غریب وسادہ ورنگین ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؓ ،ابتداء ہے اسماعیلؑ
دین اسلام کی پوری تاریخ قربانی سے بھرپورہے ۔اسی لئے اسلام ہمیں قربانی
کادرس دیتاہے ۔چاہے اس قربانی کاتعلق جسم وجان سے ہو۔مال ومنال سے یااہل
وعیال سے ہو۔ جب دین اسلام کی بقاء کے لئے ہماری جان،مال ،اولادالغرض
کائنات کی جس چیزسے ضرورت پڑجائے مسلمان اﷲ پاک کی راہ میں اپنی عزیزترین
متاع کی قربانی سے بھی دریغ نہ کریں اورہرامتحان میں ثابت قدم رہیں۔ کیونکہ
جولوگ آزمائش سے بھاگ جاتے ہیں وہ پست رہتے ہیں اورجوآزمائش میں ثابت قدم
رہتے ہیں انکاشمارعظیم لوگوں میں ہوتاہے۔ اوّلاًآزمائش ہرکسی کونصیب نہیں
ہوتی اورپھرجس کوآزمائش نصیب ہوجائے وہ اﷲ تعالیٰ کاپیاراہوتاہے۔کیونکہ اﷲ
تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کوآزمائش میں ڈالتاہے۔اﷲ تعالیٰ کے ہاں بندہ
کاجتنازیادہ مقام ہوتاہے ۔اتنی زیادہ اسے آزمائش میں ڈالاجاتاہے۔ اﷲ تعالیٰ
نے حضرت ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السّلام سے پیارکیاتواس پیارکے نتیجہ میں
انہیں آزمائش میں ڈالا۔سیدناحضرت ابراہیم خلیل اﷲعلیہ السّلام ہرآزمائش میں
سرخرورہے۔سلسلہ آزمائش جوسیدناحضرت ابراہیم خلیل اﷲعلیہ السّلام سے شروع
ہواتھاوہ حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہپرآکرختم ہوا۔اس لئے یہ مناسب
نہیں کہ شہادت سیدناحضرت امام حسینرضی اﷲ تعالیٰ عنہ کاتعلق ذبح اسماعیل سے
جوڑانہ جائے ۔ان عظیم ہستیوں کاذکریکجاکیاجائے توتب شہادت کامطلوب
ومقصودسمجھ آتاہے۔ورنہ شہادت کاعمل ادھورارہ جاتاہے ۔اورمخلوق خداکویہ بات
مکمل طورپرسمجھ نہیں آتی ۔
ذوالحجہ اسلامی سال کابارہواں اورآخری مہینہ ہے ۔ اسی مہینہ کی دسویں تاریخ
کوحضرت اسماعیلؑ کی قربانی اﷲ پاک کی بارگاہ میں پیش کی گئی ۔ذوالحجہ کا
مہینہ نہایت ہی عظمت اورمرتبے والامہینہ ہے اس مہینہ کاچاندنظرآتے ہی ہردل
میں اس عظیم الشان قربانی کی یادتازہ ہوجاتی ہے جسکی مثال تاریخ انسانی پیش
کرنے سے قاصرہے ۔ یہ مہینہ اس جلیل القدرپیغمبرکی یادگارہے جن کی زندگی
قربانی کی عدیم المثال تصویرتھی یہ پیغمبر حضرت ابراہیم خلیل علیہ السّلام
ہیں۔حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے پاس مال ومنال مویشی کافی زیادہ ہوگئے
توآپؑ کے دل میں خیال آیاکہ اﷲ تعالیٰ نے دنیاکی تمام نعمتیں عطافرمادی ہیں
اگراب اﷲ پاک کافضل کرم ہوکہ اولادنرینہ سے سرفرازفرمائے تواس مالک کاایک
اورانعام ہوگاتاکہ وہ میرے بعدمنصب نبوت ورسالت پرفائزہو۔ حضرت ابراہیم
علیہ السلام نے اﷲ پاک کی بارگاہ میں دعاکی جوقبول ہوئی اورایک
فرمانبرداربیٹے کی خوشخبری سنائی۔ قرآن پاک میں ارشادپاک ہے۔فَبَشَّرْنَاہُ
بِغُلٰمِِ حَلِیْمِِ۔(ترجمہ ) توہم نے اسے عقل مندلڑکے کی خوشخبری سنائی۔ (پارہ
۲۳)نورمحمدی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم جوحضرت آدم علیہ السّلام سے لے
کرپشت درپشت چلاآرہاتھا وہ سیدہ ہاجرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی طرف آیا۔حضرت
اسماعیل علیہ السَّلام کی ولادت ہوئی اوروہ نورمحمدی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
والہٖ وسلم آپکی پیشانی میں چمکنے لگا۔دنیامیں انسان کودوچیزیں عزیزہوتی
ہیں ایک انسان کوجان اوردوسری اولادعزیزہوتی ہے ۔جب جان کاوقت آیاتوحضرت
ابراہیمعلیہ السّلام نے جان کی پرواہ نہ کی بلکہ اﷲ کی رضاپرراضی ہوئے ۔نمرودلعین
