کرپشن کے نا سور پر قابو پانے کے لیے جہاں دیگر ادارے اپنا کام کر رہے ہیں
وہیں صوبائی احتساب ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا جسکا نام محکمہ اینٹی
کرپشن رکھا گیا جسکا کام صوبائی اداروں میں ہونے والی والی کرپشن کو
پکڑنا،صوبائی اداروں کے افسران کے خلاف آنے والی شکایات پر فوری کاروائی
کرنا،مقدمات درج کر کے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے علاوہ ،رشوت مانگنے
والے سرکاری ملازمین کو ریڈ ہینڈڈ گرفتار کرنا ہے َصوبائی احتساب ادارے کو
قائم کر کے بہت اچھا اقدام تو کر دیا گیا مگر اسے بہت سی کمی کوتاہیوں اور
کمزوریوں کے ساتھ رشوت کے خلاف جنگ کرنے کے لیے میدان میں اتارا گیا ۔جسکی
وجہ سے مذکورہ ادارہ اپنی وہ کارکردگی کا مظاہرہ پیش نہیں کر پا رہا جسکی
امید رکھی گئی تھی۔قانون بنانے والے بھی کمال لوگ ہوتے ہیں جب اپنے لیول کے
لوگوں کی باری آتی ہے وہاں قانون کو بھول بھلیوں میں ڈال کر اتنا الجھا
دیتے ہیں کہ بڑی مچھلی پکڑی ہی نہیں جاتی ایسا ہی محکمہ اینٹی کرپشن کے
ساتھ بھی کیا گیا۔
ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن پنجاب تو بنا دیا گیا مگر اسے آئی جی پولیس کی
طرح با اختیار بنانے کی بجائے ،ہاتھ پاؤں باندھ کر ایڈشنل چیف سیکرٹری کے
ماتحت کر دیا گیا۔جسکی بنا پر ڈی جی اینٹی کرپشن اپنے ادارے کے حوالے سے
آزادی کے ساتھ کوئی فیصلے نہیں کر سکتا۔
چھوٹے ملازمین کے خلاف تو محکمہ اینٹی کرپشن کاروائی کر سکتا ہے مگر جہاں ،ضلعی
افسران، میں ڈپٹی کمشنر،ڈی پی او یعنی سی ایس پی افسران کے عہدے سامنے آئیں
محکمہ اینٹی کرپشن کی قانون میں ہینڈ بریک کھینچ دی گئی تا کہ اپ لیول کے
خلاف کاروائی نہ ہو سکے ۔ان افسران کے خلاف آنے والی شکایات پر کاروائی کے
لیے اینٹی کرپشن کو ،اوپر سے پرمیشن لینا پڑتی ہے جو عمر بھر نہیں ملتی
سائل چکر لگا لگا کر اوپر پہنچ جاتا ہے۔
اسکے علاوہ محکمہ تعلیم کے سترہ،اٹھارہ،انیس گریڈ کے افسران کو اینٹی کرپشن
کے سامنے درجہ چہارم کے ملازم کی طرح پیش ہونا پڑتا ہے قانون میں گریڈ کا
توازن نہیں رکھا گیا شخصیت اور عہدے میں ضرور تفریق پیدا کر دی گئی۔
کرپٹ سرکاری ملازمین کو بچانے کے لیے جہاں دیگر ہتھکنڈے آزمائے جاتے ہیں
وہیں محکمہ اینٹی کرپشن کا کوئی افسر ڈائریکٹ کسی ملازم کو ریڈ ہینڈ رشوت
وصول کرتے گرفتار نہیں کر سکتا ریڈ ہینڈ گرفتار کرنے سے پہلے اینٹی کرپشن
افسران کو علاقہ مجسٹریٹ کو ساتھ لینا پڑتا ہے جسکی موجودگی میں کاروائی
مکمل ہو سکتی ہے اگر علاقہ مجسٹریٹ دس روز نہ ملے ریڈ ممکن نہیں ہوتا جسکی
وجہ سے کئی ریڈ ناکام ہو جاتے ہیں اور کرپشن کے بادشاہ بچ جاتے ہیں دوسری
جانب محکمہ پولیس کا اے ایس آئی ،کسی کو بھی پکڑ کر تھانے کی حوالات میں لا
سکتا ہے۔
اینٹی کرپشن ملازمین کی تنخواہوں کا حال بھی دیدنی ہے اگر موازنہ کیا جائے
تو محکمہ پولیس کا کانسٹیبل تیس سے پینتیس ہزار روپے ماہوار لے رہا ہے جبہ
اینٹی کرپشن کا کانسٹیبل سولہ ہزار روپے میں گزارہ کرتا ہے اور پھر ہم
کرپشن،رشوت پر قابو ڈالنے کے خواب بھی دیکھتے ہیں۔ملازمین اینٹی کرپشن کے
ملازمین کے بچوں کے لیے کسی قسم کا ہیلتھ،ایجوکیشن،فلاح و بہبود کے لیے
کوئی قانون نہیں بنایا گیا۔
اینٹی کرپشن محکمہ میں صرف ،،ٹھک،،رکھی گئی ہے جسکی وجہ سے اس محکمہ میں
ڈیپوٹیشن کا بہت رواج ہے ۔تکڑے لوگ اپنے پسندیدہ ،منظور نظر ملازمین
ڈیپوٹیشن میں لگوا کر محکمہ اینٹی کرپشن کا بیڑہ غرق کر رہے ہیں جو کافی حد
تک ہو بھی چکا ہے۔
ان حالات میں محکمہ اینٹی کرپشن میں خدمات سر انجام دینے والے
