حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ اگر
تم جوانی میں اپنے بڑوں اور بزرگوں کی عزت کرو گے تو اللہ عزوجل تمہارے
بڑھاپے کے لئے ایسا جوان مقرر فرما دے گا جو تب تمہاری عزت کرے گا۔ لیکن
افسوس۔۔۔!دور جدید کی کارآمد ایجاد موبائل اور پھر ہر نیٹ ورک کے سستے ترین
پیکیجز نے نسل نو کو اخلاقی اور ذہنی پستی کی ایک نئی ہی راہ دکھائی ہے۔
اخلاق سے عاری ایس ایم ایس ایک دوسرے یہاں تک کہ اپنے بڑوں اور قابل احترام
ہستیوں تک کو بھیج کر تفریح حاصل کی جاتی ہے۔ ان پیغامات میں عجیب وغریب
اور ناقابل فہم باتیں ہوتی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ قومی رہنماؤں، نامور شعرا
کرام اور ہستیوں کے حوالے سے ایسے ایسے دل کو تکلیف دینے والے الفاظ ہوتے
ہیں کہ سمجھ نہیں آتا کہ اس رونے کے مقام پر کس طرح ہنسیں۔ مثال کے طور پر
“احمد فراز“ اردو شاعری کا ایک بہت بڑا نام ہیں۔ ان کے مزاحیہ ایس ایم ایس
تو خیر اب پرانی ہی بات ہوگئی۔ میں واقعی لا علم ہوں کہ ان سے ایسا کیا
قصور یا جرم سرزد ہوا ہے کہ ان کا نام مذاق کا نشانہ بن کے رہ گیا۔ پھر
“سید وصی شاہ“ بے تکی رومانوی شاعری میں خیر سے اب ان کا نام بھی شامل
ہوگیا۔ جس کا اعتراف وہ خود بھی کرچکے ہیں کہ زیادہ تر تو ان کا کلام ہی
نہیں جو ایس ایم ایس کے ذریعے پھیلایا جارہا ہے۔ کیا محبت کا جذبہ اتنا ہی
ارزاں اور گھٹیا ہے؟ میں واقعی یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہوں۔ زبیدہ آپا کے
ٹوٹکے والے ایس ایم ایس ایک ایسی نئی وبا ہیں جن سے ماشا اللہ آپ سب قارئین
کرام واقف ہی ہونگے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ ان میں سے کچھ تو اتنے معصوم سے
مزاحیہ ٹوٹکے ہیں کہ جن کو پڑھ کر میرے ساتھ ساتھ“ مسز زبیدہ طارق“ کے چہرے
پر مسکراہٹ آجاتی ہوگی۔ بہت معذرت کہ یہاں ایسا کوئی ایس ایم ایس مثال کے
طور پر نہیں لکھ رہی کہ فی الحال میرے موبائل میں ہے ہی نہیں۔ بشرط زندگی
پھر کبھی صحیح۔ تو کبھی کبھار اس طرح مسکرانے میں کیا حرج ہے؟ بس بات اخلاق
کے دائرے میں رہے تو ہی اچھا ہے۔ مخصوص ذاتوں کو بھی ستم کا نشانہ بنایا
جارہا ہے۔ جن میں پٹھان، میمن اور سردار(سکھ)زیادہ تر ہنسی کا سبب بنتے ہیں۔
کیا پٹھان اور میمن ہمارے مسلمان بھائی نہیں؟ کیا سردار سمیت دوسرے مذاہب
کے لوگ انسان نہیں؟ پھر ان پر ہنسنا چہ معنی دارد؟ کسی ایک فرد کی حرکات و
عادات پوری ذات کا مذاق بنانے کا سبب کیسے ہوسکتی ہیں؟ ہنسنے کے تو اور بھی
کئی مقام و واقعات ہیں پھر یہ ہی کیوں؟ اور اب قومی رہنماؤں اور محسنوں تک
کو نہیں بخشا جارہا ہے۔“قائد اعظم“ کے جدید نکات“مزار قائد پر ڈیٹ“ کے
حوالے سے بنائے جانے والے ایس ایم ایس سے تو بچہ بچہ واقف ہے۔ یقیناً اور
بھی ایسے ایس ایم ایس ہونگے جن سے مستفید ہونے سے میں محروم رہ گئی۔ اقبال
ڈے پر “علامہ اقبال“ کا فرضی مقولہ چند محدود ذہنیت کے لوگوں نے خود پیغام
کے طور پر بھیجا، موصول کیا اور بہت لطف اندوز بھی ہوئے ہونگے۔ ملاحطہ ہو
“سوری!آپ کی نیند ڈسٹرب کی۔ اصل میں علامہ اقبال میرے خواب میں آئے اور
بولے“سوئی ہوئی قوم کو جگادو اور خوڈ سائیلینٹ لگا کے سوجاؤ“ ہپی اقبال ڈے!
