اسلام اور پاکستان دشمن عناصر ہم اہل پاکستان کو
مختلف فرقہ وارانہ ، لسانی اور گروہی تفرقوں میں الجھا کر مملکت خداداد
پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔ ماضی میں بھی ملک دشمن
عناصر نے پاکستان میں دہشت گردی کو پروان چڑھا کر نہ صرف ملک کو ترقی کی
راہ پر گامزن ہونے سے روکے رکھا ، بلکہ ملک میں دہشت گردانہ کاروائیاں کرکے
ہمارے نہتے بے گناہ شہریوں کو آئے روز شہید کرتے رہے ۔ جبکہ ہمارے ملک میں
پروان چڑھی اس دہشت گردی کی بڑی وجہ ہم اہل پاکستان میں اتفاق و اتحاد کا
فقدان رہا ہے۔ بلاشبہ دین حق اسلام ہمیں اجتماعی وسماجی زندگی مثبت رویوں
کے ساتھ گزارنے کا پابند کرتا ہے۔نماز ،زکوٰۃ ، روزہ، حج ، صدقات اور
قربانی کے علاوہ اسلامی تہواروں کے اجتماعات اسلامی معاشرتی زندگی کی انمول
حکمتوں سے لبریز ہیں۔ انکے ذریعے روز مرہ زندگی میں جسمانی پاکیزگی
اورصفائی کے علاوہ سلیقے، میانہ روی، تحمل وبرداشت،صبر،ایثار، عاجزی،اطاعت،
مثبت سوچ اور انسانی ہمدردی کا درس دیا گیا ہے۔اسلامی تعلیمات کے احکامات
کی روشنی اور فطرت انسانی کے رویوں کیخلاف اگر کوئی شخص مثبت کردار کی
بجائے دقیانوسی پن اور انتہا پسندی کا رویہ اپناتا ہے تو وہ نہ صرف خود
مصائب وآلام کو دعوت دیتا ہے بلکہ معاشرے کے عدم استحکام کا بھی باعث بنتا
ہے۔یہ معاشرہ افراد کا معاشرہ ہے اور تمام افراد کی سوچ، خیالات،
رویے،جذبات، علم، فہم وفراست، شعور، ادراک، عمل، طریقہ ، صلاحیتیں، قوت
فیصلہ ایک جیسے نہیں ہوسکتے مگر منفی سوچ اپنانے والے افراد کے رویوں کے
سبب پورے معاشرے کو نقصان پہنچنے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے جس کو قرآن پاک نے
فتنہ اور فساد کا نام دیا ہے۔
کامیاب زندگی کے لئے اپنی سوچ تعمیری رکھنا ضروری ہے ، کیونکہ تعمیری سوچ
اور مثبت رویہ سر اسر خیرکا باعث ہے ۔ اگر ہم اہل مسلم اپنی اصلاح کرلیں ،
اپنی صفوں میں مثالی اتحاد و اتفاق پیدا کرلیں تو غیر اسلامی معاشرے بھی
اسلامی معاشروں کی تقلید شروع کردیں گے۔ جن افراد اور معاشروں میں رویوں کا
فقدان پایا جاتا ہے افراتفری اور خانہ جنگی انکے اندر موجزن رہتی ہے تو
دوسری طرف بد قسمتی، تباہی و بربادی اور مفلوک الحالی ایسے معاشروں کا مقدر
بنتی ہے۔ یہ امر ہمارے لیے قابل غور ہونا چاہئے کہ عمر بن خطاب رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ نے جب تک اسلام قبول نہیں کیا تھا کیا ان جیسا انتہا پسند، انا
پرست، تشدد پسند، جری، دلیر اور بہادر شخص کوئی نہیں پایا جاتا تھا ۔ پھر
اسلام قبول کر کے جب آپ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہو گئے یا بعد میں
