتی ہیں، اور پولیس اور متعلقہ محکمہ کے ذمہ داران کی ملی بھگت سے عطائیوں کا کام بھی چلتا رہتا ہے۔ ایسے لوگوں کو پکڑا تو جاتا ہے، مگر قانون کی گرفت زیادہ مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے وہ جلد ہی آزاد ہونے کے بعد اپنا کام نئے جوش وجذبے اور آزادی کے ساتھ کرتے ہیں۔ ہر میدان کے عطائیوں کا رونا تو کیا رونا، یہاں تو تربیت یافتہ بھی اپنا کام پورا نہیں کرتے، اپنی ذمہ داریاں بھی پوری ایمانداری اور تندہی سے انجام نہیں دیتے۔ سرکاری سکولوں کو دیکھ لیں، نہ صرف تربیت یافتہ ٹیچرز موجود ہیں، بلکہ اب تو ان کی تنخواہ بھی معقول ہے، مگر کارکردگی ایسی کہ سرکاری سکول بری طرح ناکام ہو رہے ہیں۔ یہی عالم سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کا ہے، کہ وہاں مریضوں پر توجہ نہ ہونے کے برابر، یا بہت ہی کم۔ یہی حال سرکاری دفاتر کا ہے، عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے انہیں خوار کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔اور تو اور یہاں تو حکومت بھی عطائیوں کی طرح چلائی جاتی ہے۔
 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 473414 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.