خوشیوں کے سائے میں (عید اسپیشل)۔۔۔۔

تما م پڑھنے والوں کی خدمت میں سلام پہنچے!جس طرح غم انسان کی پیدائش سے لے کر موت تک ساتھ رہتے ہیں بالکل اسی طرح خوشیاں بھی ایک انسان کی زندگی میں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن بعض اوقات ایک انسان کے نصیب میں خوشیاں دیکھنا کم نصیب ہوتی ہیں اور کئی انسان ایسے ہوتے ہیں جن کو کوئی غم نہیں ملتایا انہیں کسی غم کی پرواہ نہیں ہوتی اور وہ اپنی زندگی کو مکمل خوشیوں کے ساتھ گزارتے ہیں ۔لیکن ایسے لوگوں کی تعداد بھی آپ کو کم ملے گی جن کی زندگی غموں سے بھرپور ہو گی کہ ان کو زندگی میں کبھی کو ئی خوشی نہ ملی ہو اور ایسے لوگ بھی آپ کو کم ملیں گے کہ جن کی زندگی میں کبھی کو ئی غم نہ آیا ہو ۔تو یوں خوشیوں اور غموں کے لمحات انسان کی زندگی میں رواں دواں ہیں ۔

اس معاشرے کے اندر رہتے ہوئے بہت سی چیزیں ہماری رسموں میں شامل ہو جاتی ہیں کسی بھی خوشی کو ایک مکمل جوش وخروش کے ساتھ منانا بھی آج کے دور میں ایک رسم بن چکا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اکثر آپ کو بہت سے گھرانوں میں چھوٹی سی خوشی پر بھی ایک جشن کا سماں ہو تا ہے۔لیکن کسی بھی خوشی کو ایک جیسا منانا بھی ممکن نہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ مختلف کلاسوں میں بٹ چکا ہے بلکہ ہم لوگوں نے اپنے معاشرے کو مختلف کلاسوں میں بانٹ دیا ہے ایک کلاس اس میں ایسی ہے کہ جس کے پاس مال ودولت سب کچھ ہے وہ دنیا کی ہر چیز خرید سکتی ہے اس کلا س کو ہم نے اَپر کلاس کا نام دیا ہوا ہے جب کہ ایک کلا س ایسی ہے کہ جو اپنی ضروریات آسانی سے پوری کرسکتی ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ دنیا کی ہر چیز خرید سکے اس کلاس کو ہم نے مڈل کلاس کا نام دے دیا اور ایک ایسی کلاس کہ جس کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ اپنی ضروریا ت کو پورا کر سکے بلکہ اس کا کسی بڑی چیز کو پانے کا خواب دیکھنا بھی گناہ سمجھا جا تا ہے اس کلا س کو ہم نے لوئر کلا س کا نام دے دیا ۔اب جو بات میں نے کی خوشیوں کی تو خوشی کسی مال ودولت اور جائیداد کی طرح کوئی کسی کی میراث نہیں کہ یہ صرف اَپر کلاس والوں کو ہی ملتی ہے لوئر یا مڈل کلاس والوں کو نہیں لیکن ان ساری کلاسوں کے لوگوں کی ایک خواہش ہوتی ہے کہ وہ اس خوشی کو اچھے طریقے سے منا سکیں۔

اب ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں کہ جب کسی بڑی کلاس کے لوگوں کے ہاں کوئی خوشی ہوتی ہے تو وہ اس کو بہت جوش وخروش کے ساتھ مناتے نظر آتے ہیں لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں اسی طرح دوسری کلاس کے لوگ بھی اپنی چادر دیکھ کر یا بعض اوقات ادھار وغیرہ لے کر اپنی اوقات سے بڑھ کر اپنی خوشی کو منانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن پھر بھی اس سٹیج تک نہیں پہنچ پاتے۔اب ایسے موقعوں پر جو کمی آپ کو نظر آئے گی اس کے لیے آپ کو تھوڑا پیچھے اپنے ماضی کی طرف جانا ہوگا تب ایک بات کا جواب آپ کو ملے گا کہ موجودہ دور میں وہ اتنی خوشیاں ہم سے کیوں روٹھ گئی ہیں اور کوئی خوشی ملتی بھی ہے تو اس خوشی میں وہ سکون پھر بھی کیوں نہیں ملتا اور یہ خوشی صرف تھوڑے لمحے کے لیے ہی کیوں ملتی ہے اور کیا خوشیاں خریدی جاسکتی ہیں؟

