آج 9ستمبر ہے اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں ’’فرسٹ ایڈ
‘‘کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ پہلی باریہ دن 2000ء میں انٹرنیشنل فیڈریشن
آف ریڈ کراس، ریڈ کریسنٹ سوسائٹیز نے منایا اور آج تک ہر سال پوری دنیا میں
باقاعدگی سے منایا جاتا ہے۔دنیا بھر میں 100 کے قریب ریڈ کراس‘ ریڈ کریسنٹ
سوسائیٹیز طبی امداد کا عالمی دین مناتی ہیں۔ اس موقع پر لوگوں کو ابتدائی
طبی امداد کی اہمیت و افادیت بارے بتایا جاتا ہے۔ اور عوام الناس کو اس
تربیت کے حصول کی جانب راغب کیا جاتا ہے۔امسال ’’مقامی /گھریلو حادثات‘‘ کو
موضوع بنایا گیا ہے۔ کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ کسی بھی جان لیوا حادثے کی
صورت میں زیادہ تر لوگ زخموں کی تاب نہ لا کرزندگی کی بازی ہار جاتے ہیں یا
ابتدائی طبی امداد نہ ملنے سے؟ ابتدائی طبی امداد حادثات و سانحات میں جائے
حادثہ پر زخمی یا بیمارکو ملنے والی مدد کو کہتے ہیں جو کسی بھی پیشہ ورانہ
طبی امداد کی فراہمی سے قبل دی جاتی ہے۔ حادثے کیلئے وقت مقرر نہیں ہو تا
ہے بلکہ یہ روز مّرہ زندگی کا حصہ ہوتے ہیں۔جب کبھی اچانک کسی حادثے کی وجہ
سے ہم زخمی یا بیمار ہو جائیں تو شدت سے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ہمارے
اردگرد موجود افراد میں سے کوئی ایک توایسا ہو جو فوری ہماری مدد کر سکے ،اس
تکلیف کو کم کر سکے اورمزید نقصان پہنچنے سے بچا سکے ۔ابتدائی طبی امداد یا
فرسٹ ایڈ ایسی ہی صورتحال میں پیشہ ورانہ طبی امداد میسر آنے یاہسپتال
پہنچنے سے قبل زخمی یا بیمار افراد کو مہیا کی جانے والی بروقت اور فوری
مدد کا نام ہے ۔بوقت حادثہ یا بیماری میں ابتدائی طبی امداد دینا تاکہ
بیماری یا زخم مزید خراب نہ ہو ۔ یہ کام صرف ایک تربیت یافتہ آدمی ہی بخوبی
کر سکتا ہے۔ مصنوعی طریقہ سے سانس بحال کر نا ، کسی زخمی کے خون کو روکنا ،
زخموں کی دیکھ بھال اور جراثیم سے بچانا، صدمہ کی حالت میں نفسیاتی امداد
دینا،خوف کو دورکرنا، حوصلہ دینا، اگر مریض کی ہڈی ٹوٹ گئی ہو تو اسے سہارا
دینا ، ایسا بندوبست کرنا کہ مریض کو کم سے کم حرکت ہو، تمام کام نرم
ہاتھوں سے سر انجام دینا اور اسکو آرام دہ حالت میں قریبی ہسپتال تک
پہنچانا ابتدائی طبی امداد کا ہی نام ہے۔ ایک فرسٹ ایڈر کے لئے ضروری ہے کہ
وہ انسانی جسم میں بنیادی نظام کا تھوڑا بہت علم رکھتا ہو۔ ہر روز ملکی
اخبارات ایسی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں جن کے آخر میں لکھا ہوتا ہے کہ ٹریفک
حادثے کے بعد فلاں زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسا۔ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی
جان اس لیے بھی نہیں بچائی جا پاتی کہ ان کے آس پاس موجود کسی بھی فرد کو
ابتدائی یا فوری طبی امداد دینا نہیں آتی۔
اگر کھانا کھاتے ہوئے کسی کے حلق میں کوئی چیز پھنس جائے، کسی کی کوئی اہم
رگ کٹ جائے یا کوئی غلطی سے کوئی زہریلی چیز پی لے تو بہت آسانی سے اس کی
جان بچائی جا سکتی ہے بشرطیکہ متاثرہ شخص کے آس پاس کوئی’’ فرسٹ ایڈ‘‘
