تمام انسان آزادی اور حقوق و عزت کے اعتبار سے برابر پیدا ہوئے ہیں . یعنی
کوئی شخص اپنے حقوق و احترام میں کسی سے کم تر نہیں ہے . دنیا بھر کے تمام
انسانوں کو بلا امتیاز تمام انسانی حقوق جن میں زندہ رہنے کا حق، اپنی جان،
آزادی اور ذاتی تحفظ کا حق، قومیت اور اظہار رائے کی آزادی کا حق، حق خود
ارادیت، تعلیم و ترقی، روزگار، اپنی اور اپنے اہل و اعیال کی صحت اور فلاح
و بہبود،مناسب معیار زندگی جس میں خوراک،پوشاک مکان اور علاج کی سہولتیں
اور دوسری معاشرتی مراعات شامل ہیں اور دیگر کئی معاشی و سماجی اور ثقافتی
حقوق حاصل ہیں جو اسکی عزت اور شخصیت کی آزادانہ نشوونما کے لیے لازم ہیں .
اور ان انسانی حقوق پر رنگ و نسل، جنس،زبان، مذہبی و سیاسی تفریق یا کسی
قسم کے عقیدے، قوم ، دولت یا خاندانی حیثیت وغیرہ ہرگز اثر انداز نہیں ہوتے
... یہ ہے دنیا کی سب سے بڑی تنظیم اقوام متحدہ کی انسانی حقوق بارے 30
دفعات کا خلاصہ .. اقوام متحدہ کا یہ تیس دفعات پر مشتمل منشور انسانی
زندگی کے تمام انفرادی و اجتماعی حقوق کا احاطہ کرتا ہے . اور اقوام متحدہ
کے تمام رکن ممالک پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس عالمی منشور کا
احترام کرتے ہوئے اپنے اپنے ملک کے شہریوں کو انکے حقوق کی فراہمی کی ضمانت
دیں ... لیکن ان انسانی حقوق کو جس طرح پوری دنیا میں پائمال کیا جارہا ہے
وہ اب ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ... یوں تو مغربی دنیا میں کہیں کسی کو خراش
بھی آجائے تو یہ عالمی ادارے، انسانی حقوق کی تنظیمیں واویلا مچا دیتی ہیں
. لیکن اگر کسی اسلامی ملک کو جنگ کی آگ میں دھکیلا جارہا ہو، یا کہیں کسی
ملک میں مسلم اکثریت پر وحشیانہ پر تشدد حملے کیے جا رہے ہوں حتی کہ انکی
نسل کشی کی جارہی ہو تب ان عالمی طاقتوں کے بڑے بڑے ادارے انسانی حقوق کے
بلند بانگ دعوے کرنے والی عالمی تنظیموں کو سانپ سونگ جاتا ہے . انکی دیدہ
بینا کے چراغ گل ہوجاتے ہیں ۔ زبان تالو سے چپک جاتی ہے ۔ اور ضمیر لمبی
تان کے سو جاتے ہیں ۔ ابھی حال ہی میں 25 اگست کو میانمار میں برمی حکومت
اور فوج نے مل کر روہنگی مسلمانوں کی بستی پر ہیلی کاپٹروں کے ذریعے گن
پاؤڈر چھڑک کر آگ لگا دی۔ ہر طرف آگ بھڑک اٹھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے سینکڑوں
زندہ افراد جل کر راکھ بن گئے۔ فرار کی کوشش کرنے والوں پر گولیوں کی
بوچھاڑ کی گئی۔ کسی جائے پناہ کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑتے مجبور و لاچار
لوگوں پر تاک میں چھپے ہتھیاروں اور چھری چاقوؤں سے لیس پولیس اہلکار ان کو
بدترین تشدد کا نشانہ بناتے رہے زندہ انسانوں کے اعضاء کاٹ کاٹ کر چیل کوؤں
کو ڈالے گئے اولاد کے سامنے ماں باپ کاٹے گئے اور ماں باپ کے سامنے ان کے
جگر گوشوں کے ٹکڑے کردیئے گئے۔ سینکڑوں خواتین سے بداخلاقی کے بعد انہیں