جس نے خدائی کادعویٰ کیاتھااس نے آگ میں حضرت ابراہیمعلیہ السلام کو
ڈالالوگ خوش تھے کہ ہمارے بتوں کوبرابھلاکہنے والاآج کے بعدکوئی نہیں
ہوگا(نعوذباﷲ )مخالف ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے گاآخرجب آپ علیہ السّلام کوآگ
میں ڈالاگیا۔ شاعرمشرق علامہ اقبال علیہ الرحمہ کی روح یہاں تڑپی اورکیاخوب
کہا ۔
بے خطرکودپڑاآتش نمرودمیں عشق
عقل ہے محوِتماشائے لبِ بام ابھی۔
عقل ابھی تماشادیکھ رہی تھی کہ عشق نے چھلانگ لگادی اﷲ پاک نے آگ کوحکم دے
دیا۔(ترجمہ)اے ! آگ حضرت ابراہیم علیہ السّلام پرٹھنڈی ہوجااورسلامتی والی
ہوجا۔جان کے بعداولادکی باری آتی ہے جب حضرت اسماعیل ؑ ذبیح اﷲ کی پیدائش
ہوئی تو حضرت ابراہیمعلیہ السّلام کوحکم ملاکہ وہ سیدہ ہاجرہؓ اورحضرت
اسماعیل ؑ کوجنگل میں چھوڑآئیں۔مکہ المکرمہ کی وادیوں میں چھوڑآئے ۔سیدناحضرت
اسماعیل علیہ السّلام جوان ہوئے ۔جب حضرت اسماعیل علیہ السّلام سن بلوغت
کوپہنچے توحضرت ابراہیم علیہ السّلام کواپنے لخت جگربیٹے کی قربانی کاحکم
دیا۔جس پرحضرت سیدناابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام اپنے بیٹے کوقربان کرنے کے
لئے تیارہوگئے ۔باپ بیٹے نے تسلیم جاں کایہ اظہارزبانی کلامی نہیں کیابلکہ
عملاًبجالائے۔سیدناحضرت ابراہیم خلیل اﷲعلیہ السّلام کواس عظیم قربانی
پربارگاہ خداوندی سے شرف امامت بھی عطاکیاگیا۔
محرم الحرام اسلامی سال کاپہلامہینہ ہے اسی سے نئے اسلامی سال کی ابتداء
ہوتی ہے۔محرام الحرام بہت عظیم اورمبارک مہینہ ہے ۔ اوربالخصوص اس کی دسویں
تاریخ بہت اہمیت کی حامل ہے۔محرم الحرام کامہینہ شروع ہوتے ہی ہمارے دلوں
میں اس واقعے کی یادتازہ ہوجاتی ہے جسے تاریخ "سانحہ کربلا ـ "کے نام سے
یادکرتی ہے ۔دس محرم الحرام 61 ہجری کومیدان کربلا میں تاریخ اسلام
کاانتہائی دردناک اوردلوں کوہلاکررکھ دینے والا سانحہ رونماہوا۔یزیدیوں نے
نواسہ رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی لخت جگرسیدۃ النساء حضرت
فاطمۃ الزہراسلام اﷲ علیھاوحضرت علی المرتضیٰ شیرخدارضی اﷲ تعالیٰ عنہ،حضرت
امام حسینرضی اﷲ تعالیٰ عنہ ،ان کی اولاد،اقرباء اور دیگرساتھیوں کوانتہائی
مظلومیت کے عالم میں شہیدکیا۔تاریخ اسلام میں اوربھی بہت سی جانیں اﷲ کی
بارگاہ میں قربان ہوئی ہیں ہرشہادت کی اہمیت وافادیت مُسلمّ ہے مگرشہادت
سیدناامام عالی مقام حضرت امام حسینرضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی دوسری شہادتوں کے
مقابلے میں اہمیت وشہرت اس لئے بڑھ کرہے کہ کربلاکے میدان میں شہیدہونے
والوں کی آقائے دوجہاں سرورکون ومکان صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم سے خاص
نسبتیں ہیں۔یہ داستان شہادت گلشن نبوت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے
کسی ایک پھول پرمشتمل نہیں۔تاریخ کے کسی دورمیں بھی امت مسلمہ کربلاکی
داستان کوبھول نہیں سکتی ۔ سیدناحضرت امام حسینرضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنی
جان تواﷲ کے نام پرقربان کردی مگرباطل کے آگے سرنہ جھکایا۔سوال پیداہوتاہے
کہ سیدناحضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہنے یزیدسے ٹکرکیوں لی؟آپ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہنے یزیدکی حکومت کوماننے سے انکارکیوں کیا؟حقیقت میں اس کی وجہ
یہ تھی امام عالی مقام یہ جانتے تھے کہ یزیدکی حکومت ایک ظالم حکومت ہے ۔یہ
