گھر کا مضبوط ترین ستون ( ایک کہانی )

روزے افطاری کا وقت قریب تھا ہر کوئی جلدی سے اپنے گھر جانے کی کوشش میں تھا میں بھی اسی جستجو میں تھا سڑکوں پر بہت کم گاڑیاں نظر آ رہی تھیں مجھے آج سائٹ سے آتے کافی دیر ہو چکی تھی جیسے اپنے علاقے میں پہنچا تو سڑکیں تقریباََ سنسان تھیں ۔میں نے ایک خالی پلاٹ میں گاڑی پارک کی تو میری نظر وہاں ایک شخص پر پڑی جو ایک کونے میں بلاک پر نظریں جھکائے بیٹھا تھا ۔سفید شلوار قمیض اس بات کی نشاندہی کر رہی تھی کہ افسردہ شخص پاکستانی ہے ۔مجھ سے رہا نہ گیا اور میں اُس شخص کے پاس چلاگیا میں نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور دھیمے سے پوچھا جناب سب خیریت تو ہے نہ ۔جب اُس نے اپنا سر اُٹھایا تو آنکھوں میں آنسو جھلک رہے تھے اور باہر نکلنے کو بے قرار تھے چند سیکنڈ بعد ہی وہ اُٹھا اور میرے گلے لگ گیاجیسے صدیوں سے منتظر تھا اُس اجنبی نے مجھے اتنی زور سے گلے لگا رکھا تھا کہ میرا سانس گھٹنے لگا تھا مگر اُس کی بین مجھے اُسے دور کرنے سے مسلسل روکے ہوئے تھے میں بھی اُس کی کمر پر ہاتھ پھیر کر صبر کی تلقین کر رہا تھا یہ سلسلہ چند منٹ تک چلتا رہا آخرکار میں نے اجنبی شخص کو زبردستی ہٹایا اور دوبارہ اُسی بلاک پر بیٹھا دیا جہاں سے وہ اُٹھا تھا اور خود اُس کے پاس بیٹھ گیا ۔جب تھوڑی دیر بعد اُسے کچھ صبر آیا اور اُس کے آنسوں کا طوفان کچھ حد تک تھم گیا تو میں نے پوچھا بھائی کیا ہوا ہے آپ اتنا کیوں رو رہے ہو میرا یہ پوچھنا تھا کہ اُس کے آنسوں پھر بے اختیار ہو گئے شاید میں نے اُس کے زخم کو دوبارہ تازہ کر دیا تھا ۔کچھ دیر بعد وہ بولا پچھلے سال رمضان میں میرے والد محترم اس دنیا سے کوچ کر گئے تھے اور میں بدبخت اُن سے مل بھی نہ سکا وہ مجھے یاد کرتے کرتے مجھے چھوڑ گئے اُس کی آواز میں درد واضح تھا ۔میں نے پوچھا کیا آپ اُس وقت پاکستان میں نہیں تھے تو وہ بولا نہیں ایسا نہیں میں تب پاکستان میں ہی تھا پاکستان چھوڑے مجھے دو مہینے ہی ہوئے ہیں ۔بات دراصل یہ ہے کہ میں کسی لڑکی سے پیار کرتا تھا اور گھر والوں کو اُس سے شادی کروانے پر مجبور کر رہا تھا مگر میرے والد صاحب ایسا نہیں چاہتے تھے میں نے ایک دن گھر میں جھگڑا کیا اور گھر چھوڑ کر دوسرے شہر دوست کے پاس چلا گیا یہ بات والد صاحب کی وفات سے دو مہینے پہلے کی ہے میں نے دوست کے پاس سے گھر کوئی رابطہ نہ کیا تقریباََ اڑھائی ماہ بعد رمضان کے آخری عشرہ میں گھر والوں کی یاد نے جب بہت ستایا تو گھر رابطہ کیا تب مجھ پر قیامت ٹوٹ پڑی میرے والد صاحب مجھے چھوڑ کر چلے گئے تھے جب گھر آیا تو سب نے بتایا کہ کیسے میرے والد میرے لیے ٹرپتے رہے اپنی آخری سانس تک لوگوں کو کہتے رہے کہ کہیں سے مجھے ڈھونڈ کر لا دیں تاکہ وہ مجھے دیکھ سکیں میری دوری کے دکھ نے اُن سے سانسیں چھین لیں ۔وہ مسلسل رو رہا تھا مگر اب وہ اکیلا نہیں تھا میری آنکھوں سے بھی نہ چاہتے ہوئے آنسوں کی آمد جاری تھی ۔میں نے اُس سے کہا موت کا ایک وقت مقرر ہے آپ کے ابو کا وہی وقت تھا ہاں مگر آپ کی اس نادانی نے انھیں بہت اذیت پہنچائی میں نے اُس کا بازو پکڑا اور اپنے ساتھ لے جانے لگا وہ شخص پھر کہنے لگا جانتے ہیں جب میں واپس آیا تو جس لڑکی کے لیے میں نے یہ سب کیا اُس کی شادی ہو گئی تھی جب وہ مجھے ملی تو اپنے شوہر کی تعریفیں کرنے لگی کہ وہ بہت خوش ہے مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ وہی لڑکی ہے جو چند ماہ پہلے میرے ساتھ شادی نہ ہونے کی صورت میں جان دینے کی باتیں کر رہی تھی جس کی انہی جذباتی باتوں کی وجہ سے میں نے اﷲ کے غضب کو للکار دیا اپنے سر کے سائے کو چھوڑ کر دور چلا گیا یہ کہتے اُس نے اپنا ہاتھ مجھ سے چھوڑوادیامجھے پھر گلے ملا اور ایک سمت کو چلا گیا گلی میں جب تک وہ نظر آیا میں اُسے دیکھتا رہا ۔کئی دن تک اُس کے غم میں نڈھال رہا جس کا میں نام تک نہیں جانتا مگر یہ سوچتا ہوں وہ اتنا بڑا صدمہ کیسے برداشت کرتا ہو گا لیکن یہی اُس کی سزا ہے جس نے ایک لڑکی کی خاطر اپنے والد کو دکھ دیا ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ والد کی سختی ہی ہمیں اس دنیا میں رہنے کا سلیقہ سکھاتی ہے آپ کی کامیابی پر جو شخص سب سے زیادہ خوش ہوتا ہے وہ آپ کے والد ہی ہیں اسی طرح آپ کی ناکامی سب سے زیادہ دکھ اسی ہستی کو دیتی ہے ۔