فوجیوں میں تقسیم کردیا گیا، املاک تباہ کرنے کے بعد مویشیوں کو حملہ آور
ساتھ لے گئے۔ان چند دنوں میں400 انسان موت کی وادیوں میں کھو گئے ۔1600
گھروں کو تباہ و برباد کر دیا گیا اور 80 ہزار افراد دوسرے ملکوں میں پناہ
لینے کے لیے کھلے دریاؤں میں بھٹکنے پر مجبور ہیں کیونکہ انھیں پناہ دینے
کی بجائے پرے دھکیلا جا رہا ہے ۔نتیجتا لوگ پانیوں میں پینے کے پانی اور
خوراک کے بغیر بیماریوں سے مرنے پر مجبور ہیں۔
چشم فلک نے میانمار میں نہتے لاچار و بے بس انسانوں پر ظلم و بربریت اور
بدترین تشدد کے وہ دلدوز و دلخراش منظر مناظر دیکھے کہ چشم بشر ان کی تاب
نظارہ نہیں لاسکتی۔ شاید اسی لئے عالمی برادری نے اپنی آنکھیں بند رکھنے کو
ہی مناسب سمجھا ہوا ہے۔ میانمار میں قتل و غارت اور تشدد کا شکار ہونے والے
روہنگیا مسلمان وہ لوگ ہیں جنہیں خود اقوام متحدہ جنہیں روئے زمین کی سب سے
مظلوم ترین اقلیت قرار دے چکی ہے اور اس مظلوم ترین اقلیت پر انسانیت سوز
تشدد کے اور ظلم کے پہاڑ توڑنے والی قوم مہاتما بدھا کے وہ پیروکار ہیں جن
کے مذہب میں کسی جانور کو مارنے کا بھی اتنا ہی گناہ ہے جتنا کہ کسی انسان
کو قتل کرنے کا گناہ ۔بدھ بھکش بدھا کی تعلیمات کو ٹھیک سے نہیں سمجھ سکے
اس لیے انسانوں اور جانوروں کے فرق کو مٹا کر انسانوں کو جانوروں کی طرح
مار رہے ہیں یہ سمجھ کر کہ انسان کو مارنے کا گناہ جانورکو مارنے کے ہی
برابر ہے۔ بدھا کے یہ پیروکار بدھ مت کو دنیا بھر میں صلح و آشتی اور امن
کا مذہب ہونے کا پرچار کرتے ہیں۔ مہاتما بدھا کو دنیا میں عدم تشدد کے
فلسفے کا سب سے بڑا داعی سمجھا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں ان کے پیروکاروں کی
تعداد35کروڑ کے قریب ہے، ان میں زیادہ تر ایشیائی ممالک میں رہتے ہیں ان
ممالک میں جاپان، جنوبی کوریا، لاؤس، منگولیا، سنگاپور، تائیوان، تھائی
لینڈ، کموڈیا، بھوٹان اور میانمار شامل ہیں۔
روہنگائی کون ہیں؟
روہنگیا میانمار اور بنگلہ دیش کے علاقے چٹاگام ـ/ چٹ گام میں بسنے والے
مسلمانوں کو کہتے ہیں۔ یہ لوگ میانمار کے صوبے راکھین کے پرانے باسی ہیں،
ناف نامی دریا اس صوبے کو بنگلہ دیش سے جدا کرتا ہے۔ اس طرح یہ علاقہ بنگلہ
دیش کی سرحد کے ساتھ واقع ہے۔ اس صوبے کا پرانا نام اراکان تھا جو یہاں کے
مسلم باشندوں نے اسے اسلام کی نسبت سے دیا تھا۔ اب اس کا نیا نام راکھین ہے
جس طرح برما کا نیا نام میانمار ہے۔ برما میں اسلام کی آمد کے آثار1050ء سے
ملتے ہیں جب اسلام کے ابتدائی سالوں میں عرب مسلمان تجارت کی غرض سے برما
آئے اور پھر یہی کے ہوکر رہ گئے۔ بعد میں یہاں برمی لوگوں کا تسلط قائم
ہوگیا۔ 1937ء تک اسے برصغیر کا ہی حصہ سمجھا جاتا تھا۔1937ء میں برطانیہ نے
اپنے تسلط کے دوران اسے برصغیر سے علیحدہ کرکے ایک الگ کالونی کا درجہ دے
دیا۔ اس طرح 1948ء تک یہ علاقہ بھی برطانیہ کے زیرتسلط رہا۔ یہاں کی آبادی