اسلام کی تاریخ کومسخ کرکے ایک نئے دورکاآغازکرنے والی ہے۔بہارشریعت میں
صدرالشریعہ حضرت مولاناامجدعلیؒ فرماتے ہیں۔یزیدپلیدفاسق وفاجرمرتکب
کبائرتھامعاذاﷲ اس کو ریحانہ رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم سیدناحضرت
امام حسینرضی اﷲ تعالیٰ عنہسے کیانسبت!آج کل جوبعض گمراہ کہتے ہیں کہ ہمیں
ان کے مقابلہ میں کیادخل ہے۔ہمارے وہ بھی شہزادے ،وہ بھی شہزادے ایسابکنے
والامردودخارجی ناصبی مستحق جہنم ہے ہاں یزیدکوکافرکہنے اوراس پرلعنت کرنے
میں علمائے اہل سنت کے تین قول ہیں اورہمارے امام اعظم ؓ کامسلک سکوت یعنی
ہم اسے فاسق وفاجرکہنے کے سوانہ کافرکہیں نہ مسلمان۔(بہارشریعت)وجہ یہی تھی
کہ حضرت امام حسینرضی اﷲ تعالیٰ عنہنے مدینہ پاک (وہ مدینہ جس کے بارے میں
میرے نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا"کہ میراکوئی امتی
مدینہ کی سختیوں اورتکلیف پرصبرکرے گاتومیں قیامت کے دن اسکاشفیع ہوں گا)کے
آرام کوچھوڑکرایک مشکل اورکٹھن سفرپرچل پڑے آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے رخصت
کی راہ نہیں اپنائی بلکہ اس موقع پرآپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے
ارشادفرمایاتھا:میں حسین ابن علیرضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہوں جسے نبی کریم صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے اپنے کاندھوں کی سواری دی ہے اگرمیں بھی رخصت کی
راہ پرچل پڑاتوقیامت تک ظالم اورجابروں کے سامنے کلمۂ حق اداکرنے کی رسم
اورسنت ختم ہوجائے گی۔سنت مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم ختم ہوجائے
گی۔ظالم کے سامنے کلمۂ حق بلندکرنے کاطریقہ ختم ہوجائے گا۔جرات وآزادی
کاراستہ اسلام کی تاریخ میں بندہوجائے گا۔اﷲ رب العزت نے نبی کریم صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کومَاکَانَ وَمَایَکُوْن کا علم عطافرمایا۔نبی علیہ
الصّلوٰۃ والسلام نے مخلوقات کی ابتداء سے لیکرجنتیوں کے جنت میں جانے
اوردوزخیوں کے دوزخ میں جانے تک کے سب حالات اپنے صحابہ کرام علیہم الرضوان
کے سامنے بیان فرمادیے تھے۔سیدناامیرالمومنین عمرفاروق رضی اﷲ تعالیٰ
عنہفرماتے ہیں "کہ حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے ابتداء خلق سے
لیکرجنتیوں کے جنت میں داخل ہونے اوردوزخیوں کے دوزخ میں جانے تک ہمیں سب
کچھ بتادیایادرکھااسکوجس نے یادرکھااوربھلادیااسکوجس نے بھلادیا۔(بخاری
شریف) ایک بارنبیوں کے سردارصلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم اپنے نواسے
سیدالشہداء حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اوراپنے صاحبزادے حضرت
ابراہیم علیہ السّلام کوگودمیں لئے بیٹھے تھے کہ حضرت جبرائیل امینعلیہ
السّلام حاضرخدمت ہوئے اورعرض کیایارسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ
وسلم!اﷲ تعالیٰ کہتاہے ان میں سے ایک کوتوُچن لے یہ دونوں آپ صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ والہٖ وسلم کے پاس ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔چنانچہ نبی علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے حضرت امام حسینرضی اﷲ تعالیٰ عنہکوچن لیاچنانچہ تیسرے روز آپ
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم علیہ السّلام
کاانتقال ہوگیا۔
حسین ابن علی ؓ نے کربلامیں یہ کیاثابت
