پیڑے ایدھر وی نے۔ پیڑے اوھدر وی نے

میں اس دفتر سے باہر نکلا تو جلدی میں تھا اس لئے وہاں سے تیز تیز پارکنگ کی طرف چلا۔لیکن وہاں سامنے میرا دوست کسی بزرگ کے ہمراہ میری ہی سمت میں آ رہا تھا۔ رکنا پڑا۔ میرے دوست نے تعارف کرایا، ’ یہ شا ہ صاحب میرے ماما جی ہیں، بھارت سے آئے ہیں۔ میں نے حیران نظروں سے دونوں کو دیکھا مگر کچھ پوچھنا مناسب نہ سمجھا۔ بزرگ بڑی شفقت سے ملے ۔ کہنے لگے بیٹا کبھی بھارت آؤ تو مجھے ضرور ملنا۔ اس سے میرا پتہ لے لینا۔ میں نے ہنس کر کہا۔ دو تین ماہ میں آ رہا ہوں۔ پوچھنے لگے گورداسپور بھی آ رہے ہو۔ جی ہاں،مجھے امرتسر، گورداسپور، پٹھانکوٹ، میکلوڈ گنج اور دہلی جانا ہے۔ ہنس کر کہنے لگے ۔ ’ تم نے مشکل آسان کر دی۔ گورداسپور سے پانچ چھ کلومیٹر پہلے مین سڑک پر ہی میرا گھر ہے۔ جس سواری پر ہو وہاں رک جانا۔ چار پانچ گھنٹے گپ شپ کریں گے پھر میں اپنی گاڑی پر تمہیں گورداسپور میں جہاں کہو گے چھوڑ آؤ ں گا۔شاہ صاحب سے بعد میں لاہور ہی میں چند اور بڑی خوشگوارملاقاتیں ہوئیں اور ایک پیار اور محبت کا دائمی رشتہ قائم ہو گیا۔

چند ماہ بعد میں بھارت گیا تو امرتسر میں دو دن قیام کے بعد گورداسپور روانہ ہوا۔ راستے میں بٹالہ کچھ دیر قیام کیا ، ایک ریسٹورنٹ سے چائے پی اور پھردوبارہ عازم سفر ہوا۔ گورداسپور سے تقریباً پانچ کلو میٹر پہلے روڈ پر ایک بہت بڑا گھر دیکھ کر میں نے گاڑی رکوا لی۔گیٹ پر کھڑے شخص سے میں نے پوچھا، ’ یہ شاہ صاحب کا گھر ہے‘۔ مثبت جواب ملنے پر میں نے اسے کہا کہ میرے بارے اندر اطلاع دے کہ لاہور سے آ یا ہوں۔ دو منٹ میں شاہ جی میرے سامنے تھے ۔ مجھے دیکھتے ہی شور مچ گیا اوئے جلدی آؤ، ہمارا بیٹا لاہور سے آیا ہے۔میں ان کے ساتھ گھر میں داخل ہوا تو ان کا بھائی بیٹے اور گھر کے سبھی افراد آ موجود ہوئے۔تعارف ہوا۔ ماما جی کا نام سردار دھیان سنگھ شاہ قلندرتھا۔ ان کا بھائی سردار پردھان سنگھ شاہ قلندر تھا۔ سارے بیٹوں کے نام کے آخر میں بھی شاہ قلندر ہی آتا تھا۔

