ریکارڈ ساز کرکٹر جاوید میاں داد

یک باصلاحیت کھلاڑی جسے ٹرپل سینچری اور 10000رنز کا ہدف عبور کرنے سے محروم کیا گیا
کرکٹ میں تاریخی ریکارڈ قائم کرکے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ کرکٹ کی خدمت کرتے رہے، انہوں چار مرتبہ کوچ اور ایک بار ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر تعینات کیا گیا

پاکستان میں کرکٹ کی ابتداء 1950ء کی دہائی میں ہوئی اور کھیل کی ابتدا ہی سے اسے ایسے عظیم کھلاڑی ملے جنہوںنے اس کھیل میں کارہائے نمایاں انجام دے کر عالمی شہرت حاصل کی جن میں فضل محمود ، عبدالحفیظ کاردار ، لٹل ماسٹر حنیف محمد کے نام قابل ذکرہیں۔ لیکن کرکٹ کی تاریخ جاوید میاں داد کے تذکرے کے بغیر ادھوری رہتی ہے۔ 1957میں کراچی پیدا ہونے والے جاوید میاں داد کے والدین کا تعلق بھارت کے شہر پالن پورگجرات سے تھا اور ہجرت کے بعد وہ کراچی میں مقیم ہوگئے تھے ۔کرکٹ ان کا خاندانی کھیل تھا اور ان کے والد میاں داد نورمحمد کراچی کرکٹ ایسوسی ایشن میں خدمات انجام دیتے تھے، جس کی وجہ سے جاوید بچپن میں ہی ملک کے معروف کرکٹرز سے متعارف ہوئے۔ ان کے تین بھائی انور میاں داد، سہیل میاں داد اور بشیر میاں داد فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلتے تھے جب کہ ان کے بھانجے فیصل اقبال بھی ٹیسٹ کرکٹرہیں۔