رہے جاری جونیزے پرتلاوت ہوتوایسی ہو
ارشادباری تعالیٰ ہے اورہم ضرورتمہیں آزمائیں گے (کبھی)خوف اور(کبھی)بھوک (کبھی)جان
مال وثمرات (دنیاوی نعمتوں اور اولاد) کی کمی کے ذریعے اور(ایسے حالات میں)
صبرکرنے والوں کو(جنت کی بشارت)دے دیجیے۔﴿سورۃ البقرہ آیت ۱۵۵﴾آپؓ کی
پیدائش کے ساتھ ہی آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی خبرمشہورہوچکی تھی
حضرت ام سلمہّ فرماتی ہیں کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے
ارشادفرمایاکہ جبرائیل امین ؑ نے مجھے خبردی ہے کہ میرافرزندفرات میں
شہیدکیاجائے گامیں نے جبریل امین سے کہاکہ ان کے مقتل کی مٹی لاکردکھاؤپس
یہ مٹی وہاں سے لائے ہیں وہ مٹی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے حضرت
ام سلمہرضی اﷲ تعالیٰ عنہا کودے دی اورفرمایاجب یہ مٹی خون بن جائے گی تووہ
میرے بیٹے کے قتل کادن ہوگا۔ترمذی شریف کی جلدثانی میں ہے ایک عورت کہتی ہے
محرم کی دسویں تاریخ کومدینہ طیبہ میں حضرت ام سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکی
خدمت اقدس میں حاضرہوئی میں نے دیکھاآپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہارورہی ہیں میں نے
رونے کی وجہ پوچھی توام المومنین رضی اﷲ تعالیٰ عنہانے فرمایامیں نے ابھی
ابھی خواب دیکھاہے کہ رسول انورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے
سرانورمبارک اورریش مبارک میں گردوغبارہے میں نے عرض کیایارسول اﷲ صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم یہ کیابات ہے توآپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم
نے فرمایا!میں ابھی کربلاسے آرہاہوں آج میراحسین قتل کردیاگیاہے.حضرت ام
سلمہرضی اﷲ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ مجھے وہی مٹی یادآگئی جونواسٔہ رسول
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی پیدائش کے وقت جبرائیلؑ نے میدان کربلاسے
لاکرحضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کودی تھی اورنبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ والہٖ وسلم نے وہ مٹی مجھے دے کرفرمایااس مٹی کواپنے پاس رکھوجس دن
میراحسین قتل ہوگایہ مٹی خون بن جائے گی ۔حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ میں
نے وہ مٹی دیکھی توخون بن چکی تھی اس مٹی کومیں نے شیشی میں سنبھال
کررکھاہواتھا۔میدان کربلامیں عظیم مصائب کے وقت بھی آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہنے
دن اﷲ کے کلام کی تلاوت میں بسرکیے اورراتیں رکوع وسجودمیں گزاریں انتہایہ
ہے کہ جب آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کوشہیدکیاگیااس وقت بھی آپؓ اﷲ پاک کے
حضورسجدہ میں تھے ۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اورآپ کے ساتھیوں کودس ۱۰محرم ۶۱ہجری
مطابق ۱۰اکتوبربروزجمعہ ۵۶سال ۵ماہ اور۵دن کی عمرمیں شہیدکردیاگیا۔اناللّٰہ
واناالیہ رٰاجعو نآپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہکی شہادت سے ہمیں یہ سبق ملتاہے کہ
انسان پرجتنی مصیبتیں آجائیں صبرسے کام لیں اورظالم جابرکے سامنے نہ
جھکیں۔ہروقت اﷲ کی عبادت کریں آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی سیرت سے یہ معلوم
ہواہے کہ آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے شہادت کے وقت بھی سرسجدہ میں رکھ کریہ