میں نے ہنس کر کہاکہ ویسے تو شاہ کا مطلب بادشاہ ہوتا ہے لیکن ذات پات کے حوالے سے شاہ ہندوؤں میں بھی ایک مخصوص علاقے میں پائے جاتے ہیں لیکن سکھوں میں پہلی دفعہ شاہ دیکھے ہیں ۔ ویسے زیادہ تر شاہ مسلمانوں ہی میں ہوتے ہیں۔ہاتھ باندھ کر بڑے ادب سے بولے، ہمارے خاندان پر شاہ قلندر کا بڑا کرم ہے۔ یہ آج ہم جو بھی ہیں ان کے سیوک ہونے کی وجہ ہی سے ہیں۔جب سے ہم نے یہ ذمہ داری قبول کی ہے دنیا کی نعمتیں ہم پر بارش کی طرح برستی ہیں۔شاہ صاحب اٹھے ، میرا ہاتھ پکڑا اور گھر کی پچھلی طرف لے گئے۔گھر کی پچھلی دیوار سے پر ے تھوڑے فاصلے پر ایک بہت بڑا گاؤں تھا اور گاؤں اور گھر کے درمیان ایک مزار تھا۔ مزار پر لوگوں کابہت ہجوم تھا۔ شاہ صاحب بولے یہ قلندر شاہ صاحب کا مزار ہے اور 1947 کے بعد سے ہم ان کے سیوک ہیں۔ویسے تو جو دیتا ہے وہ اوپر والا ہی دیتا ہے۔مگر سچی بات یہ ہے کہ ہمیں جب بھی کچھ مانگناہو ہم شاہ صاحب کے مزار پر جا کر فریاد کرتے ہیں ۔ یوں لگتا ہے جیسے اوپر والا سامنے آ کر بات سننے لگا ہے۔ بڑا اطمینان ہوتا ہے۔میں مزار تک جانا چاہتا تھا مگر شاہ صاحب کہنے لگے کہ میرا گھر سڑک کنارے ہے ۔ راستے میں سڑک کنارے کہیں رکنا قابل اعتراض نہیں۔ مگر مزار تک جانے کے لئے اجازت یعنی ویزا درکار ہے جو آپ کے پاس نہیں اس لئے یہیں کھڑے کھڑے فاتحہ کہہ لیں۔یہ بھارت اور پاکستان ہی کی حکومتوں کا خاصہ ہے کہ آپ کو دوسرے ملک کا ویزہ تو کسی نہ کسی طرح مل ہی جاتا ہے مگر بڑا محدود اور وہ بھی بہت سی شرطوں سے مشروط۔

ہم واپس آ کر ڈرائنگ روم میں چائے پینے لگے۔میں نے ہنس کر کہا، شاہ جی ،آپ کو دیکھ کر میرا نظریہ کچھ بدل رہا ہے۔ میں سمجھتا تھا کہ سکھ ایک جھگڑالو قوم ہے۔ قتل و غارت کی عادی۔مگر آپ بڑی پیار کرنے والی شخصیت ہو۔شاہ جی نے ایک لمبی سانس بھری۔ بیٹا ٹھیک کہتے ہو۔ لیکن یاد رکھو ، تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔قصور دونوں فریقوں کا ہوتا ہے ، کسی ایک کا نہیں۔سچی بات یہ ہے کہ ’’ پیڑے ایدھر وی نے، پیڑے اوھدھر وی نے‘‘۔ یعنی برے ادھر بھی ہیں، برے ادھر بھی ہیں۔یہ ضرور ہے کہ کسی طرف سے ظلم زیادہ ہوا ہو گا، کسی طرف سے کم۔لیکن یاد رکھو ظالموں کا کوئی اپنا اور بیگانہ نہیں ہوتا، وہ شکار کرتے ہیں جو قابو آ جائے۔ ظالموں کا کوئی دھرم نہیں ہوتا۔ظلم کی داستانیں جس طرح تم پاکستان میں سنتے ہو ویسے یہاں بھی اسی طرح سنائی دیتی ہیں۔ کوئی خاص فرق نہیں سوائے ناموں کے۔