انہیں بچپن سے ہی کرکٹ کھیلنے کا شوق تھا اور اپنی اسکول کی ٹیم کے ساتھ میچ کھیلتے ہوئے انہوں نے بہترین کھیل کا مظاہرہ کیا اور صرف 16سال کی عمر میں انہوں نے فرسٹ کلاس کرکٹ کا آغاز کیا۔ اس سلسلے کا پہلا میچ 1973-74ء میں بی سی سی پی پیٹرنز ٹرافی میں کراچی وائٹس کی جانب سے کھیلے۔ اسی سال انہوں نے بی سی سی پی انڈر 19 کے فائنل میچ میں سندھ کی طرف سے کھیلتے ہوئے پنجاب الیون کے خلاف پہلی اننگز میں 135 اور دوسری اننگز میں 255 رنز ناٹ آئوٹ بنا کر کرکٹ ماہرین کو حیران کردیا۔ اس ٹورنا منٹ میں شاندار کارکردگی کی بنیاد پر وہ 1974ء میں انگلینڈ کے دورے پر جانے والی پاکستان انڈر 19 ٹیم کے نائب کپتان بنادیئے گئے ۔ انگلستان میں انہوں نے بہترین کھیل کا مظاہرہ کیا جس کےبعد 1974-75ء میں سری لنکا کا دورہ کرنے والی جونیئر ٹیم کے کپتان کی حیثیت سے تقرری کردی گئی ۔ اسی سال جب ویسٹ انڈیز کی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی تو انہوں نے ملتان کے تین روزہ میچ میں پاکستان انڈر 19ٹیم کی طرف سے حصہ لیا۔ اسی سیزن میں کاردار سمر شیلڈ کے مقابلوں کا انعقاد ہوا جس میں انہوں نے کراچی کی جانب کھیلتے ہوئےنیشنل بینک کے خلاف 311رنز کی شاندار اننگز کھیلی اور فرسٹ کلاس کرکٹ میں ٹرپل سینچری اسکور کرنے والے دنیا کے سب سے کم عمر کھلاڑی ہونے کا ریکارڈ قائم کیا۔ اس میچ کو کاردار نے بھی دیکھا اور میاں داد کو آئندہ عشرے کا لیجنڈ کھلاڑی قرار دیا۔
اس ریکارڈ ساز اننگز نے جاوید میاں داد کے لئے قومی کرکٹ کے دروازے کھول دیئے اور انہیں 1975ء میں انگلستان میں منعقد ہونے والے کرکٹ کے پہلے عالمی کپ کے لئے پاکستان کی قومی ٹیم میں شامل کرلیا گیا۔ انہوں نے اپنے ون ڈے کیریئر کا ابتدائی میچ کالی آندھی کے نام سے مشہورٹیم، ویسٹ انڈیز کےخلاف کھیلا۔ اس وقت ان کی عمر 18سال سے ایک دن کم تھی، اور وہ ورلڈ کپ میں شرکت کرنے والے تمام کھلاڑیوں میں سب سے کم عمر تھے، ان کے کرکٹ کیریئر کا یہ بھی ایک منفرد ریکارڈ تھا۔
1976-77ء میں انہوں نے لاہور ٹیسٹ میں نیوزی لینڈ کے خلاف ڈیبیو کیا اور اس میچ میں اعلیٰ کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلی ٹیسٹ سنچری163رنز اسکور کی۔ وہ خالد عباداللہ کے بعد پہلے ہی ٹیسٹ میں سنچری اسکور کرنے والے پاکستان کے دوسرے بیٹسمین بن گئے۔ خالد عباداللہ نے 1964-65 ء کے دوران آسٹریلیا کے خلاف کراچی ٹیسٹ میں اپنے پہلے ہی میچ میں 166رنز اسکور کرنے کا کارنامہ انجام دیا تھا۔ جاوید میاں داد نے اس میچ میں آصف اقبال کی پارٹنر شپ میں 281رنز بنائے جو پاکستان کی جانب سے کسی بھی ملک کے خلاف پانچویں وکٹ پر سب سے بڑی شراکت ہے۔ اسی ٹیسٹ سیریز کے کراچی ٹیسٹ میں انہوں نے 206رنز کی شاندار اننگز کھیلی اور ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں ڈبل سنچری اسکور کرنے والے سب سے کم عمر کھلاڑی کا ریکارڈ قائم کیا۔ اسی ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں 85رنز بنائے اور صرف پندرہ رنز کی دوری سے وہ ٹیسٹ میچ کی دونوں اننگز میں سینچریاں اسکور کرنے کا ریکارڈ نہیں بناسکے۔ تین ٹیسٹ میچوں کی اس سیریز میں انہوں نے بہترین کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے 504 رنز بنائے جو کسی بھی پاکستانی بیٹسمین کا اپنی پہلی ہی سیریز میں سب سے زیادہ رنز بنانے کا ناقابل شکست ریکارڈ ہے۔ نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلتے ہوئے انہوں نے بیٹنگ کے ساتھ ساتھ بولنگ بھی کرائی۔ دائیں ہاتھ سے لیگ بریک گگلی بالنگ کرتے ہوئے انہوں نے اس ٹیسٹ سیریز کی آٹھ وکٹیںحاصل کیں جن میں سے تین وکٹیں حیدرآباد ٹیسٹ کے دوران صرف 74رنز دے کر حاصل کیں۔

اس سیریز میں بہتر ین کھیل کے مظاہرے کے بعد انہیں آسٹریلیا کے دورے پر جانے والی ٹیم میں شامل کیا گیا۔ تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں انہوں نے 148 رنز بنانے کے علاوہ 5وکٹیں بھی لیں۔ آسٹریلیا سے وہ ٹیم کے ہمراہ ویسٹ انڈیز کے دورے پر گئے لیکن صرف ایک ٹیسٹ میچ کھیل سکے۔ 1977-78ء میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے پانچ سینئر کھلاڑیوں مشتاق محمد ، ظہیر عباس ، عمران خان، ماجد خان، آصف اقبال پر کیری پیکر سرکس کے ساتھ کھیلنے کی وجہ سے پابندی عائد کردی گئی۔ اسی سال انگلستان کی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی۔ پانچ سپر اسٹارز کی عدم موجودگی میں اس کا مقابلے پر بہت ہی کمزور ٹیم تھی۔ پاکستانی بیٹنگ لائن کو سہارا دینے کے لئے جاوید میاں داد نے ذمہ دارانہ کردار ادا کیا اور سیریز کے تینوں ٹیسٹ میچز میں تین نصف سنچریوں کی مدد سے 262 رنز بنائے۔