ثابت کردیاکہ سیدناامام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہکل کربلاکے میدان میں بھی
سجدہ میں تھے اورآج تک سجدہ میں ہیں آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کوسجدہ کرتے وقت
تولوگوں نے دیکھاتھاپرسجدہ سے سراٹھاناکسی نے دیکھااس کی اصل وجہ بھی یہی
تھی کہ جھکناہے تواﷲ پاک کی بارگاہ میں ہے ظالم جابرکے سامنے نہیں ۔
عشرہ ذی الحجہ اورعشرہ محرم الحرام میں ہونیوالے تاریخی واقعات
حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بیان کیاکہ ذی الحجہ کے اوّل
عشرہ میں اﷲ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی اوران
کواپنی رحمت سے نوازااس وقت وہ عرفہ میں تھے ۔عرفہ میں حضرت آدم علیہ
السلام نے اپنی خطاکااعتراف کیاتھا۔اسی عشرۂ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام
کو اﷲ تعالیٰ نے اپنی دوستی سے نوازا(اپنادوست اورخلیل بنایا)آپؑ نے
اپنامال مہمانوں کے لئے ،اپنی جان آتشِ نمرودکے لئے اوراپنے فرزند حضرت
اسماعیل علیہ السلام کوقربانی کے لئے پیش کیا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی
ذاتِ والاپرکماِ ل توکل ختم ہوگیا۔اسی عشرۂ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام
نے کعبہ شریف کی بنیادرکھی ۔اسی عشرۂ میں حضرت موسیٰ علیہ السلا م کواﷲ
تعالیٰ سے ہم کلامی کی عزت عطاہوئی ۔اسی عشرۂ میں حضرت داؤدعلیہ السّلام کی
لغزش معاف کی گئی اسی عشرہ میں لیلۃ المباہات (فخرومباہات کی رات)رکھی
گئی۔اسی عشرہ میں بیت رضوان ہوئی ۔اﷲ تعالیٰ فرماتاہے ۔ اِذْیُبَایِعُوْنَکَ
تَحْتَ الشَّجَرَۃِ جس درخت کے نیچے یہ بیعت ہوئی وہ سمرہ ،کیکر(ببول )کادرخت
تھا۔یہ بیعت حدیبیہ کے مقام پرہوئی ۔اس وقت صحابہ کرام کی تعدادچودہ
یاپندرہ سوتھی ۔ سب سے پہلے حضرت ابوسنان اسدیؓ نے بیعت کے لئے ہاتھ
بڑھایاتھا۔اسی عشرہ میں یومِ ترویہ۸،یوم عرفہ۹،یوم نحر۱۰ہے اوریوم حج
اکبرہے ۔(غنیۃ الطالبین)
محرم الحرام کی دسویں تاریخ کوعاشورہ کہاجاتاہے اس دن اطاعت خداوندی
بجالانے والوں کوحق تعالیٰ بہت بلندمقام سے نوازتاہے علماء کرام فرماتے ہیں
کہ دسویں محرم کوعاشورہ اسلئے کہتے ہیں کہ اس روزاﷲ تعالیٰ نے دس انبیاء
کرام علیہم السلام کو دس اعزازعطافرمائے جسکی بناء پراسے عاشورہ کہاجاتاہے
۱۔اسی روزسیدناآدم علیہ السّلام کی توبہ قبول ہوئی۔اسی دن حضرت ادریس علیہ
السّلام کومقام رفیع پراٹھایاگیا۔حضرت نوح علیہ السّلام کی کشتی اسی روزکوہِ
جودی پرٹھہری۔اسی روزحضرت سیدناابراہیم علیہ السّلام پیداہوئے اوراسی روزاﷲ
تعالیٰ نے انکواپناخلیل بنایااسی دن سیدناحضرت ابراہیم علیہ السّلام کوآگ
نمرودسے بچایا۔اسی دن حضرت داؤدعلیہ السّلام کی توبہ قبول فرمائی اسی
روزحضرت سلیمان علیہ السّلام کو بادشاہی واپس لوٹادی گئی۔اسی دن حضرت ایوب
علیہ السّلام کی بیماری کازمانہ ختم ہوا۔اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السّلام
کودریائے نیل سے نجات دی اورفرعون کوغرق کردیا۔اسی روزحضرت سیدنایونس علیہ
السّلام کومچھلی کے پیٹ سے رہائی ملی اسی روزحضرت عیسیٰ علیہ السّلام
کوآسمان پراٹھالیاگیا اسی روز محبوب خدا،سرورانبیاء ،احمدمجتبیٰ حضرت
محمدمصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کانورتخلیق ہوا(غنیہ
الطالبین)عاشورہ کے دن کئے جانے والے دس اعمال ایسے ہیں جواﷲ تعالیٰ کے قرب
کاباعث ہیں۔۱۔روزہ رکھنا۲۔یتیم کے سرپرہاتھ پھیرنا۳۔دسترخواں کشادہ