جب ہم اپنے کچھ عرصہ قبل کے ماضی کی طرف نگاہ دوڑاتے ہیں یا اس کے لیے آپ کسی بزرگ وغیرہ جن کو ہم اکثر اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں سے پوچھتے ہیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ اس وقت کی خوشیاں ایک دائمی خوشیاں ہو تی تھیں اس کی وجہ یہ ہو تی تھی کہ ان خوشیوں کے پیچھے ایک مقصد انسانیت ہو تا تھا وہ جذبہ قربانی ہوتا تھا جو آج نہیں ہے آج خوشیاں وقتی اس لیے ہیں کہ وہ ہم کو مل تو جاتی ہیں لیکن جلدی اس لیے روٹھ جاتی ہیں کہ ہم وہ خوشی کسی دوسرے کے اوپر کچھ صَرف کرکے نہیں حاصل کرتے ۔بیٹے کی خوشی کسی گھر میں بیٹی کی خوشی کہیں شادی کی خوشی کہیں کچھ پا لینے کی خوشی کہیں اچھی جاب اچھے نمبر لینے کی خوشی یہ سب خوشیاں تو ہمیں مل جاتی ہیں لیکن آپ دیکھ لیں ان سب خوشیوں کا وجود وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو جاتا ہے یا مدھم ہو جا تا ہے جب وہ خوشی جو کسی انسان کو خوشی دے کے ملتی ہے اس خوشی کا وجود پھر اس انسان کی روح کے وجود کے ساتھ منسلک ہو جاتا ہے کہ جب تک جسم میں روح رہے گی وہ خوشی اس روح کے ساتھ لپٹی رہے گی۔

عید کا مطلب بھی خوشی لیا جاتا ہے کہ مسلمان اس دن خوشیاں منائیں جوش وخروش کے ساتھ اور آپ دیکھیں کہ بقرا عید کو ہم بڑی عید بھی کہتے ہیں ۔اب اس دن پر غور کریں کہ اس دن ہم جانوروں کی قربانیاں کرتے ہیں اور گوشت سے لطف اٹھاتے ہیں۔یہ قربانی دی تو حضرت ابراہیم (ع) کی سنت کو پورا کرنے کے لیے ہے لیکن دیکھیں اللہ کے پاس ہمارا گوشت تو نہیں جاتا لیکن ہماری نیت جاتی ہے۔اب جب ہم قربانی کرتے ہیں تو اللہ ہمیں ایک بڑا پیارا حکم دیتے ہیں کہ اس گوشت کے تم تین حصے کرو ایک حصہ تم اپنے لیے رکھ لو اب حصے پر اللہ تعالیٰ ہمیں مکمل طور پر حق دیتا ہے کہ ہم اس کو مزے سے کھائیں دوسرا حصہ ہم اپنے رشتہ داروں اور عزیزواقارب میں تقسیم کرتے ہیں اب اس پر غور کریں تو یہ حصہ بھی آج کے دور میں بالکل ہمیں واپس مل جاتا ہے کہ آج کے دور میں ہم جب بھی کسی رشہ دار کے ہاں گوشت بھیجتے ہیں تو تھوڑی دیر بعد ان کے ہاں سے اسی طرح کا گوشت ہماری طرف آجاتا ہے۔لیکن اس خوشی کو اللہ نے یہ نہیں کہا کہ صر ف تم لوگ اکیلے اکیلے منا لو بلکہ اپنے گوشت کا تیسرا حصہ میرے بندوں کے لیے رکھ لو جن کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ قربانی کر سکیں۔ اب یہاں اللہ تعالیٰ ہمیں حکم دے رہا ہے۔اور اس کی وجہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ سکھانا چاہتا ہے کہ جب بھی تم لوگوں کو کو ئی خوشی ملے تو اس جوش سے مناؤ دیگیں پکاؤ چاہے جو کرو لیکن اس میں میرے بندوں کا حصہ ضرور رکھو اور ان کو اپنی خوشیوں میں ضرور شامل کرو۔