1978ء میں پاکستانی ٹیم انگلینڈ کے جوابی دورے پر گئی تو جاوید میاں داد کی کارکردگی انتہائی ناقص رہی اور وہ پوری سیریز میں صرف 77رنز اسکور کرسکے۔ 1978ء میں اٹھارہ سال کے طویل تعطل کے بعد پاک بھارت کرکٹ تعلقات بحال ہوئے اور بھارتی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا۔ لاہور ٹیسٹ جس کا انعقاد قذافی اسٹیڈم میں کیا گیا تھا، پاکستان نے جیتا ۔ اس میں جاوید میاں داد نے صرف 77گیندوں پر 119رنز اسکور کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔،جب کہ کراچی ٹیسٹ نہایت سنسنی خیز رہا ، اس میں بھارتی لیجنڈ کھلاڑی سنیل گواسکر نے عمدہ کھیل کا مظاہرہ کرکے دونوں اننگز میں سنچریاں اسکور کیں۔ جاوید میاں داد نےاس ٹیسٹکی پہلی اننگ میں سنچری بنائی جب کہ میچ کے آخری روز میزبان ٹیم کو 28اوورز میں 164رنز بنانے کا ہدف ملا۔ اس میچ میں جاوید میاں داد نے وکٹوں کے درمیان دوڑنے کا بہترین مظاہرہ کیا اور انہوں نے عمران خان کی شراکت میں مطلوبہ ہدف سات گیندیں قبل حاصل کرکے پاکستان کو فتح دلوائی۔ فیصل آباد ٹیسٹ میں انہوں نے سنچری اسکور کی اور وہ 154رنز بنا کر ناٹ آئوٹ رہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے ٹیسٹ کیریئر کے ایک ہزار رنز مکمل کرلئے۔ وہ یہ سنگ میل عبور کرنے والے دنیا کے کم عمر ترین بیٹسمین قرار پائے۔اس کے بعد 1980ء میں پاکستانی ٹیم آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے دورے پر گئی۔ جاوید میاںداد ان دونوں ممالک میں کامیاب بیٹسمین ثابت ہوئے اور انہوں نے دونوںملکوں کے خلاف سینچری بنائی۔

1979میںبرطانیہ میں دوسرا ورلڈ کپ منعقد ہوا جس میں جاوید میاں داد نے بھی شرکت کی۔ اسی سال انہوں نے پاکستانی ٹیم کے ہمراہ بھارت کا دورہ کیا۔ اگرچہ پاکستان یہ سیریز ہار گیا لیکن جاوید میاں داد نے چھ ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں4نصف سینچریز کی مدد سے 421رنز بنائے اور اسی دوران انہوں نے ٹیسٹ کیریر کے دو ہزار رنز مکمل کرلیے۔

بھارتی دورے سے واپسی کے بعد جاوید میاں داد کو سینئر کھلاڑیوں پر فوقیت دے کر پاکستانی ٹیم کی قیادت سونپ دی گئی۔ اسی سال آسٹریلیا کی ٹیم نے گریگ چیپل کی قیادت میں پاکستان کا دورہ کیا، جاوید میاں داد کی کپتانی میںکھیلے جانے والے پہلے ہی ٹیسٹ میچ میں پاکستان نے آسٹریلین ٹیم کو ہرا دیا۔ فیصل آباد ٹیسٹ میں انہوں نے 108رنز بنائے اور ناٹ آئوٹ رہے۔ اس اننگز کے دوران انہوں نے تسلیم عارف کی پارٹنر شپ میں تیسری وکٹ پر223رنز کی شراکت قائم کی جو آسٹریلیا کے خلاف پاکستان کا ایک ریکارڈ ہے۔

