بولتی دیواریں پبلک ٹوئلٹس اور پاکستانی

ہم پاکستانی بحیثیت قوم یوں تو تقریباََ ہر بدتمیزی کے معاملے میں مشہور و معروف ہیں لیکن چند معاملات ایسے ہیں جن میں بدتمیزی کے ساتھ ساتھ بے ہودگی کے عالمی ریکارڈ بھی پاکستانی قوم کے پاس وافر تعداد میں موجود ہیں۔ کسی ملک کی عام ذہنی حالت کا اندازہ اس کی ٹریفک ، دیواروں اور پبلک ٹوائلٹس کو دیکھ کے لگایا جاسکتا ہے.کسی بھی ملک میں کسی ایک بھی جگہ ایسی شاعری، پینٹنگ اور کارٹون بنانے کے ماہر نہیں ملیں گے جیسے اپنے ملک پاکستان میں ملتے ہیں۔ اور مزے کی بات یہ کہ شاعری، کارٹون بنانے کے مظاہرے، تصاویر اور عالمی حالاتِ حاضرہ پر تبصرے ٹوائیلٹس، ہسپتالوں کے ٹوائلٹس اور اسکول و کالجز کے ٹوائلٹس میں دیکھنے کو ملیں گے۔

یعنی حد ہوتی ہے بےشرمی کی، ایسے ایسے بے ہودہ، واہیات اور شرم سے عاری اشعار تبصرے اور بے سروپا باتیں لکھی ہوتی ہیں کہ سنجیدہ سے سنجیدہ انسان بھی سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ کسی کے ارمان اسی پر بس نہیں کرتے تو وہ انسان کے ایسے ایسے غیر انسانی کارٹون بنا کر اٹھتا ہے کہ انسان کا دل عش عش کر اٹھتا ہے کہ یار اتنا ٹیلنٹ جس نے واش رومز میں بیٹھ کر دکھایا ہے اگر عملی زندگی میں اس کا دس فیصد بھی کر دکھاتا تو غم روزگار سے کم از کم بے گانہ ضرور ہو جاتا اور اسکا یہ ٹیلنٹ مشہور ہوجاتا . اسمیں اکثر وہ مرد ملوث ہوتے ہیں جو تمام رات بیٹھ کر انگریزی فلمیں دیکھتے ہیں پھر اس کے وہ مناظر جو ان کی یادداشت میں رچ بس جاتے ہیں ان کو اپنے قلم کے ذریعے دنیا کے ساتھ شئیر کرتے ہیں۔
بات اسی پر ختم نہیں ہو جاتی، یہ تمام خرافات جن کا تذکرہ کیا ہے بلا تمیز خواتین کے واش رومز میں بھی کیا جاتا ہے۔ میں حیران اس بات پر ہوں کہ یہ مرد خواتین کے واش رومز میں کرنے کیا جاتے ہیں۔ یہ وہ واحد جگہ ہے جہاں پر سی سی ٹی وی کیمرے نہیں لگائے جا سکتے، لیکن اگر لگائے جائیں تو میرے خیال میں ایک الگ سے جیل بنانی پڑ جائے گی جس میں اس طرح کی قدرتی خداداد صلاحیتوں سے مالا مال فنکاروں کے طویل قیام و طعام کا بندوبست کرنا پڑے۔ پاکستانیوں کے بارے میں ایک تبصرہ یہ کیا جاتا ہے کہ یہ وہ واحد قوم ہیں جو ائیرپورٹ سے نکلتے ہی دنیا کے مہذب ترین لوگ بن جاتے ہیں۔ ویسے مجھے آج دن تک اس بدتمیزی کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی۔ اس کے علاوہ ایک اور بات جو انتہائی قابل مذمت ہے وہ یہ کہ اکثر واش رومز میں لڑکیوں کے نمبر لکھ کر ساتھ ہی بے ہودہ سی عبارت لکھ دی جاتی ہے جس کا متن یہ ہوتا ہے کہ وہ لڑکی کوئی کال گرل یا دوستیاں پالنے والی لڑکی ہے جس کو دوستوں کی اشد ضرورت ہے۔ مجھے لگتاہے کہئ یہ کام ضرور کوئی ایسا بندہ کر سکتا ہے جس کو اس لڑکی سے کوئی اختلاف ہو گیا ہو اور ان کے راستے جدا ہو چکے ہوں لیکن وجہ کوئی بھی رہی ہو یہ حق کسی کو نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کو بدنام کرے یا اس طرح سے اس کا اشتہار بنائے اس کے علاوہ لڑکیوں کے نمبر لوکل بسوں کی سیٹوں پر بھی لکھے ملتے ہیں یہ ذہنی گرواٹ کی آخری حد ہے۔ اگر ہم غور کریں تو ہمارے پبلک ٹوآئلٹس روڈز اور دیواریں ہماری ذہنی گرواٹ کا منہ بولتا ثبوت ہیں. مردانہ کمزوری سے لے کر محبوب آپ کے قدموں تک اور چلو چلوجلو پارک چلو .. بنگالی بابا کالے جادو کا توڑ ہر طرح کے پوشیدہ زنانہ و مردانہ کا علاج فرزانہ دوا خانہ ہی ہے .. اور ہر طرح کے اشہارات بمعہ موبائل نمبر یہں ملیں گے. اِس بنا پر ان عوامی دیواروں کو ’غریبوں کا سوشل میڈیا‘ بھی کہا جانے لگا ہے . جی ٹی روڈ سے سفر کرتے ہوئے کسی شہر کی دیوار ہو یا کوئ علاقہ جہاں دیواریں اشتہارات اور سیاسی نعروں اور مطالبوں پر مبنی چاکنگ سے بھری نہ ہوں ہم لوگ نہ جانے کب ذہنی طور پے خواندہ ہوں گے ۔ اس طرح کی حرکات کرنے والے معاشرے کیلئے کتنے خطرناک ہیں اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ انتہائی گھٹیا اور اخلاقی طور پے تباہ قوم کی نشانی ہے، خدا اس قوم کو سمجھ بوجھ عطا فرمائے اس طرح کے کاموں سے رکنے کی طاقت بھی، آمین۔

Amber Zafar
About the Author: Amber Zafar Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.