6کروڑ کے قریب ہے۔ نصف سے زائد بدھ مت کے پیروکار ہیں جبکہ مسلمان یہاں
دوسری بڑی اکثریت ہیں جبکہ صورتحال یہ ہے کہ یہاں کی برمی حکومت انہیں
اقلیت کا درجہ دینا تو دور کی بات انہیں وہاں کا شہری تسلیم کرنے کو تیار
نہیں ہے۔ برمی حکومت یہ اعلان کرچکی ہے کہ یہ مسلمان برما کے باشندے ہرگز
شمار نہیں کیے جائیں گے۔ حالانکہ تاریخ کے مطابق برمی یہاں کے صدیوں پرانے
باسی ہیں، برمیوں نے اپنا تسلط بعد میں قائم کیا۔ مسلمانوں پر اس خطے میں
ظلم و ستم کی یہ داستان بھی نئی نہیں ہے۔ صدیوں پہلے بھی ان پر مذہبی عناد
اور عقائد کی آڑ میں کئی طرح کی پابندیوں اور مظالم کا سامنا کرنا پڑتارہا
ہے۔1559ء میں ان پر جانور ذبح کرنے کی پابندی لگائی گئی حتیٰ کہ عیدالاضحی
کے موقع پر بھی کسی مسلمان کو جانور پر چھری چلانے کی اجازت نہیں تھی۔
1752ء میں بھی ذبح پر پابندی تاریخ میں ملتی ہے۔
1946ء میں میانمار کے مسلم رہنماؤں نے بانی پاکستان سے مل کر اس خواہش کا
اظہار کیا کہ ان کے کچھ علاقوں پر مشتمل ایک علیحدہ ریاست قائم کردی جائے
لیکن یہ کام نہ ہو سکا کیونکہ وہاں کے حکمرانوں نے مسلمانوں کے ان مطالبات
کو ماننے سے انکار کردیا۔ وہاں کے حکمرانوں کے خلاف مسلمانوں نے ایک تحریک
شروع کردی جس کو دبانے کے لئے ظلم و تشدد کا وہ اندوہناک سلسلہ شروع ہوا جو
آج تک جاری ہے برطانیہ سے آزادی کے بعد مسلمانوں کا سب سے پہلا قتل عام
1962ء میں شروع ہوا جب فوجی حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد یہاں کے
مسلمانوں کو باغی قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف آپریشن شروع کردیا۔ اس طرح کے
آپریشنز1982ء تک جاری رہے اور اس سلسلے کے دوران کم و بیش ایک لاکھ مسلمان
شہید ہوگئے جبکہ تقریباً20لاکھ افراد کو بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان ہجرت
کرنا پڑی۔1997ء میں راکھین کے صوبے مندالے میں مسلم اکثریت والے علاقوں میں
بدھ بھکشوؤں نے حملہ کرکے گھروں، مسجدوں اور مذہبی کتابوں کو نذرآتش کردیا۔
جولائی2001ء میں ایک مسجد پر حملہ کرکے نماز کی ادائیگی کے دوران مسلمانوں
کو شہید کیا گیا۔ اس طرح کے افسادات میں 11مسجدوں کو شہید،400سے زائد گھروں
کو جلاکر خاکستر کیا گیا جبکہ 200افراد قتل کردیئے گئے۔قتل و غارت اور
فسادات کا یہ سلسلہ2011ء تک جاری رہا۔ تاوقتیکہ کہ آمریت کا وہاں خاتمہ
ہوگیا اور ایک جمہوری حکومت قائم ہوگئی۔
روہنگیا میں حالیہ فسادات کی شروعات۔
روہنگیا میں حالیہ فسادات کی تازہ لہر کی شروعات اس وقت ہوئی جب2012ء میں
ایک بدھ بھکش لڑکی نے اسلام قبول کرلیا۔ برمی معاشرے کے دباؤ سے بچنے کے
لئے اس لڑکی نے مسلمانوں کی آبادی میں پناہ لی لیکن چند دن کے بعد ہی اس
لڑکی کی لاش ملی۔ اس کو بداخلاقی کے بعد قتل کرکے پھینک دیا گیا تھا۔ بدھ
بھکشوؤں نے اس واقعے کا ذمہ دار تین مسلمان نوجوانوں کو ٹھہرایا جبکہ