1980-81میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم نے کلائیو لائیڈ کی قیادت میں پاکستان کا دورہ کیا۔ چارٹیسٹ میچوں کی سیریز میں پاکستانی ٹیم کالی آندھی کے مقابلے میں ایک صفر سے ہار گئی لیکن جاوید میاں داد نے شاندار بیٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے 230رنز بنائے۔ 1981-82کا مہینہ ناان کے لیےسازگار ثابت ہوا۔ آسٹریلیا کےدورے سے واپسی کے بعد ٹیم کے سینئر کھلاڑیوںنے ایک جونیئر کپتان کی قیادت میںکھیلنے سے انکار کر دیا۔ پی سی سی بی کے سربراہ ایئر مارشل (ریٹائرڈ)نور خان نے نوآزمودہ کرکٹرز پر مشتمل ٹیم تیار کی اوراسے سری لنکا کے دورے پر بھیجا ۔ سری لنکاکی ٹیم ٹیسٹ کرکٹ میں نئی نئی آئی تھی۔ پاکستان نے اسے صفر کے مقابلے میں دو میچوں سے باآسانی ہرا دیا ۔اس سیریز کے بعد انہوں نے ٹیم کی قیادت سے دست برداری کا اعلان کر دیا۔ جس کے بعد عمران خان کو نیا کپتان بنایا گیا۔ انگلینڈ کے دورے کے دوران انہوں نے اچھی کارکردگی دکھائی۔

1982میں میاں داد کو تین سو رنز کا ہدف عبور کرکے ایک نیا عالمی ریکارڈ قائم کرنے کا موقع ملالیکن وہ ضائع کردیا گیا۔ بھارتی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی تھی اور میاں داد عمران خان کی قیادت میں کھیل رہےتھے۔ فیصل آباد ٹیسٹ میں انہوں نے 126رنز بنائے جبکہ حیدر آباد ٹیسٹ میں انہوں نے 280رنز بنائے تھے اور وہ ان کی بیٹنگ ابھی جارہی تھی کہ عمران خان نےسوموٹو ایکشن لیتے ہوئے، 581رنز پر اننگز ڈیکلیئر کر دی۔ اگر وہ میاں داد کو صرف چند اوور اور کھیلنے دیتے تو وہ 20رنز بنا کر کرکٹ میں ٹرپل سینچری بنانے کا نیا عالمی ریکارڈ قائم کر لیتے۔ اس اننگز میں انہوں نے مدثر نذر کی شراکت میں451رنز بنائے۔ 1983میں تیسرا ورلڈ کپ انگلینڈ میں منعقد ہوا۔ میاں داد نے اس ٹورنامنٹ میں مجموعی طور سے 220رنز اسکور کئے۔

1983کے سہ فریقی ٹورنامنٹ میں میاںداد نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ۔ 1980کی دہائی میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے چھ ممالک کے درمیان کھیلے جانے والے ٹورنامنٹ ’’ورلڈ چیمپئن شپ آف کرکٹ اور روتھمن ٹرافی‘‘ میں ٹیم کی قیادت کی۔ شارجہ میں ہونے والے آسٹریلیشیا کپ میں انہوں نے سینچری اسکور کی۔ ان کے یادگار چھکے کی بدولت پاکستان اس ٹورنامنٹ کا فاتح رہا۔اسی سال انہوں نے شارجہ میں چمپئنز ٹرافیاور آسٹریلیا میں بینسن اینڈ ہیجز چیلنج کپ میں بہترین کارکردگی دکھائی۔ چیلنج کپ میں پلیئر آف دی سیریز کا اعزاز حاصل کیا۔

