بھارتی میڈیا کے اثرات

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں میڈیا کسی بھی معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ میڈیا کو کسی بھی معاشرے کا آئنیہ کہا جاتا ہے کیونکہ اس پر وہی کچھ نشر کیا جاتا ہے جو معاشرے میں ہو رہا ہو۔ میڈیا کسی بھی معاشرے پر غیر معمولی اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس سے معاشرے میں انقلاب لایا جا سکتا ہے، معاشرے میں مثبت اور منفی تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں۔ لوگوں کی سوچ کو صحیح راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔

یہ تبدیلی مشبت بھی ہو سکتی ہے اور منفی بھی، دوسرے مذاہب کے بارے میں کچھ حد تک معلومات رکھنا معیوب عمل نہیں کیونکہ انسان میں تجسس کا مادہ پایا جاتا ہے مگر جب ہم ان روایات اور ثقافت کو اپنانا شروع کر دیتے ہیں تو یہ ایک قابل اعتراض بات ضرور ہے اور کسی بھی مذہب کے منافی ہے اور ہمارے معاشرے میں آج کل یہی کچھ تو ہو رہا ہے اور کھلے عام ہو رہا ہے۔ ہر گھر میں بھارتی چینلز بڑے ذوق و شوق سے دیکھے جاتے ہیں۔ بچوں کو سکول کے سبق تو یاد نہیں ہوتے مگر ڈراموں کی کہانیاں پوری طرح یاد ہوتی ہیں۔ ان ڈراموں سے بچوں کے معصوم ذہنوں پر بہت برے اثرات ہوتے ہیں۔ ڈراموں میں بڑے بڑے ایشوز مثلاً شادی سے پہلے امید سے ہونا، لڑکے اور لڑکیوں کے غیر اخلاقی تعلقات اور بہت سے ایسے ایشوز دکھائی دیتے ہیں۔ بچوں کے نا پختہ ذہن ان باتوں کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں اور وہ اندھا دھند ان کی تقلید کرتے ہیں۔ ہر گھر میں ان کے ناچ گانے چل رہے ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ رمضان المبارک جیسے مہینے میں بھی لوگ ان کے گانے اور ڈرامے نہیں چھوڑتے۔ گانوں کے پروگرامز میں یہ لوگ پاکستانی سنگرز کو شامل کر کے ان سے اپنے مذہب کے نعرے لگواتے ہیں جو کہ قابل شرم بات ہے۔ اسلام میں ناچ گانے پر سخت پابندی ہے۔ اور پھر ان پروگرامز میں جو زبان استعمال کی جاتی ہے، انتہائی غیر شائستہ ہوتی ہے۔ ان پروگرامز میں یہ دل کھول کر اپنے مذہب کا پرچار کرتے ہیں۔ اور ہمارے ہاں بعض لوگ ان کی روایات اور ثقافت کو اپنانے لگے ہیں۔ اب ہمارے ہاں بعض گھروں میں گود بھرائی کی رسم تک ادا کی جا رہی ہے۔ مہندیوں پہ لڑکے، لڑکیوں کا مل کر ناچنا، گانا۔ کیا یہ ہماری ثقافت ہے؟ ہم لوگ اپنی روایات کو بھلا کر اسلام سے کتنی دوری اختیار کر رہے ہیں، شاید اس کا ہمیں اندازہ ہی نہیں۔ اس کے علاوہ ان کے ڈراموں میں ساس بہو جیسے مقدس دشتے کو بری طرح پامال کیا جا رہا ہے، کہ یہ یقین کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ اس رشتے میں محبت ہے یا نفرت؟ان کی فلمیں جن میں مسلمانوں اور ہندوؤں کا ملاپ دکھایا جاتا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی جنگ ہے جو وہ لوگ ہم سے جیت رہے ہیں۔ بغیر تلوار کے ہم ان کے اسیر ہوتے جا رہے ہیں، مگر خوشی سے ہم قیدی بن رہے ہیں۔بقول شاعر
کیسی عجیب ہیں یہ محبت کی بندشیں
نہ تم نے قید میں رکھا،نہ ہم فرار ہوئے

آخر میں حکومت سے گزارش ہے کہ وہ انڈین پروگرامز پر پابندی عائد کریں اور اں چینلز کو فوراً بند کریں۔ احتیاط ، علاج سے بہتر ہے، ہم احتیاط کی حد سے تو آگے نکل آئے ہیں ۔اب علاج ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ہمیں اپنے پروگرام بھی بہتر کرنے چاہئیں۔
Ghulam Mujtaba Kiyani
About the Author: Ghulam Mujtaba Kiyani Read More Articles by Ghulam Mujtaba Kiyani: 12 Articles with 19708 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.