مسلمانوں کا ماننا تھا کہ یہ کام خود بھکشوؤں نے اپنی رنجش کی وجہ سے اپنی
خفت مٹانے کی خاطر کیا ہے۔ بحرحال اس واقعے بعد بدترین تشدد اور ظلم و
بربریت کی تازہ لہر شروع ہوئی جو آج تک جاری ہے۔ اس واقعے کے بعد مسلمانوں
کے لئے ہے۔ حالات انتہائی کشیدہ ہوگئے۔اگست2012ء میں عمرہ کرکے واپس آنے
والے زائرین کی بس کو بدھ بھکشوؤں نے روک کر دس علماء کو نکال کے شہید کیا
اور بس کو نذرآتش کردیا۔ اس کے علاوہ اسی دوران میں مسلم اکثریت کے علاقوں
میں حملے کئے گئے جس کے نتیجے میں سنگین جرائم ، قتل و غارت گری اور
انسانیت سوز تشدد کے واقعات روہنگی مسلمانوں کے ساتھ پیش آئے۔ برطانوی چینل
فور کے مطابق وہاں دس ہزار مکانات مسلمان آبادیوں میں تباہ کردیئے گئے۔ خود
اقوام متحدہ کی رپورٹ تھی کہ فسادات کی اس لہر میں 80ہزار مسلمان برمی
حکومت اور حملہ آوروں کے ستم و تشدد سے تنگ آکر اپنا گھر بار چھوڑنے پر
مجبور ہوگئے۔ عالمی برادری کے استفسار پر برمی حکومت مسلسل ٹال مٹول سے کام
لیتی رہی۔2012ء میں مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی نے مسلم کمیونٹی کی مدد
کے لئے میانمار میں دفتر کھولنے کی اجازت طلب کی تو وہاں کی حکومت نے صاف
انکار کردیا۔ بلکہ ان کے صدر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے صاف کہا کہ سارے
مسئلے کا حل یہ ہے کہ یہ مسلمان یا تو ملک چھوڑ جائیں یا پھر مہاجر کیمپوں
میں منتقل ہوجائیں۔ برمی صدر تھان سین کا کہنا ہے کہ مسلمان ہماری شہری
نہیں ہیں اس لئے ہم ان کے تحفظ کے ذمہ دار نہیں ہے۔ ان کے تحفظ کا ایک ہی
راستہ ہے کہ یہ سب عام شہروں سے نکل کر مہاجر کیمپوں میں رہیں اور اگر ان
کو حملوں کا سامناہے تو بہتر ہوگا کہ وہ ملک ہی چھوڑ جائیں۔ یہ ہمارے لوگ
نہیں اس لئے ہم ان کے لئے کچھ نہیں کرسکتے جن کے دل میں درد ہے وہ انہیں
اپنے ساتھ لے جائیں اور اپنے ملکوں میں آباد کرلیں۔ ایک انٹرویو کے دوران
ایک بدھ بھکش یہ کہتا دکھائی دیا گیا کہ دنیا بھر میں 57اسلامی ممالک ہیں
تو کیوں نہیں وہ ان مسلمانوں کو اپنے ملکوں میں پناہ دے کر ہمارا مسئلہ حل
کردیتے۔
روہنگیا پناہ کہاں لیں؟
برما میں روہنگیا مسلمان انتہائی برے حالات میں رہنے پرمجبور ہیں۔ ماضی میں
حالات اور برمی بدھ بھکشو کے مظالم سے تنگ آکر مجبوراً تھائی لینڈ، بھارت
اور بنگلہ دیش کی طرف ہجرت کی۔ بنگلہ دیش اور بھارت کے راستے پاکستان میں
بھی پناہ لی۔
میانمار کے صوبے اراکھین میں بڑے پیمانے پر گھروں اور املاک کو آگ لگا دینے
کے حالیہ واقعے میں 25اگست تک 400افراد جاں بحق ہوچکے ہیں جبکہ4000ہزار
افراد پناہ لینے کے لئے بنگلہ دیش پہنچے ہیں جہاں انہیں فوج گھسنے نہیں دے
رہی اور انہیں مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ وہیں برما میں ہی رہیں۔ 2012میں
روہنگی مسلمانوں کے ساتھ ظلم کی ایک داستان اس وقت بھی رقم ہوئی جب یہ پناہ
