ملک کے مایہ ناز گول کیپر، شاہد علی نے، 26 دسمبر 1964 کو
کراچی میں مشکور علی خان کے گھرمیں جنم لیا۔ ان کے والد قائم گنج ،جب کہ
والدہ بھارت کے شہر آگرہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ والد پاک بحریہ اور والدہ
ایک اسکول میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتی تھیں۔ آٹھ بھائی، تین
بہنوں میں شاہد نویں نمبر پر ہیں۔ گھر میں تعلیمی ماحول تھا ،سخت مزاج تھے،
اوربچوں کا کھیل کود میں وقت ضائع کرنے کو پسند نہیں کرتے تھے۔
شاہد علی خان نےپاکستان نیوی اسکول سے 79ء میں میٹرک کیا۔اسکول کے دور میں
ہاکی کے کھیل میں قدم رکھا، پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے گریجویشن کیا۔ان
کے بھائیوں کو کرکٹ کا شوق تھا اور وہ محلے کی ٹیموں کے ساتھ میچ کھیلا
کرتے تھے۔ بھائیوں کی دیکھا دیکھی، شاہد کو بھی کرکٹ کھیلنے کا شوق ہوا ،
جب انہوں نے کھیل میں حصہ لینا شروع کیا تو آل رائونڈر کی حیثیت سے کھیلے
، کچھ عرصے بعد کلب کرکٹ کھیلی، زون کی سطح پر ہونے والے مقابلوں میں شرکت
کی۔اس کے ساتھ ساتھ فٹ بال بھی کھیلتے رہے، اس کھیل میں وہ گول کیپر کی
حیثیت سے کھیلتے تھے ۔اس و قت انہیں ہاکی میں قطعی دل چسپی نہیں تھی، حتیٰ
کہ میچز بھی نہیں دیکھتے تھے۔ صرف کرکٹ اور فٹ بال، ان کی دل چسپی کا محور
تھے۔
1978ء میں اسکول کی ہاکی ٹیم اپنی روایتی حریف،پاکستان ریلوے اسکول کی ٹیم
کے خلاف مقابلے میں اتری۔ ٹیم کا گول کیپر کسی وجہ سے میچ میں حصہ لینے کے
لیے نہیںپہنچ سکاتو کپتان، چوہدری تنویر نے اُن سے گول پوسٹ سنبھالنے کی
درخواست کی۔ وہ اس کھیل سے قطعی طور سے نابلد تھے،کبھی ہاکی اسٹک نہیں پکڑی
تھی، اس لیے انہوں نے انکار کردیا،لیکن اسکول کے پرنسپل کے کہنے پر ٹانگوں
پر پیڈ باندھ کرگول کیپر کی حیثیت سے میدان میں اتر آئے۔فٹ بال کے کھلاڑی
کی حیثیت سے گیند کوگول پوسٹ میں جانے سے روکنے کے لیےکک لگانے کا تجربہ
اور کرکٹر کی حیثیت سے ڈائیو کرنے کی صلاحیت اُس میچ میں ان کے کام
آئی۔مخالف ٹیم کے کھلاڑیوں نے انہیں چکمہ دے کر گیند گول میں پھینکنے کی
بہت کوشش کی لیکن انہوں نے کئی گول بچا کر اپنی ٹیم کو فتح سے ہم کنار
کرایا۔اِس کے چندہی روز بعدایک نجی اسکول میں ہاکی میچ منعقد ہوا، انہیں
بھی اسکول کی ٹیم کے ساتھ میچ دیکھنے کے لیے لے جایا گیا۔ ان کے سابقہ
کارنامے کے پیش نظر ٹیم کے کپتان نے ایک مرتبہ پھر ان سے گول کیپر کی حیثیت
سے کھیلنے کی درخواست کی لیکن ان کے انکار کے بعد، دوبارہ پرنسل کے حکم پر
انہیں کھیل میں حصہ لیناپڑا۔ جب کھیل شروع ہوا تو مخالف ٹیم نے ان کی گول
پوسٹ پر تابڑ توڑ حملے کیے ، انہوں نے کئی گول ناکام بنائے، ان کی مخالف
ٹیم، اسکول کی ٹیم کے مقابلے میں یہ میچ ہار گئی ۔ اس میچ کو دیکھنے کے لیے