چوتھا عالمی کپ جو پاکستان میںمنعقد ہوا تھا ، اس کی میزبانی پاکستان اوربھارت نے مشترکہ طور پر کی تھی۔ جاوید میاںداد کی کارکردگی کی بدولت دوسرے میچ میں پاکستان نے انگلینڈ کو شکست دی اگرچہ ہماری قومی ٹیم یہ کپ نہ جیت سکی۔ لیکن میاں داد کا انفرادی کھیل بہت اچھا رہا۔کلکتہ میں کھیلے گئے ایک ا یک بینیفٹ میچ کےدوران وہ ڈینس للی کی ایک گیند ہک کرنے کی کوشش میں زخمی ہو گئے۔1992میں پانچویں ورلڈ کپ کا انعقاد آسٹریلیا میں ہوا۔ پاکستانی اسکواڈ میں جاوید میاں داد کا نام شامل نہیں کیا گیا تھا بعد میں انہیں اسی ٹورنامنٹ میں حصہ لینے کے لئے بھیجا گیا ۔

ورلڈ کپ کے فائنل میں پاکستانی ٹیم کو دشواریوں کا سامنا تھا۔ دو کھلاڑی آئوٹ ہو کر پویلین واپس لوٹ چکے تھے۔ چوتھے نمبر پر جاوید میاں داد آئے جنہوں نے مرد بحران کا کردار ادا کرتے ہوئے گراہم کوچ کی آسٹریلین ٹیم کو ہرا کر پاکستان کو پہلی مرتبہ ورلڈ کپ کا فاتح بنوانے میں منفرد کھیل پیش کیا۔

پانچویں ورلڈ کپ کے بعد بی سی سی پی کے عہدیداروں کا رویہ ان کے ساتھ معاندانہ ہو گیا جس کی جھلک شارجہ میںسہ ملکی ونر ٹرافی کے موقع پر دیکھنے میں آئےجو پاکستان ،سری لنکا اور زمبابوے کے درمیان کھیلی گئی۔1993میں انہوں نے جنوبی افریقہ کے خلاف کھیلتے ہوئے ایک روزہ بین الاقوامی میچز میں سات ہزار رنز کا ہندسہ عبور کر لیا ۔1993-94میں شارجہ میں ہونے والی چمپینز ٹرافی میں ان سے وکٹ کیپنگ کروائی گئی۔ اس کے بعد نیوزی لینڈ کے دورے پر جانے والی ٹیم سے ان کا نام ڈراپ کر دیا گیا اور آسٹریلشیا کپ میں بھی انہیں نہیں کھلایا گیا۔ اپنی مسلسل توہین سے دل برداشتہ ہو کر انہوں نے احتجاجاً کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا۔ ان کے اس فیصلے پر شدید عوامی ردعمل سامنے آیا۔ اخبارات میں جاوید میاں داد کے ساتھ ناانصافیوں پر مضامین شائع ہوئے جس پر نوٹس لیتے ہوئے اس وقت کے صدر مملکت اور وزیر اعظم نے ان سے اپنا فیصلہ واپس لینے کا اصرار کیا، جس کے بعد انہوں نے ریٹائر منٹ کا فیصلہ واپس لے لیا۔ سری لنکا کے دورے کے لئے میاں داد کو کرکٹ حکام کی طرف سے ٹرائل میچز میں حصہ لینے کیلئے کہا گیا۔ جو ایسے تجربہ کار کھلاڑی جس نے ملک کے لئے بے شمار عالمی ریکارڈ قائم کئے تھے، اس کی تحقیر کے مترادف تھا۔ ٹرائل میچز کے دوران کراچی میں شدید گرمی پڑ رہی تھی۔ کئی کھلاڑی موسمی حدت سے ہمت ہار گئے لیکن جاوید میاں داد نے چار روزہ ٹرائل میچز میں اپنی کارکردگی سے سلیکشن کمیٹی اور کرکٹ بورڈحکام کے سامنے اپنی اہمیت ظاہر کر دی۔ سری لنکا کے میچ کے دوران بدقسمتی ان کی راہ میں حائل ہو گئی۔ ایک پریکٹس میچ کے دوران وہ گھٹنے کی انجری کا شکار ہو گئے۔ لندن میں ان کے گھٹنے کا آپریشن کیا گیا جس کی وجہ سے وہ سری لنکا کے خلاف میچوں میں حصہ نہ لے سکے۔