لینے کے لئے بنگلہ دیش پہنچے تو ان کو وہیں پر روک دیا گیااور آنے کی اجازت
نہ دی گئی اور بیشتر کو وہی ماردیا گیا جبکہ باقی افراد کو سمندروں میں
مرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا جہاں بھوک ہماری اور جگہ کی تنگی کے باعث سینکڑوں
ہلاک ہوگئے۔ بنگلہ دیش کی حکومت کو یہ خدشہ ہے کہ مسلمانوں کی آمد کا یہ
سلسلہ جماعت اسلامی کو مضبوط کرنے کا باعث بن سکتا ہے اور بنگلہ دیش یہ
صورتحال پیدا نہیں ہونے دے گا۔ بنگلہ دیش روہنگی مسلمانوں کو پناہ دینا
اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتا۔
کچھ عرصہ قبل ان میں سے کچھ چند سو افراد کسی طرح بچتے بچاتے بھارت پہنچنے
میں کامیاب ہوگئے تو انہیں جموں کے نروال نامی علاقے میں دھکیل دیا گیا
جہاں انہوں نے گھاس پھونس کی جھونپڑیاں بناکر زندگی گزارنے لگے کہ اچانک
ایک رات ان کی بستی میں آگ بھڑک اٹھی۔ یہ2016ء کی ایک سرد رات تھی جب
دیکھتے ہی دیکھتے ان بدنصیب پناہ گزینوں کی ڈیڑھ سوجھونپڑیاں راکھ کا ڈھیر
بن گئیں۔ لوگ جان بچانے کے لئے بھاگ کھڑے ہوئے اور یوں400لوگ عارضی پناہ
گاہ سے بھی محروم ہوگئے اور ایک پورا خاندان تباہ ہوگیا۔
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان روہنگیا مسلمانوں کو پناہ دینے والا دنیا کا
دوسرا بڑا ملک ہے ۔پاکستان میں اس وقت 3 لاکھ 50 ہزار سے زائد روہنگیا
مسلمان آباد ہیں۔پاکستان وہ واحد ملک ہے جس نے نہ صرف برما کے مسلمانوں کو
شہریت دی بلکہ اپنے ملک میں آباد کیا۔ بنگلہ دیش اور بھارت کے راستے بے
شمار روہنگیا مسلم پاکستان آکر آباد ہوئے۔ اراکان ہسٹوایکل سوسائٹی کے
اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ابھی اس وقت دو لاکھ سے زائد برمی مسلمان صرف
کراچی میں آباد ہیں۔ 2013ء میں مسلمانوں پر دو سے زیادہ بچے پیدا کرنے پر
پابندی عائد کردی گئی تاکہ ان کی نسل بڑھنے سے روکا جائے اور دوسری طرف
تشدد اور قتل و غارت سے ان کی نسل کشی جاری رکھی گئی۔ شرائط کی خلاف ورزی
پر انہیں دس سال کی قید بامشقت کی سزا رکھی گئی ہے۔
روہنگیا کے مسلمانوں کا ایک جرم تو ان کا مسلمان ہونا ہے اوراس سے بڑا جرم
پکا اور سچا مسلمان ہونا بھی ہے۔ یہ لوگ انتہائی پختہ عقیدے کے مالک ہیں،
پکے نمازی ہوتے ہیں، ان کے بچے دیگرتعلیم حاصل کرسکیں یا نہیں، کسی طرح
انہیں قرآن کی تعلیم ضرور دلائی جاتی ہے جبکہ برمی حکومت نے تہیہ کر رکھا
ہے کہ وہ میانمار سے ہر کلمہ گو کو ختم کرکے چھوڑے گی ان کے گھر، املاک اور
کھیت نذرآتش کئے جاچکے ہیں، ان کی بستیاں مکمل برباد کرکے صفحہ ہستی سے
مکمل طورپر مٹائی جاچکی ہیں۔ ان کی جائیدادیں بدھ بھکشوؤں کو دے دی گئیں
ہیں ان کے مکان خالی کروائے گئے، علاقوں میں غیرمسلم آباد کردیئے گئے ہیں،
ان کے علماء، دانشور، سکالرز چن چن کر ختم کردیئے گئے ہیں حتیٰ کہ ان کے
قبرستان اور مقبرے تک ختم کردیئے گئے ہیں تاکہ ان کے ماضی کا کوئی نشان تک