ہاکی ٹیم کے سیلیکٹرز بھی تماشائیوں کے درمیان مو جود تھے ، جو پاکستان کے
دورے پر آنے والی چین کی ہاکی ٹیم سے مقابلے کے لیے، کراچی اسکولز الیون
کی ٹیم منتخب کرنے کے ارادے سے یہ میچ دیکھنے کے لیے آئے تھے۔ شاہد علی کی
گول کیپنگ کے انداز کو سیلیکٹرز نے بہت پسند کیا اور ان کے بارے میں ضروری
معلومات حاصل کرنے کے بعد وہ واپس چلے گئے،کچھ روز بعد سلیکشن کمیٹی کی
جانب سے انہیں ہاکی کے ٹرائل کے لیے طلب کیا گیا، انہوں نے اس طلبی کو نظر
انداز کردیا لیکن اسکول پرنسپل، ٹیم کے کپتان اور دوستوں کے سمجھانے پر
اسکول سے چھٹی لے کر، محلے کے ایک دوست کے ساتھ، سائیکل پر ٹرائلز میں حصہ
لینےکے لیے پہنچ گئے۔مجموعی طور پر وہاں پانچ سو کھلاڑیوں کے ٹرائلز لیے
گئے ، جن میں کئی گول کیپرزبھی تھے، لیکن اِن ٹرائلز میں بھی شاہد کا فٹ
بال اور کرکٹ کا تجربہ کام آیا۔سخت تربیتی مرحلہ طے کرکے شاہد علی خان
پاکستان ہاکی ٹیم کی اسکولز الیون کا حصہ بن گئے۔ان کے سلیکشن کی خبر سن کر
ان کے دوست حیران رہ گئے۔ ہاکی کلب میں ہونے والے پہلے مقابلے میں تو
اُنھیں موقع نہیں ملا، البتہ اُس روزتماشائیوںسے بھرا ہوا اسٹیڈیم
اورآسٹروٹرف کی مصنوعی گھاس کو قریب سے دیکھ کروہ انوکھے تجربے سےدوچار
ہوئے۔
اسکولز الیون کے توسط سے پاکستان ہاکی سے رشتہ استوار ہونے کے صرف ایک سال
بعد ہی اپنی کارکردگی کی بنیاد پر وہ پاکستان کی قومی جونیئر ٹیم کے اسکواڈ
میں شامل کرلیے گئے۔ 1980سے 1985تک انہوں نے جونیئر ٹیم کے ساتھ کھیلتے
ہوئے دو سو سے زائد مقابلوں میں شرکت کی۔قومی جونیئرٹیم میں منتخب ہونے کے
بعد جب انہوں نے اپنے والد کو یہ خوش خبری سنائی کہ میں پاکستانی ٹیم کے
ساتھ غیرملکی دورے پر جارہا ہوں تو وہ بہت حوران ہوئے، یہ ان کے لیے
سرپرائز تھا۔ انہوں نے اپنے تجسس پر قابو پاتے ہوئے شاہد سے پوچھا کہ ٹیم
کہاں جارہی ہے، تو شاہد نے کہا ، ہالینڈ، جرمنی، اسپین اور مصر کا دورہ کرے
گی،جب انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ ہاکی ٹیم کے گول کیپر ہیں تو وہ مزید
حیران ہوئے۔
یورپ کا دورہ یادگار رہا، دورےکے اختتام تک جونیئر ٹیم کے پانچ کھلاڑی قومی
ٹیم کے لیے منتخب ہوچکے تھے، جن میں شاہدعلی بھی شامل تھے۔ اس کے لیے کراچی
میں تربیتی کیمپ لگایا گیا ، جہاں اُن کی کارکردگی متاثر کن رہی، لیکن
بدقسمتی سے ٹیم کا حصہ نہیں بن سکے، یہ ان کے لیےکرب ناک لمحات تھے۔
1981میں ان کا قومی ٹیم کی جانب سے کھیلنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔ پہلا
میچ زمبابوے کے خلاف کھیلا،پھر سنگاپور کا دورہ کیا۔1980میں جب انہوں
نےجونئیر ہاکی ٹیم کے ساتھ یورپ کا دورہ کیا تھاتو گرین شرٹس نے پہلے
ہالینڈ کے تجربہ کار کھلاڑیوں کا سامنا ہوا، جہاں میزبان جونیئر ٹیم کے