کرنا۴۔صدقہ خیرات کرنا۵۔غسل کرنا۶۔سرمہ لگانا ۷۔بیمار کی عیادت کرنا۸۔پیاسے
کوپانی پلانا۹۔نفلی عبادت کرنا۱۰۔توبہ واستغفارکرنا،قبرستان جانا(غنیہ
الطالبین)
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہفرماتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ تشریف لائے تودیکھاکہ
یہودی عاشورہ کے دن کاروزہ رکھتے ہیں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے
ان سے پوچھاتم اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو ؟توانہوں نے کہایہ بڑا اچھادن ہے
اﷲ رب العزت نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام اوربنی اسرائیل کوان کے دشمنوں سے
نجات دی اورفرعون اوراسکے لشکرکوغرق کیاتھا۔اس موقع پرحضرت موسیٰ علیہ
السّلام نے اﷲ تعالیٰ کاشکر ادا کرنے کے لئے روزہ رکھا پس اس لئے ہم اس دن
کی تعظیم میں روزہ رکھتے ہیں اس پر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے
فرمایا"تم سے زیادہ ہم موسیٰ علیہ السّلام کی سنت پرعمل کرنے کے حقدارہیں "
پس آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے عاشورہ کے دن روزہ رکھااورصحابہ
کرامؓ کوروزہ رکھنے کاحکم دیا۔(بخاری)حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایاجوکوئی عاشورہ کے دن اپنے
اہل وعیال پرخرچ کرنے میں فراخی کرے گاتو اﷲ تعالیٰ اس پرساراسال وسعت
فرمائے گاحضرت سفیان ثوری ؒفرماتے ہیں کہ ہم نے اسکاتجربہ کیاتوایساہی
پایا۔حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمصلی اﷲ تعالیٰ
علیہ والہٖ وسلم نے فرمایاماہ رمضان کے روزوں کے بعدجس مہینے کے روزے افضل
ہیں وہ محرم الحرام ہے اور فرض نمازکے بعدسب سے افضل نمازرات (تہجد)کی ہے
۔(مسلم شریف)
حضرت ابوقتادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہسے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ والہٖ وسلم سے عاشورہ کے روزے کاپوچھاگیاتوآپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ
وسلم نے فرمایایہ گزشتہ سالوں کے گناہوں کو مٹادیتاہے ۔(صحیح مسلم،کتاب
الصیام باب استحباب صیام ثلاثہ)یہودکی مشابہت سے بچنے اوران کی مخالفت کرنے
کے لئے عاشورہ کے ساتھ 9محرم الحرام کاروزہ بھی رکھناچاہیے اگر9تاریخ
کاروزہ نہ رکھ سکیں توعاشورہ کے ساتھ 11محرم الحرام کاروزہ رکھ لیناچاہیے ۔حضرت
ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہسے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
والہٖ وسلم نے فرمایایہودیوں کے خلاف تم نویں ،دسویں اورگیارہویں محرم
کاروزہ رکھو(احمدبن حنبل)حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ
جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے عاشورہ کاروزہ رکھااوردوسروں کوبھی
اس دن روزہ رکھنے کاحکم دیاتوصحابہ کرام نے عرض کیایارسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ والہٖ وسلم!اس دن کی تویہودونصاریٰ عظمت کرتے ہیں توآقاصلی اﷲ تعالیٰ
علیہ والہٖ وسلم نے فرمایااگرآئندہ سال اﷲ نے باقی رکھاتونویں محرم کاروزہ
رکھوں گا۔(مسلم شریف)
اﷲ رب العزت اپنی رحمت کے صدقے اپنے محبوب علیہ الصلوٰۃ والسّلام اورنواسہ
رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے صدقے ہمارے تمام گناہ معاف فرمائے ۔اوربروز
قیامت محبوب علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شفاعت نصیب فرمائے ۔آمین بجاہ النبی
الامین۔ |