سیکورٹی کونسل کی رکنیت اور بھارت کی نااہلی

دوسری جنگ عظیم نے سالہا سال تک دنیا کو آتش و آہن کی آماجگاہ بنا کر رکھا ہوا تھا۔ اس جنگ کے دوران اور بعد میں جو کچھ ہوا وہ انسانیت کی تلخ یادیں ہیں لیکن اس جنگ کے اختتام پر دنیا کو جو ایک امید کی کرن نظر آئی وہ لیگ آف نیشن اور پھر اقوام متحدہ کا قیام تھا۔24 اکتوبر 1945 کو باضابطہ طور پر اس کا قیام عمل میں آیا تو اس نے اپنا جو مقصد بیان کیا وہ دنیا کو جنگ سے بچانا تھا اگرچہ اب بھی اس معاملے میں اس کا کردار متنازعہ ہی ہے اور اس کی وجہ وہ بڑی طاقتیں ہیں جو سیکورٹی کونسل کے نام پر اس ادارے پر اپنی اجارہ داری قائم رکھے ہوئے ہیں اور حقیقتاً ویٹو پاور کے نام پر یہ ممالک اپنی من مانی کرتے رہتے ہیں۔ یوں تو ان ویٹو پاورز کے ساتھ ساتھ دس غیر مستقل ممالک بھی اس کونسل کے ممبر ہیں تاہم حقیقتاً کسی معاملے پر صرف ووٹ دینے ہی کی حد تک محدود ہیں۔اور اس ووٹ کی اہمیت بھی صرف تب تک ہے جب تک کوئی بڑی طاقت اس فیصلے کو ویٹو نہ کردے۔ جنرل اسمبلی میں اگرچہ دنیا کے180 سے زائد ممالک کو رکنیت حاصل ہے تاہم آخری فیصلہ سیکورٹی کونسل کے پانچ مستقل ارکان کی مرضی سے ہی ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بیشتر بڑے ممالک کی یہ خواہش رہتی ہے کہ انہیں سیکورٹی کونسل کی مستقل رکنیت حاصل ہو جائے۔ سیکورٹی کونسل کے غیر مستقل ارکان میں سے پانچ ایشیائی، دو لاطینی امریکی، دو مغربی یورپی اور ایک مشرقی یورپی ممالک میں سے چنا جاتا ہے۔لیکن ظاہر ہے کہ یہ سارے ممالک پانچ مستقل ارکان کے سامنے بے بس ہوتے ہیں اسی لئے وقتاً فوقتاً سیکورٹی کونسل میں توسیع کی آواز اٹھتی رہتی ہے جسمیں بھارت کی آواز بھی کافی بلند ہوتی ہے۔ اگرچہ جرمنی اور جاپان بھی اسکے لئے کوشاں رہتے ہیں لیکن پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا کے ممالک کے لئے جو بات باعث تشویش ہے وہ بھارت کی اس اہم ادارے میں شمولیت کی کوشش ہے کیونکہ بھارت جیسا ملک جو علاقے میں اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کے لئے کسی بھی حربے سے اجتناب نہیں کرتا اور خاص کر پاکستان کو دباکر رکھنا چاہتا ہے۔ اسکے ایٹمی اثاثوں تک رسائی یا انکی تباہی اسکا خواب ہے۔ بھارت جو اس مقصد کے لئے کوشاں ہے اگر سیکورٹی کونسل کی مستقل رکنیت تک رسائی حاصل کرلیتا ہے تو یقینناً پاکستان کے حق میں آنے والی کوئی بھی قرار داد روکتا رہے گا اور یوں پاکستان اس ادارے کا ایک معطل سا رکن بن کر رہ جائے گا یوں تو بھارت اب بھی اقوام متحدہ کی کسی قرار داد کو خاطر میں نہیں لاتا ورنہ کشمیر کا مسئلہ حل ہوچکا ہوتا۔ ایک اور بات جو غور طلب ہے وہ یہ کہ سیکورٹی کونسل کے مستقل ارکان میں ایک بھی مسلمان نہیں اور چین کے علاوہ اس پر مغرب ہی کی اجارہ داری ہے۔ ایک امریکہ اور تین یورپی ممالک یعنی برطانیہ، فرانس اور روس اس کے لئے اگر یہ کہہ دیا جائے کہ یہ اسکے بانی ارکان ہیں تو چین نے بھی تو اپنے زور بازو پر اپنا حق حاصل کیا ہے تو پھر کوئی مسلمان ملک کیوں نہیں۔ اسکی وجہ مسلمانوں کی اپنی نااتفاقی بھی ہے اور کم مائیگی اور کم ہمتی بھی لیکن شائد سب سے بڑی رکاوٹ مغرب کا مسلمانوں کے خلاف تعصب ہے۔ ورنہ صرف آبادی کی بنیاد پر تو بھارت کو کچھ ملکوں کی آشیر باد حاصل نہیں ہے کبھی اسکو اکنامک ٹائیگر ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کبھی اسکے عوام کے معیار زندگی بلند ہونے کے دعوے کئے جاتے ہیں حالانکہ ایک ارب آبادی میں اگر دوچار یا چلیں دس کروڑ لوگ بہتر زندگی گزار رہے ہیں تو کوئی بڑی بات نہیں باقی نوے کروڑ کا بھی کوئی حساب ہونا چاہیے اور ان میں فٹ پاتھ پر سونے والوں کا بھی جو رات کو کھلے آسمان تلے اس پریشانی میں گزارتے ہیں کہ آیا صبح کھانے کو کچھ ملے گا بھی یا نہیں۔ پھر بھارت اب تو اپنے اندر خود رو جھاڑیوں کی طرح اگی ہوئی آزادی کی درجن بھر تحریکوں کے آگے بے بس ہے۔ نیکسلائیٹس نے اس کا ناک میں دم کیا ہوا ہے آسام والے اپنے وسائل و ذرائع دہلی منتقل ہونے کے خلاف ہیں کیونکہ خود اسکے لوگ ننگ اور بھوک کا شکار ہیں۔ کشمیر کی ظلم کہانی ہر ایک زبان پر ہے اروناچل ڈریگن فورس، ڈیموکریٹک فرنٹ آف بوڈو لینڈ، دیماسالینڈ، گارو پیپلزلبریشن فرنٹ کمٹ پور، ناگا لینڈ، منی پورغرض اسی طرح کی تقریباً پندرہ تا اٹھارہ علیحدگی پسند تحریکیں بھارت میں چل رہی ہیں تو پھر وہ دوسروں کے بارے میں فیصلے کرنے کا کسطرح اہل ہو سکتا ہے۔ اگر یہ کہہ دیا جائے کہ وہ ایک ایٹمی طاقت ہے تو پاکستان بھی یہ اعزاز رکھتا ہے بلکہ بقول بھارت تو اسکے ایٹمی دھماکے کامیاب ہی نہیں ہوئے تھے۔ ﴿شائد یہ مزید دھماکے کرنے کا ایک بہانہ ہو﴾۔

سچ تو یہ ہے کہ سیکورٹی کونسل کے پانچ ارکان بھی اپنے اپنے دوست اور پسندیدہ ممالک کے حق میں ہی فیصلہ کرتے ہیں اور ناپسندیدہ ممالک کے بارے میں قراردادوں کو ویٹو کر دیتے ہیں اور امریکہ تو اس کا ناخدا بنا رہتا ہے یوں عملاً یہ ادارہ کوئی فیصلہ بڑی مشکل سے کرتا ہے بلکہ بسا اوقات کر ہی نہیں پاتا جس کی بڑی بڑی مثالیں کشمیر فلسطین وغیرہ ہیں۔ لہٰذا اس غیر ضروری توسیع کی تو کوئی ضرورت ہی نہیں اور بھارت کو تو اس ممبر شپ سے دور ہی رکھنا چاہیے ورنہ یہ پاکستان بلکہ اسکے سارے پڑوسیوں کے لئے برا ہوگا کیونکہ بھارت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اسکے اپنے پڑوسیوں سے تعلقات ہمیشہ معاندانہ رہے ہیں اور بجائے اچھے ہمسایوں کے رہنے کے اس نے ہمیشہ اپنے علاقے میں بالا دستی قائم رکھنے کی کوشش کی ہے اور بالا دست کبھی اچھا فیصلہ ساز نہیں ہوتا کیونکہ وہ صرف اپنی انا اور اپنے مفادات کا تحفظ کرتا ہے دوسرا اس کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور بھارت میں یہ خوبی بدرجہ اتم موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کو بھارت کو اس فہرست سے نکال دینا چاہیے تاکہ دنیا اور خاصکر برصغیر کا امن خطرے میں نہ پڑے۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 552521 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.