علاوہ سینئر ٹیم سے بھی مقابلہ ہوا۔ اُس مقابلے میں گول کیپر کی حیثیت سے
خدمات انجام دینے والے ، شاہد علی خان نے پینالٹی کارنر اسپیشلسٹ، پال لٹجن
کا سامنا کیا، گوکہ پاکستانی ٹیم میچ ہار گئی، لیکن مخالف ٹیم کو ملنے والے
گیارہ شارٹ کارنرز میں سےشاہد علی نے سات شارٹ کارنرز ناکام بناکر ایک
کارنامہ انجام دیا۔میچ کے بعدجب پال لٹجن نے ستائشی انداز میں 16سالہ
شاہدعلی کا کاندھا تھپتھپایا، وہ ان کے کے لیے ایک یادگار لمحہ تھا۔ دورے
کے اختتام پر وہ قومی ہاکی ٹیم کے رکن بن گئے۔
1982میں ورلڈ کپ کی تاریخ کا پانچواںمقابلہ ممبئی میں منعقد ہوا، انہیں
پہلے دو میچوں میں شرکت سے محروم رکھا گیا، تیسرے میچ میں پولینڈ کے خلاف
میدان میں اتارا گیا، دنیا کے تجربہ کار کھلاڑیوں کی موجودگی اور ہاکی
مبصرین کی تنقید کی وجہ سے وہ سخت دباؤ کا شکار تھے، جب کہ پاکستان ہاکی
فیڈریشن کے سکریٹری، کرنل منظور حسین عاطف پر بھی ایک ناتجربہ کار کھلاڑی
کو کھلانے کی وجہ سے نکتہ چینی کی جارہی تھی۔ لیکن شاہد علی نے گول کیپنگ
کی بہترین تیکنیکس کا مظاہرہ کرکے ہاکی کے نقادوں کے تمام اندازے غلط ثابت
کردیئے۔سیمی فائنل میں ہالینڈ کےفارورڈز کے کئی حملوں کو ناکام بنایا،اس
ورلڈ کپ میں ہالینڈ کے خلاف سیمی فائنل کھیلنا اور دنیا کے مشہور کھلاڑی
ٹیز کروز کاپینالٹی اسٹروک روکنا ان کی زندگی کے اہم کارنامے
تھے۔1992میںبارسلونا اولمپکس کے فائنل میں جرمنی کے ہاتھوں شکست کے بعد وہ
بہت دل گرفتہ ہوگئے۔
شاہد علی، فائنل مقابلے میں جرمنی کے خلاف آہنی دیوار بن گئے۔ پاکستان
نےجرمنی کےخلاف تین کے مقابلے میں ایک گول سے میچ جیت کرتاریخی فتح حاصل
کی۔لیکن اس فتح نے بھارتی تماشائیوں پر منفی اثرات مرتب کیے۔ ہوٹل واپسی پر
پاکستانی ٹیم کی بس پر حملہ ہوا، جس میں کئی کھلاڑی زخمی ہوگئے تھے۔ان کے
کیرئیر کا اگلا بین الاقوامی ٹورنامنٹ دہلی میں ہونے والا ایشین گیمز تھا،
جس میں پاکستان نے میزبان ملک کو اس کی سرزمین پر شکست دی۔ مذکورہ ٹورنامنٹ
ان کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل رہا،فائنل میچ دیکھنے کے لیے بھارتی وزیر
اعظم راجیو گاندھی اپنی پوری کیبنٹ کے ساتھ پویلین میںموجود تھے۔ اس مقابلے
میں بھارت نے فتح کے لیے ہر ممکن کوشش کی، ایمپائروں نے بھی جانبدارانہ
کردار ادا کیا لیکن پاکستانی ٹیم نے ہر صورت حال کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ شاہد
علی بھارتی فارورڈز کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئےاور پاکستان نے
ہندوستان کو 1 کے مقابلے میں 7 گول کے واضح فرق سے شکست دی۔شاہد علی خان کی
کارکردگی کا اندازہ لگانے کے لیے یہ بتا دینا ہی کافی ہے کہ اُس میچ میں
ہندوستان کو 13 شارٹ کارنرز ملے تھے، جو سارے ناکام بنادئیے گئے۔میچ کے
اختتام پر جب ایوارڈز اور انعامات کا مرحلہ شروع ہوا تو مہمان خصوصی راجیو
گاندھی نےشاہد علی خان کو بلایا،ان سے ہاتھ ملایا اور کہا،’’بچے، تم نے تو
ہماری ٹیم کا بھرکس ہی نکال دیا‘‘۔ ایشین گیمزمیںفتح کے بعد ہندوستانی
اخبارات میں شاہدعلی خان کے لیے ’’دیوار چین‘‘ کے القاب استعمال کیے
گئے۔آنے والے برسوں میں کئی بین الاقوامی مقابلوں میں اُنھوں نے پاکستان
کی فتح میںمرکزی کردار ادا کیا۔1986میں وہ ٹیم حکام سے چپقلش کی وجہ سے ٹیم
سے باہر کردئیے گئے اور 1988تک کسی مقابلے میں حصہ نہ لے سکے۔ ان کی غیر
موجودگی میں 86ء کاورلڈ کپ اور 88ءمیں اولمپکس کے مقابلوں میں قومی ٹیم
شکست سے دوچار ہوئی جس کے بعد 1989 میں انہیں دوبارہ ٹیم میں شامل کرلیا
گیا اور پاکستانی ہاکی کی فتوحات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا۔ اُن کی واپسی
کے بعد پاکستان نے ایشیا کپ جیتا، برلن چیمپیئنز ٹرافی میں دوسری پوزیشن
حاصل کی، پھر 90ءکے ورلڈ کپ میں فائنل تک رسائی حاصل کی، چین میں ہونے والے
ایشیا کپ میںبھی کامیابی ہوئی۔1994میں لاس اینجلس میں ہونے والے اولمپکس
مقابلوں میں پاکستان نے مغربی جرمنی کو شکست دےکرطلائی تمغہ جیتا۔1994ء میں
وہ ورلڈ کپ، ایشین گیمز اور اولمپکس مقابلوں کی فاتح ٹیم کا حصہ رہے تھے اس
لیے ایک ہی سال میں مسلسل تین ٹورنامنٹ میں فتح کے بعد وہ اپنی ٹیم کے ساتھ
’’گرینڈ سیلم ‘‘ کا اعزاز حاصل کرنے والے اسکواڈ کا حصہ بن گئے۔
93ء کی چیمپیئنز ٹرافی کے بعد اُن کی انگلی زخمی ہوگئی تھی،جس سے ان کی
کارکردگی پربرا اثر پڑا اور یہ انجری انہیں ٹیم سےدور رکھنے کا باعث بن
گئی۔ ۔ وہ قومی ہاکی ٹیم میں واپسی کےخواہش مندتھے، لیکن 94ء ورلڈ کپ میں
پاکستان کی فتح نے صورت حال بدل دی، فیڈریشن نے سینئرکھلاڑیوں کو کو ٹیم
میں شامل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی، یوں اُن کا بین الاقوامی کیرئیرپسند
و ناپسند کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اس کے بعد وہ ڈومیسٹک ٹیموں کی طرف سے کھیلتے
رہے۔ 98ء میں جب پی آئی اے کی طرف سے کھیلتے ہوئے وہ نیشنل چیمپئن شپ کے
بہترین گول کیپر قرار پائے،تو پاکستان ہاکی فیڈریشن کی جانب سے انہیں ٹرائل
کے لیے طلب کیا گیا لیکن انہوں نے انکار کردیا۔
1985کے جونیئر ورلڈکپ میں شاہد علی نے کپتان کی حیثیت سے ٹیم کی قیادت
کی۔215 میچز میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے شاہد علی خان نے اپنے
کیریئر کے دوران تین ایشیا کپ مقابلوں میں گول کیپنگ کے فرائض انجام دیئے
اور تینوں مرتبہ پاکستان کی جیت میں اہم کردار ادا کیا، دو ایشین گیمز میں
ٹیم اسکواڈکا حصہ رہے۔ ان کی گول کیپنگ کی وجہ سے دونوں ہی بار کام یابی نے
پاکستان کے قدم چومے۔انہوں نے دو اولمپکس مقابلوں میں شرکت کی۔
1982کےبارسلونا اولمپکس کے موقع پر ان کی عمر صرف اٹھارہ سال تھی لیکن
انہوں نے کئی قیمتی گول بچا کر پاکستان کو تیسری پوزیشن تک پہنچانے میں اہم
کردار ادا کیا۔ 1984میں لاس اینجلس، کیلی فورنیا میں ہونے والے اولمپکس
گیمز میں انہوں نے فقیدالمثال کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستانی ٹیم
کو اولمپک چیمپئن بنوانے میں لازوال کردار ادا کیا۔ 1982ء میں جب بھارتی
ہاکی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی تو اس کے کھلاڑیوں کوشاہد علی خان گول
پوسٹ پر چٹان کی صورت میں کھڑے ملے، جنہوں نے اس کے فارورڈزکے متعدد حملوں
کو ناکام بنایا۔ انہوں نےدو عالمی کپ مقابلوں میں حصہ لیا، جن میں سے ایک
میں پاکستان عالمی چیمپئن بنا جب کہ دوسرے میں رنر اپ رہا۔ دس چیمپیئنز
ٹرافی کے مقابلوں میں انہوں نے گول کیپرکی حیثیت سے اعلی کارکردگی
دکھائی۔1983میں چھ ملکی چیمپئنز ٹرافی کا انعقاد کراچی میں ہوا جس میں
میزبان ملک کے علاوہ آسٹریلیا ، مغربی جرمنی، بھارت، ہالینڈاور نیوزی لینڈ
کی ٹیموں نے شرکت کی ۔ ٹرافی کا فائنل میچ آسٹریلیا نے جیتا لیکن شاہد علی
کو گول کیپر کی حیثیت سےبہترین کھیل پر ’’پلیئر آف دی ٹورنامنٹ‘ ‘کے
ایوارڈسے نوازا گیا۔یہ عالمی ہاکی کی تاریخ کا پہلا موقع تھا جب کسی گول
کیپر نے یہ اعلیٰ ترین اعزاز حاصل کیا ہو۔ 84ء اولمپکس میں بھی اُنھیں، ایک
بین الاقوامی سروے کے بعد ہر دور کابہترین گول کیپر قرار دیا گیا، ان کا یہ
اعزاز ابھی تک برقرار ہے۔
14اگست 1992کو ہاکی کے کھیل میں ان کی خدمات کی وجہ سے انہیں’’پرائیڈآف
پرفارمنس ‘‘کے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا گیا۔ قومی ٹیم کے علاوہ وہ
پروفیشنل کھلاڑی کی حیثیت سے حبیب بینک اور کسٹمز کی جانب سے بھی کھیلتے
رہےاور 1981 میں پی آئی اے کی ٹیم کا حصہ بن گئے۔ اِس وقت اِسی ادارے میں
مینیجر ہاکی کی حیثیت سے ذمے داریاں نبھا رہے ہیں۔ہاکی سے ریٹائرمنٹ کے بعد
1997ء میںان کے کوچنگ کیریئر کا آغاز ہوا، کچھ عرصے تک جونیئرٹیم کے
کھلاڑیوں کو تربیت دیتے رہے۔ 98ء میں گول کیپر کوچ کی حیثیت سے قومی ہاکی
ٹیم کا حصہ بن گئے۔ بعد میں مختلف مواقع پر یہ ذمے داری نبھائی۔ 2005 میں
ملائشیاچلے گئےاور تین برس تک ملائشین کھلاڑیوں کی کوچنگ کے فرائض انجام
دیئے۔ 2009 میں قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ ہوگئے، دو برس تک اس حیثیت میں ذمہ
داریاںداریاں نبھائیں، پھر گول کیپر کوچ کا عہدہ سنبھالا، 2012 لندن
اولمپکس تک اِس حیثیت میں مصروف رہے۔ 96ء میںان کی شادی ہوئی، تین بیٹے
ہیں۔ بچے بھی اُن کی مانند کھیلوں میں دل چسپی رکھتے ہیں-
|