جانتا ہو۔ یقین جانئے: پاکستان میں طبی سہولتوں اور بجٹ کا ایک بہت بڑا حصہ
حادثات کا شکار ہونے والے مریضوں پر خرچ ہو جاتا ہے۔ عام لوگوں میں ابتدائی
طبی امداد سے متعلق معلومات بہت کم ہے اور حادثے کے بعد سے ہسپتال لانے تک
کے عرصے کے دوران میں متاثرہ شخص کو طبی امداد دینے کے بارے میں ہمارے عام
ڈاکٹروں کو بھی مناسب تربیت نہیں دی جاتی۔ ان وجوہات کے سبب حادثے کے فوری
بعد کا قیمتی وقت ضائع ہو جاتا ہے اور اس وجہ سے لوگ عام طور پر جائے حادثہ
یا ہسپتال پہنچائے جانے کے دوران ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ فرسٹ ایڈ کی تربیت
صرف چند گھنٹوں پر مشتمل ہے اسے سیکھ کر کئی قیمتی جانیں بچانے میں مدد مل
سکتی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں حادثات بہت عام ہیں، چند بنیادی باتیں
جیسے کسی حادثے کی جگہ خود کو محفوظ رکھتے ہوئے، زخمی کو مزید نقصان نہ
پہنچاتے ہوئے خطرے سے دور کرنا اور فوری طور پر ایمرجنسی امداد فراہم کرنے
اور بروقت ایمبولینس بلانے سے کئی قیمتی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ ایمرجنسی
اور حادثات میں زیادہ تر اموات سانس اور دل بند ہونے یا جسم سے خون کے وافر
مقدار میں ضیاع کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ابتدائی طبی امداد کی فراہمی ہر زخمی
شخص کا بنیادی حق ہے لیکن ہر شخص تک ہر جگہ اور ہر وقت اِسکی رسائی کیلئے
ضروری ہے کہ معاشرے میں زیادہ سے زیادہ ’’فرسٹ ایڈ‘‘ کی تربیت کو عام کیا
جائے اور لوگوں کو آگاہی کے ساتھ ساتھ زندگی بچانے کی مہارتوں پر عبور حاصل
کرنا چاہیے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق ماہانہ روڈ ٹریفک حادثات میں لقمہ
اجل بننے والوں کی تعداد سالانہ بم دھماکوں میں ہلاک ہونے والوں سے کہیں
زیادہ ہے۔ روڈ ٹریفک ایمرجنسی نہ صرف پاکستان کا بلکہ ساری دنیا بالخصوص
ترقی پذیر ممالک کا بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے اور ان حادثات میں بروقت اور
مناسب طبی امداد کی عدم فراہمی کیوجہ سے بہت سے لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں
ہر شہری کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ایمبولنس سروس ایمرجنسی سروس کا ایک
اپنا کردار ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن بحیثیت شہری ہر ایک کو طبی
امداد کی تربیت حاصل کرنی چاہیے تاکہ حادثے یا سانحے کی صورت میں وہ
متاثرین کو طبی امداد فراہم کر سکیں۔ طبی امداد کی اہمیت سے آگاہ شہری ہی
اپنا کردار ادا کر کے متاثرین کو لاحق خطرات کے حوالے سے ترجیحات قائم کرنے
کے قابل ہو گا۔ کسی بھی حالت میں جسم میں خون کی گردش کو قائم رکھے گا
کیونکہ چند منٹ تک اگر دماغ کو خون سے آکسیجن ملنا بند ہو جائے تو اِسکی
وجہ سے نہ صرف دماغ کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ موت واقع ہو سکتی ہے اس لیے
چوٹوں اور خون کے بہاو پر فوری توجہ دینے کیلئے دل کو متحرک رکھنا ہمیشہ
اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