1995-96کے سیزن میں وہ مکمل طور سے کھیل سے علیحدہ رہے۔ 1996کے عالمی کپ سے قبل جس کی میزبانی سری لنکا، پاکستان اور بھارت مشترکہ طور پر کر رہے تھے،انہوں نے فٹنس ٹیسٹ دیا جس میں وہ کامیاب رہے لیکن اس ورلڈ کپ میں ان کے ساتھ ایک مرتبہ پھر زیادتی کا مظاہرہ کیا گیا ۔ وہ ہمیشہ سے چوتھے نمبر پر بیٹنگ کرتے رہے تھے لیکن اس کپ کے دوران ان کی پوزیشن تبدیل کر کے چھٹے نمبر پر کھلایا گیاجبکہ فیلڈنگ کے لئے بائونڈری لائن پر کھڑا کیا گیا۔ اس تضحیک آمیز سلوک سے لیجنڈ کھلاڑی سخت دل برداشتہ تھے لیکن وہ ملک و قوم کی خاطر کھیلنے پر مجبور ہو گئے۔ اس عالمی کپ کے ابتدائی دو میچز میں میاں داد کو بیٹنگ کا موقع نہیں ملا۔ تیسرے میچ میں انگلینڈ کے خلاف وہ بیٹنگ کے لئے آئے لیکن ذہنی دبائو کا شکار ہو کر صرف 11رنز کے اسکور پر آئوٹ ہو گئے۔ یہ میچ کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم پر کھیلا گیا۔عالمی ٹورنامنٹ کا چوتھا میچ ، وہ نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلے لیکن پانچ رنز بنا کر آئوٹ ہو گئے۔ کوارٹر فائنل بنگلور میں منعقد ہوا جس میں بھرات کے ہاتھوں پاکستان کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اس میچ کے بارے میں کرکٹ کے ماہرین کی رائے ہے کہ اگر جاوید میاں داد کو ان کی اصل پوزیشن پر کھلایا جاتا تو پاکستان یہ میچ جیت سکتا تھا۔ میاں دادکی کارکردگی انفرادی طور سے بہتر رہی اورانہوں نے 38رنز بنائے۔ اس عالمی کپ کے اختتام کے بعد انہوں نے ہمیشہ کے لئے اس کھیل سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔

جاوید میاں داد نے 124ٹیسٹ میچوں میں 8832اسکور کیے جو پاکستان کے لیے ایک ریکارڈ تھا، ان کا ٹیسٹ کیریئر 17سالوں پر محیط رہا۔ اگر انہیں چند ٹیسٹ کھیلنے کا مزید موقع مل جاتا تو وہ دس ہزار رنز مکمل کرنے والے دنیا کےتیرہ بیٹسمینوں کی فہرست میں اولین نمبروں پر ہوتے، بعد ازاں پاکستان کی طرف سے یہ کارنامہ یونس خان نے انجام دیااور ٹیسٹ کرکٹ میں دس ہزار کا ہندسہ عبور کرنے والے دنیا کے تیرہویں بیٹسمین بن گئے۔

کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعدجاوید میاں داد کو پاکستان ٹیم کا تین مرتبہ کوچ بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ پہلی مرتبہ انہیں ستمبر 1998میں کرکٹ ٹیم کی کوچنگ کی خدمات تفویض کی گئیں۔ انہوں نے سخت محنت کرکے قومی ٹیم کو اس قابل بنادیا کہ اس نے بھارت کو اسی کی سرزمین پر شکست فاش سے دوچار کیا۔ ایشین ٹیسٹ چیمپئن شپ جو تین ممالک کے درمیان کھیلی گئی، پاکستان اس میں بھی فتح یاب ہوا، جب کہ شارجہ کپ میں بھی قومی ٹیم کامیابیوں سے ہم کنار ہوئی۔ اپریل 1999میں انہوں نے ورلڈ کپ کے انعقاد سے پہلے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، اس کی وجہ رچرڈ پائی بس کی ٹیکنیکل اور سرفراز نواز کی بالنگ کوچ کی حیثیت سے تعیناتی بتائی گئی۔ 2000ء میں پی سی سی بی کی جانب سے ایک مرتبہ پھر انہیں کوچ کی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ انہوں نے اپنی کوچنگ کے دوسرے دور میں مارچ 2000ء میں قومی ٹیم کو شارجہ کپ، ایشیا کپ اور سری لنکا میں ہونے والی سہ ملکی ٹیسٹ سیریز میں فتح سے ہم کنار کرایا لیکن پاکستان آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کا فائنل میچ ہار گیا۔ اپریل 2001میں نیوزی لینڈ میں ایک روزہ سیریز کی شکست کا ذمہ دارکپتان معین خان کے ساتھ انہیں بھی قرار دیا گیا اور بورڈ نے انتہائی اقدام کرتے ہوئے ان دونوں کو ان کے عہدوں سے سبکدوش کردیا۔

2003ء کے ورلڈ کپ میں ہارنے کے بعد انہیں تیسری مرتبہ قومی ٹیم کا کوچ بنایا گیا اور ان کی کوچنگ کی خدمات کی وجہ سے پاکستان نے اپریل 2003میں شارجہ کپ جب کہ جنوبی افریقہ کے خلاف ہوم سیریز میں فتح حاصل کی، لیکن ایک روزہ سیریز میں قومی ٹیم ، جنوبی افریقہ کے مقابلے میں شکست سے دوچار ہوئی۔ 2004ء میں پاکستان ٹیم بھارت کے مقابلے میں بھی ایک روزہ ہوم سیریز میں ہار گئی جس کے بعد انہیں کوچ کے عہدے سے ہٹا کر ان کی جگہ باب وولمر کو تعینات کیا گیا۔2012میں سری لنکا میں منعقد ہونے والے، ٹی۔ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی تیاری کے لیے انہیں بیٹنگ کوچ بنایا گیا۔2008میں انہیں پی سی سی بی کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر تعینات کیا گیا،2014وہ اس سے بھی مستعفی ہوگئے۔

جاوید میاں داد کرکٹ کے کھیل سے مکمل طور سے کنارہ کشی اختیار کرچکے ہیں لیکن انہوں نے اپنے کیریئر کے دوران جو انعمات و اعزازات حاصل کیے وہ کرکٹ کی تاریخ کے فصفحات پر ثبت ہوچکے ہیں۔ وہ پاکستان کے ان پانچ کرکٹرز میں شامل ہیں جن کے نام کا اندراج ’’لارڈز‘‘ کے ہال آف دی فیم کی فہرست میں کیا گیا ہے۔ انہوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں چھ مرتبہ اور ایک روزہ مقابلوں میں 18بار مین آف دی میچ کا ایوارڈ حاصل کیا۔1986میں انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس کے صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ وہ دنیا کے ان دو کرکٹرز میں سے ایک ہیں، جنہوں نے سب سے زیادہ چھ عالمی کپ مقابلوں میں شرکت کی۔1982میں انہیں ’’وزڈن کرکٹرآف دی ائیر‘‘ کا ایوارڈ دیا گیا۔۔ انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے چھ عالمی کپ کے 44میچوں میں 1083رنز اسکور کیے۔ انہیں ای ایس پی این کی طرف سے دنیا کا 44واں لیجنڈ کھلاڑی قرار دیا گیا۔ انہوں نے انتہائی کم عمری میں ڈبل سینچری بنا کر رچرڈ ہیڈلے کا ریکارڈ توڑا۔ 1992کا ورلڈ کپ جیتنے کے بعد انہیں صدر پاکستان کی طرف سے پاکستان کے تیسرے بڑے اعزاز، ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 213 Articles with 223100 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.