باقی نہ رہ سکے۔ انہیں کسی کاروبار کی اجازت نہیں جس کی وجہ سے انتہائی
دگرگوں حالات کا سامنا ہے بھوک اور افلاس کا راج ہے انہیں کہیں اور باہر
جاکر کوئی کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ علاج معالجے کی انھیں کوئی سہولت
حاصل نہیں ہے ۔ بیمار ہونے کی صورت میں اﷲ کا نام لے کر جڑی بوٹیاں کھا
لیتے ہیں ۔ ان پردو سے زیادہ بچے پیدا کرنے پر بھی پابندی ہے۔ اسی وجہ سے
وہاں چالیس ہزاربچوں کا نام ہی اندراج نہیں ہے۔ ووٹ دینے کا حق انہیں حاصل
ہی رہا نہ ہی ان کے نمائندے بطور امیدوارکھڑے ہوسکتے ہیں۔ ان کو کسی قسم کے
انسانی حقوق دینے کا حق دار نہیں سمجھا جاتا۔ دنیا کے اس خطے میں مسلمانوں
کی باقاعدہ نسل کشی کی جارہی ہے مگر پوری دنیا میں تمام بین الاقوامی ادارے
چپ سادھے تماشا دیکھ رہے ہیں ان کے حقوق کے لئے کہیں کوئی آواز بلند نہیں
ہوئی چند ماہ میں 50ہزار مسلمانوں کا قتل عام ہوچکا ہے۔ ان اقلیتی مسلمانوں
کا آخر جرم کیا ہے؟ وہ قوانین و ضوابط آخر کیا ہوئے وہ ادارے آخر کہاں ہیں
جو انسانوں کو امن و انصاف ، خوشحالی اور پرسکون زندگی دینے کے لیے بنائے
گئے تھے ۔کیا وہ سب طاقتوروں کو سہولیات دینے میں مصروف ہیں ۔کیا ابھی جنگل
راج چل رہا ہے جہاں جس کی لاٹھی اسکی بھینس کا قانون ہے ۔کیا یہ طاقتور اور
کمزور کی جنگ ہے ۔مغربی طاقتور حکومتیں مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز نہیں
اٹھاتیں، پھر بھی سمجھ نہیں آتا ہے کہ یہی حکومتیں دیگر کئی مسلمان ممالک
فلسطین، بوسنیا، شام، عراق، چیچنیا، افغانستان، کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم
ڈھانے میں مصروف ہیں۔ اس بدامنی کے پس پردہ بڑی طاقتوں کا کھیل بھی ہے۔برما
میں چین کی آئل اور گیس سیکڑ میں انویسٹمنٹ ہے جس کو ڈسٹرب کرنا امریکہ کے
لیے اچھا ہے اور اسطرح کی بدامنی سے چائینہ کی حوصلہ شکنی بھی مقصود ہوسکتی
ہے۔اس لیے درپردہ مقاصد کے حصول کے لیے مغربی طاقتوں کی خاموشی سمجھ آتی ہے
لیکن عالم اسلام کی اب تک خاموشی و بے حسی کی سمجھ نہیں آتی، وہ کیوں اپنے
مسلمان بھائیوں کے لئے آواز بلند نہیں کرتے ۔ انکے نظر انداز کردینے کے
پیچھے آخر کیا حقائق پوشیدہ ہیں ۔جبکہ وقت اور اسلامی حمیت و غیرت کا تقاضا
تو یہ ہے کہ مسلم ممالک متحد ہوکر میانمار کے مظلوم مسلمانوں کے لئے مشترکہ
اور اجتماعی سطح پر عملی کاروائیوں کا آغاز کریں ۔لیکن یہ جب ہی ممکن ہے جب
تمام مسلمان متحد ہو کر دنیا کو اک قوم بن کر دکھائیں تاکہ انکو یہ باور
کروایا جاسکے کہ مسلمان اتنی کمزور قوم نہیں کہ انکو اس آسانی سے تختہ مشق
بنا دیا جائے ۔وقت کا تقاضہ ہے مل بیٹھ کر غوروغوض کیا جائے کہ کیسے وہاں
کے اس مظلوم طبقے کو ظلم و تشدد سے محفوظ کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے لئے برمی