افسران،ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن پنجاب،مظفر علی رانجھا،ریجنل ڈائریکٹر
اینٹی کرپشن ساہیوال،امتیاز احمد ملک اور اسکی ٹیم،اسسٹنٹ ڈائریکٹر
ساہیوال،کاشف سندھو،سرکل آفیسر پاکپتن ،غضنفر طفیل،سرکل آفیسر اینٹی کرپشن
اوکاڑہ،غفار خان تعریف کے مستحق ہیں جو اپنی ڈیوٹی احسن انداز سے کر رہے
ہیں اور عوام الناس کو جس حد تک ممکن ہے قانون کے اندر رہ کر انصاف فراہم
کرنے میں کوشاں ہیں۔
حالانکہ ایک عام شہری کی امید ہوتی ہے کہ اگر کوئی سرکاری ملازم رشوت وصول
کرے گا یا قومی خزانے کو لوٹے گا تو محکمہ اینٹی کرپشن اسکی درخواست پر
فوری ایکشن بھی لے گااور انصاف کے تقضے بھی پورے کرے گا مگر وہ نہیں جانتا
کہ ہزاروں خامیوں اور کمزوریوں کے ساتھ میدان میں اتارا گیا محکمہ اینٹی
کرپشن سے انصاف حاصل کرنے کے لیے اسے ایک لمبا اور کٹھن سفر طے کرنا پڑے
گا۔
اگر کوئی شخص،پٹواری ،تعصیل دار،ٹی ایم اے ملازمین،محکمہ پولیس ملازمین
سمیت دیگر اداروں کے ملازمین کے خلاف محکمہ کو درخواست دے بیٹھتا ہے تو سب
سے پہلے اسے اطلاح ہی نہیں ملتی اگر مل جائے اور سو ڈیڑھ سو کلو میٹر کر کے
مدعی اینٹی کرپشن پہچ جائے تو اس سے صرف یہ پوچھا جاتا ہے یہ درخواست آپ نے
دی ہے پھر پندری دن کی تاریخ ڈال دی جاتی ہے اختیارات کی حالت ہے یا افسران
کی کمزوری ،سال سال پٹواری پیش نہیں ہوتا جبکہ مدعی درخواست کو ہر تاریخ پر
پیش ہونا ضروری ہوتا ہے ورنہ درخواست دفتر داخل ہو جاتی ہے خدا خدا کر کے
اگر کوئی پیش ہو بھی جائے تو پھر کئی ماہ کے چکر اور دھکے کھانے مدعی کا
نصیب بنا دیا جاتا ہے ہونا تو یہ چاہیے کہ جس کے خلاف درخواست ہو اگر دو
تاریخ پر پیش نہیں ہوتا اس کے خلاف مقدمہ درج کر کے گرفتاری عمل میں لائی
جائے اور انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں۔مگر یہاں اسکے برعکس ہوتا ہے الزام
علیہ پیش نہ ہو تو کئی کئی ماہ اس پر مقدمہ درج کرنے کی اجازت نہیں ملتی
اور اگر خدا خدا کر کے وہ مل جائے تو کاروائی نہیں ہو پاتی یہاں معلوم ہوتا
ہے کہ محکمہ اینٹی کرپشن کو اس قدر کمزور بنایا گیا ہے کہ مدعی خود کو ملزم
تصور کرنے لگتا ہے جبکہ رشوت خور،کرپٹ،ملکی خزانہ لوٹنے والا خود کو طاقتور
تصور نہ صرف کرتا ہے بلکہ اسے مزید حوصلہ ملتا ہے اور وہ نئے عزم کے ساتھ
دلیری سے لوٹ مار شروع کر دیتا ہے ۔
تو خدا راہ حکمرانوں،ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر پالیسیاں بنانے والوں کبھی
حقائق کی روشنی میں بھی قانون سازی کر کے عوام تک اسکے ثمرات پہنچانے کی کو
شش کرو۔اگر محکمہ اینٹی کرپشن سے رزلٹ لینا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اسے
آزاد کیا جائے اسے جو بیڑیاں پہنا کر دیوار کے ساتھ لگیا گیا ہے اسکی
بیڑیاں کھول کر افسران کو آزادی سے کام کرنے کا موقع دیا جائے اور آئی جی
کی طرح ڈی جی کو بھی صرف وزیر اعلی پنجاب کا پابند کیا جائے ۔ملازمین کی
تنخواہیں اتنی کی جائیں کہ وہ مہنگائی کے اس دور میں اپنی سفید پوشی قائم
رکھتے ہوئے بچوں کو تعلیم دلا سکیں۔ان کے بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے
ہنگامی بنیادوں پر کام کیے جائیں رشوت خوروں کو گرفتار کرنے کے لیے ہر سرکل
آفیسر تک کے افسران کو اجازت دی جائے جو کسی سہارے ،بیساکھی کے بغیر اپنی
ڈیوٹی سر انجام دے سکے۔جو سرکاری ملازم محکمہ اینٹی کرپشن کی کال پر دو
مرتبہ پیش نہ ہو اسکے خلاف سخت تادیبی کاروائی کی جائے سمیت ہر ممکن وہ
اقدامات کیے جائیں جس سے عوام کا بھلا ہو اور محکمہ اینٹی کرپشن طاقتور
دکھائی دے ورنہ باہر بھی کرپشن ہو گی اور اندر بھی کسے کسے روکو گے کسے کسے
ٹوکو گے۔ |