تو شاید یہی وہ وجوہات ہیں کہ آج ہم سے خوشیاں روٹھ گئی ہیں جب انسان اپنا ایک دروازہ دوسروں کے لیے بند کر دیتا ہے تو اوپر والا بہت سے دروازے اس کے لیے بند کردیتا ہے۔پھر انسان سوچتا ہے کہ آخر یہ خوشی اتنے تھوڑے لمحے کے لیے ہی کیوں تھی۔تو آج جب ہم اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو بڑے ہی جوش وخروش سے منا رہے ہوتے ہیں تو ہم میں اکثر یہ سوچ غائب ہو جاتی ہے کہ ہوسکتا ہے کہ وہ ذات ہمیں یہ خوشی دے کر آزما رہی ہو تو کیوں نہ آج اس خوشی میں ایسے لوگوں کو بھی invitation cardدے دوں کہ جن کے گھر سال میں کبھی کبھی چولہا جلتا ہے۔

تو جب ہم میں سے کوئی انسان اپنی خوشیوں میں کسی دوسرے کو شریک کرتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ انسان ہمیں بہت پر سکوں نظر آتا ہے کہ اس کے پاس ایک نہ ختم ہو نے والی خوشی ہے۔کچھ عرصہ قبل ہمارے شہر میں حکومت کی جانب سے آرڈر آیا کہ جو چھوٹے چھوٹے ایریا میں چھوٹے ڈاکٹر جن کو ملازمت نہیں ملتی اور ان ایریاز میں چھوٹی سی دکان کرائے پہ لے کر کلینک چلارہے ہیں ان کو ختم کیا جائے تو اب اس فیصلے سے بہت سے بڑے ڈاکٹر بہت خوش ہوئے کہ یہی چھوٹے ایریا میں رہنے والے ہی تو ان کی اصل کمائی کا ذریعہ ہیں ۔تو میری ایک ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہو ئی تو میں نے ان سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب اس دنیا میں سب سے معزز پیشہ آپ ڈاکٹر حضرات کا ہے کہ آپ ایک دن میں نہ جانے کتنے انسانوں کو موت کے منہ سے نکالتے ہیں اور نہ جانے کتنی دعائیں لیتے ہیں۔اب یہ فیصلہ جو آپ کر رہے ہیں آپ جانتے ہیں کہ ان چھوٹے ایریاز میں رہنے والے لوگوں پر اس کا کیا اثر پڑے گا اگر آپ ان چھوٹی سطح کے ڈاکٹرز حضرات کلینک کو ختم کر نا چاہتے ہی ہیں تو کیا اس کے بعد آپ ان لوگوں کو اپنے کلینک پہ صرف تیس روپے میں وہی دوا دو گے جو وہ ڈاکٹر دیتا ہے۔آپ آج ان کو اچھی دوا دو یہ لوگ آپ کو بہت دعائیں دیں گے۔تو اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ یہ فیصلہ رک گیا تو میں بہت خوش ہوا کہ ہم لوگ بہت سی بددعاؤں سے بچ گئے کہ ایسے مقام پر جہاں ہمیں نہ جانے کتنی دعاؤں کی ضرورت ہے۔تو اگر ہم بالکل اسی طرح اپنی زندگی کی خوشیوں میں ایسے لوگوں کو شریک کریں کہ جن لوگوں کی زندگی میں خوشیاں بہت کم ہیں تو پھر ہمیں وہ خوشیاں ملیں گی جو دیرپا ہوں گی کہ جس سے ملنے والا سکون آپ ہمیشہ محسوس کرو گے اور آپ کی زندگی ہمیشہ خوشیوں کے سائے میں گزرے گی۔﴿انشاﺀ اللہ﴾

اﷲ آپ کو دیے سے دیا جلانے کی تو فیق عطافرمائے۔﴿آمین﴾
Young Writer and Columnist
About the Author: Young Writer and Columnist Read More Articles by Young Writer and Columnist: 15 Articles with 14648 views Hafiz Muhammad Naeem Abbas.A young writer from Dist Khushab.
Columnist, Script Writer and Fiction, NON FICTION Writer.
Always write to raise the sel
.. View More