فیصلہ کرنا بھی ہمارا کام ہی کام ہے کہ یہ ہنسنے کا مقام ہے یا رونے
کا۔۔؟اور سب سے غور طلب امر یہ ہے کہ ایسے تمام مزاحیہ ایس ایم ایس نسل نو
کے ساتھ ساتھ ان کے بڑوں یہاں تک کہ والدین بھی بہت ہنس کر سنتے سناتے ہیں۔
وہی مغرب کی اندھی تقلید کا احساس کمتری کہ والدین،بزرگوں اور بچوں میں نئی
اور پرانی نسل کا فاصلہ نہیں ہونا چاہیئے۔ اٹھارہ سال کی عمر تک آکر سب
برابر ہوجاتے ہیں۔ جبکہ ہم تو اس سے بھی پہلے بچوں کے ساتھ ہر معیوب اور
اوٹ پٹانگ حرکت میں ساتھ دیتے اور فخر محسوس کرتے ہیں کہ “ ہم تو دوست ہیں“
یہ مغرب نہیں دین اسلام بتاتا ہے کہ چھوٹوں اور بڑوں کے تعلقات اور دوستی
کیسی ہونی چاہیئے کیونکہ جس مغرب کی نقالی ہم کر رہے ہیں وہ تو خود ہر لحاظ
سے پست ہے اور ہمارا مذاق اڑاتا ہے۔ اس کی نظر میں ہم انتہا پسند،شدت پسند
اور دقیانوسی ہیں اور رہیں گے اور خود اس کی تفریح اور آزادی اظہار رائے کا
حق یہ ہے کہ کبھی میرے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
کے گستاخانہ خاکے شائع کئے جاتے ہیں اور کبھی یہ خاکے بنانے کا دن اور کبھی
قرآن کو جلانے(نعوذباللہ)کا دن منانے کی دعوت عام دی جاتی ہے۔ سوچنا ہمیں
ہے کہ انہیں خوش کرنا ہے یا رب کائنات کو۔۔۔۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے اور
ہم سب کے بڑھاپے میں کوئی ایک جوان بھی ایسا نہ ہو جو میری اور سب کی عزت
کرے کہ انسان وہی کاٹتا ہے جو بوتا ہے۔ آخر میں سوچنے کی دعوت دیتا ایس ایم
ایس نظر قارئین ہے اس آس پر کہ بقول “حکیم الامت، شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ
محمد اقبال“
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات
مانتا ہوں یارو کہ میں کراچی کا نہیں ہوں
پٹھان ہوں سادہ کسی پارٹی کا نہیں ہوں
مانا کہ میرے روپ میں بھی کوئی فساد کر رہا ہے
اس شہر کا امن برباد کر رہا ہے
میں تو اس شہر میں اپنے رزق کا دانہ چننے نکلا تھا
نہ دہشت گردی کرنے نہ ہی نشانہ بننے نکلا تھا
تم بتاؤ میں اس شہر سے جاؤں تو کہاں جاؤں؟
دھماکے، سیلابوں کی نظر ہے میرا گاؤں
تمہارا ہر لطیفہ میرے نام سے جڑ رہا ہے
تمہارے قصوں میں میرا مذاق اڑ رہا ہے
جا کے دیکھو کس طرح سے گھر بکھرتا ہے
جب جہازوں سے گھروں پہ بم گرتا ہے
میرے چہرے پہ داڑھی ہے، میری رنگت گوری ہے
کیا پٹھان ہونا کوئی جرم ہے؟ یا چوری ہے؟
سوچو ذرا؟ |