حکومت سے سفارتی سطح پر ایسی کارروائیاں عمل میں لائی جائیں کہ ان کو یہ
احساس دلایا جاسکے کہ وہ تشدد پسند عناصر اور انتہاپسند گروپوں کو روہنگیا
اقلیتیوں پر ظلم و جبر اور تشدد سے روکیں اور ذمہ داران کو سخت سزا دیں۔
برمی حکومت اور وہاں کے ادارے مسلم اقلیت کے جان و مال کے تحفظ کے لئے
اقدامات کریں انہیں ان کے بنیادی انسانی اور جانی حقوق و تحفظ حاصل ہو۔
پاکستان کو چاہئے کہ سخت موقف اختیارکرتے ہوئے اقوام متحدہ میں احتجاج کرے
اور عالمی برادری سے اس سلسلے میں رجوع کرکے کوئی حکمت عملی وضع کرنے میں
اپناکردارادا کرے۔ عالم اسلام کی طرف سے اب جو حالیہ پیش رفت سامنے آ رہی
ہے یہ بھی ابھی زبانی کلامی حد تک ہی ہے جبکہ حالات کا تقاضہ اب زبانی
کلامی مذمت سے کہیں آگے ہے ۔
نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی خاموش تماشائی
آنگ سان سوچی میانمار کی مقبول سیاسی راہنما جن کو کمزوروں کی طاقت قرار دے
کر نوبل انعام سے نوازا گیا ہے۔سوچی خود آمریت کے خلاف اور جمہوریت کے حق
میں آواز بلند کرنے کے جرم میں برسوں قید و بند کی طویل سزا کاٹ چکی ہیں
امید تو یہ تھی کہ وہ میانمار کے مظلوم اقلیتی مسلمانوں کے حق میں آ واز
اٹھائیں گی اور ان پر مظالم کی مذمت کریں گی مگر سو چی آج تک خاموش تماشائی
بنی رہیں ۔انکی حمایت تو وہ کیاکرتیں ،مذمت کے لیے بھی چند الفاظ نہیں کہے
حالانکہ وہ اپنے ملک میں وزیراعظم کے برابر عہدہ رکھتی ہیں جو کہ سربراہ
حکومت کے مترادف ہے۔انھیں انسانی حقوق کا علمبردار سمجھا جاتا ہے مگر جب
میڈیا میں ان سے انکے ملک میں ہونے والے مسلم اقلیت پر روا مظالم کے بارے
میں سوال کیا گیا توانھوں نے ٹال مٹول سے کام لیا ۔ایک پروگرام میں ان سے
انٹرویو کر نے والی مسلمان خاتون صحافی مشعل حسین نے ان سے اس حوالے سے
سوالات کی بوچھاڑ کی تو سوچی کا کہنا صرف یہ تھا کہ یہ سب آمریت کی وجہ سے
حالات ہوئے جس کا شکار صرف مسلمان نہیں بلکہ برمی عوام بھی ہوتے ہیں بلکہ
الٹا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ اسلامی عالمی طاقت سے خوف کی فضاء قائم کر
رکھی ہے جس سے تناؤ بڑھ رہا ہے اور خوف دونوں جانب موجود ہے ۔صرف مسلمان ہی
نہیں برمی بھی متاثر ہیں ۔پروگرام کے بعد ایک مسلمان خاتون کے انٹرویو لینے
پر شدید برہمی کا بھی اظہار کر ڈالا کہ پہلے کیوں نہیں بتا یا گیا کہ میز
بان خاتون مسلمان ہے۔ 2016میں برطانوی روزنامے دی انڈ پینڈنٹ نے رپورٹ جاری
کی کہ لندن کی کوئین میری یونیورسٹی کے مطابق آ نگ سان سوچی روہنگیا کے
مسلمانوں کو میانمار میں تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں اور ایک طرح سے
لاوارث مسلمانوں کی نسل کشی کو قانونی تحفظ دے رہی ہیں۔
آنگ سان سوچی کی اس مجرمانہ خاموشی اور غفلت کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا کو
سوچنا ہو گا کہ کیا سوچی نوبل انعام کو اپنے پاس رکھنے کی حقدار ہے؟ |