خلیفہ بن گئے تو عاجزی، صبر، میانہ روی، اطاعت اور تحمل وبرداشت کا دامن آپ
نے کبھی نہ چھوڑا۔ آپ صلی اﷲ علیہ و سلم کی صحبت نے حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ کے سینے سے ہر طرح کی ایسی انا پسندی اور بہادری کو نکال دیا تھا جو
اسلامی تعلیمات سے ٹکراتی تھیں۔
آ ج ہم مسلمانوں کو اپنی ایمان کی کسوٹی کو پرکھنا چاہئے ، اور اپنی صفات ،
عادات پر غور کرنا چاہئے، اپنے سماجی و معاشرتی معاملات پر غور کرنا چاہئے
کہ ہم فقط ہم اس لئے مسلمان ہیں کہ ہم مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے یا کہ ہم
اسلام کی حقیقی و روشن تعلیمات کو اپنے اندر سمو کر نہ صرف اپنے قلب کو
انوارات ایمانی سے منو کررہے ہیں بلکہ معاشرے کی فلاح ، اور لوگوں کی خیر
خواہی کا بھی باعث بن رہے ہیں۔ کیونکہ قرآن پاک میں انسانی معاشروں کی
خرابی اور تباہی وبربادی سے سخت منع کیا گیا ہے،قرآن پاک میں کوئی ایسا حکم
نہیں دیا گیا، کہ غیر مسلم یا مسلم کو ناحق قتل کیا جائے۔قرآن وسنت سے ہر
طرح کی رہنمائی حاصل کرنا ہمارے لیے اشد ضروری ہے۔ ایک مسلمان کو روز مرہ
زندگی گزارنے کیلئے ذاتی اور معاشرتی زندگی میں کب کیا رویہ اختیار کرنا
چاہیے؟ جب بھی کوئی شخص قرآن وحدیث کی جانب رجوع کرے گا تو نورہدایت کی
حیثیت رکھنے والی دونوں نعمتوں سے اس کو عدل اور اعتدال کا رویہ اختیار
کرنے کا وہ درس ملے گا جو ربّ العالمین کی رضا اور اسوۂ حسنہ کے مطابق ہو
گا۔ ملک وملت کی معاشرتی، معاشی، سماجی، تمدنی ترقی کیلئے لازمی ہے کہ
افراد اپنے رویوں میں ایسی روشن خیالی اور میانہ روی پیدا کریں جو قرآن پاک
اور حدیث مبارکہ صلی اﷲ علیہ و سلم کے عین مطابق ہو۔ جن معاشروں میں ایسے
رویے اختیار نہیں کیے جاتے اور چھوٹے چھوٹے معاملات اور تنازعات پر انتہاء
پسند سوچ رکھی جاتی ہے ، ان افراد اور معاشروں کی لاقانونیت حقیقت میں روز
حشر ان کو تباہی کی جانب لے جانے والی ہے اس روز مال ودولت، اولاد، رشتہ
دار اور دنیا بھر کی کوئی چیز اﷲ تعالیٰ کی پکڑ سے نجات نہ دلا سکے گی۔ آج
اسلام اور پاکستان کے دشمنوں سے نبرد آزما بہادر پاک فو ج جہاد کی ذمہ داری
احسن طریقے سے نبھا رہی ہے ۔بطور مسلمان ہم اہل پاکستان پر ذمہ داری عائد
ہوتی ہے کہ ہم اپنے اندر مثبت سوچ،رویے ، اور قوت برداشت پیدا کریں ۔ اپنے
معاشرے میں اتفاق و اتحاد کو فروغ دے کر اچھے مسلمان اور اچھے پاکستانی
ہونے کا ثبوت دیں تاکہ مملکت خداداد پاکستان سے دہشت گردی کا جڑ سے خاتمہ
ہوسکے، اور ہماری آئندہ نسلوں کو پاکستان بطور محفوظ و مستحکم ، اسلامی
فلاحی ریاست میسر آسکے۔
٭……٭……٭ |