میں سوچتا ہوں کہ میں اگر ساری دنیا خرید کر بھی اپنے ابو کے پاؤں میں ڈھیر کر دوں تو بھی شائد اُن کی اس ایک ادا کا حق نہ ادا کر پاؤں گا جب وہ سخت گرمی میں گھر لوٹتے اور پانی میں نمک ملا کر پیتے کیونکہ وہ پسینے سے شرابور ہوتے تھے انھوں نے گرمی کی تپش کو اپنے بدن میں اس لیے جگہ دی تا کہ ہمیں سائے کی ٹھنڈک مل سکے ہمیں کبھی کسی چیز کی کمی محسوس نہ ہو اُن سے جو کچھ بنا وہ انھو ں نے ہمارے لیا کیا لیکن شاید ہم انھیں اُس طرح لُٹا نہیں پائیں گے مگر مجھے افسوس ہوتا ہے اُن بچوں پر جو اپنے والدین کے ساتھ لاپرواہی سے کام لیتے ہیں وہ والدین جن کے ساتھ مسکرا کے بات کرنے کو بھی ثواب کا درجہ دیا گیا ۔ ایک بات ہمیں ذہن نشین کرنا ہے کہ والدین کی خدمت آپ پر فرض ہے آپ کی بیوی پر نہیں اب یہ آپ پر ہے کہ آپ اپنی بیوی سے اپنے والدین کی خدمت کیسے کروا سکتے ہیں۔میری درخواست ہے اپنے تمام دوستوں سے کہ اگر آپ کے والدین اور خاص طور پر والد زندہ ہیں تو اُن کی خدمت میں کسی لحاظ سے کمی نہ آنے دیں اُن کی ہر جائز نا جائز خواہش کا احترام کریں اور جہاں تک ہو سکے اُسے پورا کریں کیونکہ اگر والد یا والدہ میں سے کوئی ایک بھی آپ سے ناراض اس دنیا سے کوچ کر گیا تو آپ کی دنیا وآخرت دونوں میں سے سکون ختم ہو جائے گااور ہاں ایک اور بات ذہن نشین کر لیجیے کہ باپ چاہے جتنا بھی بوڑھا اور لاغر ہوجائے گھر کا سب سے مضبوط ستون باپ ہی ہوتا ہے ۔ اﷲ تعالی سے بس یہی دعا ہے کہ جن مومنین کے والدین حیات ہیں انھیں صحت عطا فرما میرے والدین کو بھی صحت کامل عطا فرما مجھے اور تمام مسلمانوں کو اپنے والدین کی خدمت کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرما تا کہ اے میرے پروردِگار تو ہم سے خوش ہو جائے اور ہمیں جہنم اور آگ کے عذاب سے بچا اور اپنی آزمائشوں سے محفوظ فرما۔۔۔۔آمین
اے میرے پروردگار میرے والدین پر رحمت کر جس طرح انھوں نے مجھ کوبچپن میں رحمت اور شفقت کے ساتھ پالا تھا ۔۔۔( القران بنی اسرائیل)

Sajid Hussain Shah
About the Author: Sajid Hussain Shah Read More Articles by Sajid Hussain Shah: 60 Articles with 48934 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.