سردار دھیان سنگھ شاہ قلندر بتانے لگے ، پیچھے گاؤں میں دو اکٹھے مکان تھے ۔ ایک ہمارا جس میں میرے والد ، والدہ اورہم چار بھائی مقیم تھے۔ ساتھ والا گھر ہمارے چاچے بشیرے کا تھا۔ دونوں گھروں کے درمیان کھلا ہوا راستہ تھا ۔ چاچے بشیرے کی تین بیٹیاں تھیں۔ہم چاروں بھائی بڑے تھے اور وہ تینوں ہماری گود میں کھیلتی جوان ہو رہی تھیں۔ ہماری کوئی سگی بہن نہیں تھی بس وہ تینوں ہماری سگی بہن کی طرح تھیں۔ چاچے بشیرے کو کوئی ایسا کام ہوتا جو بیٹوں کے کرنے والا ہوتا تو ہمیں کہتا اور چاچے بشیرے کی بیٹیاں ہماری ماں کو بیٹی کی کمی محسوس نہ ہونے دیتیں۔پھر 1947 آگیا۔ پہلے پتہ چلا کہ ہمارا علاقہ پاکستان میں شامل ہو گا۔ ابا پریشان تھا۔ چاچا بشیرا حوصلہ دیتاتھا۔ پھر پتہ چلا یہ علاقہ بھارت میں شامل ہو رہا ہے۔ تین جوان بیٹیوں کا باپ ہونے کی وجہ سے اب چاچا بشیرا پریشان تھا۔ میری ماں تینوں کو اپنے گھر لے آئی۔ ہم چاروں بھائی کسی ناخوشگوار صورت سے نپٹنے کے لئے رات بھر پہر ہ دیتے۔ ویسے علاقے میں سب ہمیں جانتے تھے اور امید تھی کوئی جرآت نہیں کرے گا۔مگر حالات روز بروز بگڑتے گئے۔ گاؤں میں نئے نئے لوگ نظر آنے لگے جن کی آنکھوں میں حیا کم اور وحشت زیادہ نظر آتی تھی۔وہ انجان لوگ ہمیں بھی دھمکیاں دینے لگے۔ حالات زیادہ بگڑتے دیکھ کر ابا نے چاچے کو کہا، بھائی میری اور میرے بیٹوں کی زندگی میں میری بچیوں کو کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا لیکن صورتحال بگڑتی جا رہی ہے اور لگتا ہے زندگی سے ہاتھ دھو کر بھی ہم انہیں شاید نہ بچا سکیں۔ اس لئے بہتر ہے کہ تم پاکستان چلے جاؤ۔

یہاں سے سرحد صرف پانچ کلو میٹر ہے۔ شام ہوتے ہی ہم سب اپنی بیل گاڑی میں بیٹھے ، بندوقیں اور تلواریں ہاتھ میں لئے ہم چاروں طرف اور چاچے کے گھر والے درمیان میں۔ایک گھنٹے میں ہم چاچے بشیرے کے سب گھر والوں کو سرحد پر چھوڑ آئے۔ آج تقریباً 65 سال ہو چکے لیکن ہماراا بھائی بہن کا رشتہ سرحدوں کے باوجود ختم نہیں ہوا۔وہ تمہارا دوست میرا بھانجا ہے۔ چاچے بشیرے کا نواسہ۔ یہاں بھارت میں ہم بھائیوں کے گھر کی کوئی تقریب ہماری بہنوں اور ان کے خاندان کی شمولیت کے بغیر مکمل نہیں ہوتی اور یہی حال پاکستان میں ہماری بہنوں کا ہے۔ میرے دو بھائی اور ادھر دو بہنیں اب اس دنیا میں نہیں مگر بچوں نے بھی وہ رشتہ قائم رکھا ہوا ہے۔دونوں ملکوں کے خراب تعلقات کی وجہ سے ہمارے بچوں کی شادیوں میں بعض دفعہ دو دو سال رکاوٹ آئی ہے مگر ہم نے ایک دوسرے کا انتظار کیا ہے۔کیا کیا جائے ۔بس ہماری اوپر والے سے دعا ہے کہ دونوں ملک سلامت رہیں مگر آپس کی نفرتیں ختم کردیں۔ انسان اپنے پیاروں سے ملنے میں تو آزاد ہو۔ میں نے دیکھا شاہ جی بڑے اداس تھے اور ان کی آنکھوں میں کچھ آنسو جھلملا رہے تھے۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500472 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More