اِس دن کے منانے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ابتدائی طبی
امداد کی تربیت حاصل کی جائے اور دوسروں کو اسکی تربیت کی طرف راغب کیا
جائے۔ یہ وہ بنیادی مرحلہ ہے جو کسی حادثے یا سانحے میں زندگیاں بچانے
کیلئے سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر ہر ادارہ اس اہمیت کو اجاگر کر کے
اس تربیت کو لا زم قرار دے تو کوئی وجہ نہیں کہ حادثات میں جم غفیر خاموش
تماشائی بننے کے بجائے متاثرین کی مدد کر کے بہت سی قیمتی جانوں کو بچانے
میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ہلال احمر پاکستان کا ابتدائی طبی امداد کی
فراہمی کا تربیتی پروگرام 91 اضلاع اور ساتوں برانچوں میں جاری ہے۔سکول‘
کالجز اور جامعات کے طلبہ و طالبات کو فرسٹ ایڈ کی تربیت دی جاتی ہے۔ ملٹی
نیشنل اداروں‘ صنعتی اداروں‘ فیکٹری ورکرز‘ سفارتخانوں‘ ہوٹل و ریسٹورنٹس
کے عملہ کو ابتدائی طبی امداد دیناسکھایا جاتا ہے۔ ہلال احمر کی لائن آف
کنٹرول پر فرسٹ ایڈ پ وسٹ قائم ہے۔ اس کے علاوہ شورش زدہ علاقوں‘ ہنگامی
صورتحال اور مذہبی اجتماعات کے دوران بھی ہلال احمر ’’فرسٹ ایڈ‘‘ فراہم
کرنے میں پیش پیش رہتا ہے ڈاکتر سعید الہی چئیرمین ہلال احمر پاکستان کی
ہمہ جہت سعی سے ہلال احمر نے جڑواں شہروں میں حادثے کے زخمیوں کو بطریق
احسن ہسپتال منتقل کرنے کے لئے یمرجنسی ہیلپ لائن 1030 بھی شروع کر رکھی ہے
جہاں کال کر کے جدید ترین ایمبولینس کے ذریعے کسی بھی زخمی کو ہسپتال منتقل
کیا جا سکتا ہے۔ ہر گھر میں ایک فرسٹ ایڈر ہلال احمر کا مشن ہے۔ ملک بھر
میں اب تک 2493 تربیتی سیشن منعقد کئے جا چکے ہیں۔ جنکی بدولت کل 59 ہزار 7
سو 54 افراد نے تربیت حاصل کی۔ جن میں سے 40,132 مرد اور 19622 خواتین
ہیں۔حادثات سے بچاوکے لئے ہم سب کو ملکر کام کرنا ہے کیونکہ پاکستان ہم سب
کا ہے اور یہ ممکن ہے کہ شاید ہمیں پوری زندگی میں صرف ایک بار کبھی ایسا
موقع ملے کہ ہم اپنے کسی بھائی بہن کو کسی ایمرجنسی میں فوری مدد فراہم
کرکے اْسکی قیمتی جان بچا سکیں لیکن یہ خدمت تو پوری انسانیت کی خدمت کے
برابر ہے۔ ابتدائی طبی امداد کی اہمیت کے پیش نظر حکومت کو نصاب میں فرسٹ
ایڈ کا باب شامل کرنا چاہئے۔ این سی سی کی طرح ’’فرسٹ ایڈ‘‘ کو بھی لازمی
قرار دیا جائے۔11ویں ور 12ویں جماعت کیلئے دو سے تین دن کی لازمی تربیت کا
آغاز کیا جائے اور طلباء کو اس کی طرف راغب کرنے کیلئے سالانہ نتائج میں اس
تربیت کے کچھ اضافی نمبر بھی شامل کئے جائیں۔پولیس ،ہائی وے،پٹرولنگ پولیس
اور صحافت کے شعبے سے منسلک فیلڈ سٹاف کو بھی فرسٹ ایڈ کی تربیت دی جا نی
چائیے اور باقاعدگی سے ہر سال اس کے ریفریشر کورسز بھی منعقد کروائے
جائیں۔مندرجہ بالا چھوٹے چھوٹے مگر انتہائی دور رَس نتائج کے حامل اقدامات
کرکے ہم اپنے گلی، محلہ ،شہر ،صوبہ اور ملک کو بہترین اور تربیت یافتہ
نوجوان افرادی قوت مہیا کر سکتے ہیں جو اپنے ارد گرد حادثات کی صورت میں
بروقت اور فوری طبی امداد دے کر بہت سی قیمتی جانوں کو ضائع ہونے سے بچانے
میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ |