برما میں انسانیت کا قتل

 کہیں قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوتا ہے ، لوگوں کے سر پر شیطان سوار ہوجاتا ہے ، وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوجاتے ہیں ، جان و مال ، عزت و آبرو کو پامال کرتے ہیں ،ایسے میں کوئی فرد کسی انسان کو پناہ فراہم کرتا ہے ، اسے بھیڑیوں کے چنگل سے بچا لیتا ہے ،اس فرد کی قدر شناسی کی جاتی ہے ، اس پر تحسین و آفریں کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے : 'ابھی انسانیت زندہ ہے' _ منشورِ حقوقِ انسانی (Human Rights Charter ) کو منظور ہوئے کئی دہائیاں گزر چکی ہیں، اس پر دنیا کے تمام ممالک نے دستخط کئے ہیں ، انھوں نے اپنے یہاں مذہب ، رنگ اور نسل سے اوپر اٹھ کر تمام انسانوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی ہے، سیکورٹی کونسل اور اقوام متحدہ کے دیگر بہت سے ذیلی ادارے مسلسل نگرانی پر مامور ہیں کہ کہیں ان حقوق کی پامالی تو نہیں ہورہی ہے ؟ ایسے میں برما سے مسلمانوں کے قتل عام کی جو بھیانک خبریں آرہی ہیں وہ بڑی تشویش انگیز ہیں ، جس طرح برما کی فوج اور وہاں کے بودھ شدت پسند مسلمانوں کی جان و مال کے درپے ہیں ، انتہائی سفّاکی کے ساتھ انھیں بربریت کا نشانہ بنا رہے ہیں ، بے قصور بزرگوں ، بے گناہ نوجوانوں ، عفت مآب عورتوں اور معصوم بچوں کا بے دریغ قتلِ عام کر رہے ہیں ، ان کی لاشوں کا مثلہ کر رہے ہیں ، انھیں نذرِ آتش کررہے ہیں ، اسے دیکھ اور سن کر بے ساختہ زبان پر یہ جملہ آجاتا ہے : 'ابھی حیوانیت زندہ ہے' ، برما میں جو کچھ ہورہا ہے وہ انسانیت کو شرم سار کرنے والا ہے، بے قصوروں ، خاص طور پر بوڑھوں ، عورتوں اور بچوں کو قتل کرنا یوں بھی بْرا ہے ، لیکن قتل کرنے کے بعد ان کی لاشوں کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا سراسر حیوانیت ہے ، آہ ! کیا اکیسویں صدی کا انسان اس حد تک گر گیا ہے ؟ ہر وہ شخص جو خود کو انسان سمجھتا ہے ، ضروری ہے کہ اس صورتِ حال پر کرب محسوس کرے اور اس کا اظہار بھی کرے ، وہ کسی علاقے کا رہنے والا ہو ، کسی نسل سے تعلق رکھتا ہو ، کسی مذہب کا پیروکار ہو ، سیکولر ہو ، دہریہ ہو ، کچھ بھی ہو ، لیکن وہ انسان ہو تو ضروری ہے کہ وہ تڑپ جائے ، ہر انسان اپنی حیثیت اور استطاعت بھر اس ظلم کو روکنے ، ظالموں کا ہاتھ پکڑنے اور مظلوموں کی داد رسی کا زمہ دار ہے ، تمام ممالک کے حکمرانوں کی ذمے داری ہے کہ وہ برما کی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے تمام سفارتی تدابیر اختیار کریں ، اسی طرح تمام ممالک کے عوام کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے اپنے ملکوں میں برما کے سفارت خانوں پر پْر امن پْر زور احتجاج کے ذریعے برما کی حکومت پر دباؤ ڈالیں ، ہر انسان کی ذمے داری ہے کہ وہ اس موقع پر اپنی انسانیت کا ثبوت دے اور برما میں حیوانیت کا جو ننگا ناچ ہورہا ہے اس پر اپنا احتجاج درج کرائے ۔

Dr Muhammad Adnan
About the Author: Dr Muhammad Adnan Read More Articles by Dr Muhammad Adnan: 27 Articles with 27478 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.