علامہ اقبال سے زیادہ مغرب کی چالوں کو کسی اورنے نہیں
سمجھااوراسی قدر یہ کہنا بھی بجا ہے کہ اس کا الٹ بھی درست ہے کہ مغرب پرست
طبقات سمجھتے ہیں کہ ایران وپاکستان میں جدید سامراج کی راہ میں سب سے بڑی
رکاوٹ اقبال ہے اورا س کا ثبوت یہ ہے کہ سال بعد نومبر میں ’’یوم اقبال‘‘کی
مناسبت سے اشعار وافکارِ اقبال کا جو اعادہ ہوتا ہے ٗ اس کا راستہ بندکرنے
کے لیے برطانیہ میں بسنے والے ایک گھرانے کو استعمال کرتے ہوئے گزشتہ سال
یوم اقبال کی تعطیل ختم کرنے کا اعلان کیا گیا اوراتنی شدت سے عمل کرایا
گیا کہ وزریر داخلہ نے اعلان کیا کہ جو تعلیمی ادارہ اس حکم پر عمل نہیں
کرے گا ٗ اُس کی رجسٹریشن کینسل کرکے بند کردیا جائے گا۔ راقم نے اپنی بے
بضاعتی کے باوجود یہ بیان دیا تھا کہ اس فیصلے کی روشنی میں حاکمِ وقت
نظریاتی رسک بن چکا ہے۔ آخر اس ملک کی کس اسمبلی یا پارلیمانی کمیٹی نے
’’ذکرِ اقبال ‘‘ختم کر نے کا مطالبہ کیا تھا۔ واضح رہے کہ اسی
’’نومولودبرطانوی فیملی‘‘کی سیاست کو کام میں لاکر پہلے جمعہ کی ہفتہ وار
چھٹی ختم کرکے اتوار کی چھٹی واپس لائی گئی ٗ پنجاب کا تعلیمی نظام
اصلاًانگریز کے ہاتھ میں دے دیا گیا اوراسی ہفتے نئے عارضی پرائم منسٹرنے
ملالہ کے حضور حاضری دے کر یہ ناجائز اعلان بھی کیا کہ یہ مسلمان خواتین کے
لیے رول ماڈل ہے (جب کہ وہ تو جانی پہچانی مغربی ایجنٹ ہے جسے بچپنے میں
اٹھا لیا گیااورسدھائی جارہی ہے کہ تادیر سامراجی مقاصد حاصل کیے جاسکیں)۔
علامہ اقبال نے اپنے مشہور شعر میں حق وباطل کے اس ابدی معرکے کا ذکر کیا
ہے کہ ’’ستیزہ کاررہا ہے ازل سے تاامروز۔ چراغِ مصطفوی سے شرر بولہبی ‘‘۔اس
حقیقت کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے اگر اہم کچھ غوور اورتدبّر سے کام لیں ۔ سب
سے پہلے این جی اوز کے ماضی وحال پر غور کریں کہ کس طرح خدمت ومحبت اورآگہی
کا علم بردار بن کر تہذیب وثقافت ٗ خواتین اورنوجوانوں کے شعبوں میں
قیامتیں ڈھائی گئیں ۔ آخر کار بلیک واٹرز اورریمینڈ ڈیوس بھی اسی کھاتے میں
مسلط ہوگئے ۔ ٹین ایجرز کو تفریحی کیمپوں میں گرمائی مقامات پر اختلاط کی
سرگرمیو ں کا رسیا بنایا گیا۔ راقم نے اس صدی کے ابتدائی سالوں میں
گوجرانوالہ کالج کی پرنسپلی کے حوالے سے نوجوانوں پر تہذیبی لحاظ سے حملہ
آور ایسی ملک سکیموں سے قدرے آگاہی حاصل کی اور ممتاز ماہرین سے رابطے بھی
کیے ۔ این جی اوز تو ایک ایسا کھلا کھاتہ بن گیا کہ حکومتی سیکرٹریوں سے لے
کر گلی کوچوں کو بے روزگاروں تک اس نیٹ ورک میں ملوث ہوتے گئے۔ سابقہ
مشیروں میں ’’دہشت گردی‘‘کے عنوان نے دن دگنی رات لاکھ گنی ترقی کی۔
افغانستان پر یلغار کے کتنے ہی لشکر میدان میں آئے۔ عالمی نیو کلیئر پاورز
کے انسانیت سوزمظالم کی تاریخ عشروں تک رقم ہورہی ہے ۔ ایک نیا کھیل یہ ا
یجاد ہوا کہ مسلمان ملکوں میں’’مغرب ساختہ‘‘جہادی اور’’اسلامی‘‘لشکر تیار
کیے گئے جن کے پیچھے ’’امریکا اوراسرائیل‘‘جیسے ملکوں کے شہ دماغ ذہنی
انجینئر ز کاوشیں کرتے رہے ۔ کیا عجوبہ ہے کہ یہودونصاریٰ ’’اسلامی خلافت
اورجہاد‘‘جیسے نعروں کے تحت عالمی خصوصاًمشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے لیے نئے
سے نیا شوشا تیار کرتے اوراسے زبردست سرپرستی میں لانچ کرکے اس کے خلاف توپ
خانے کے منہ کھول دیتے اورانہیں دہشت گرد بنا کر ان کی بیخ کنی کے لیے
سرگرم عمل ہوتے ہیں۔کیا شام ٗ عراق ٗ افغانستان ٗ لیبیا میں بے گناہ
اورمعصوم انسانوں کے قتل وخون کے اعداد وشمار کسی کے پاس ہیں۔ کہاں نام
نہاد’’ہولوکاسٹ‘‘کی دردناک سچائیاں مگر اسلحہ کی طاقت پر’’جو چاہے آپ کا
حسن کرشمہ ساز کرے‘‘۔ ایک جانب جہادی گروہ تخلیق کرکے گالی بنا دیئے جاتے
اوراس نام پر شام وعراق وغیرہ مقامات پر خونخواری کے نئے ریکارڈ قائم کیے
جاتے ہیں اورمغرب کا کمال دیکھئے کہ ہزاروں لاکھوں معصوموں کو بموں کا
نشانہ بناتے ہوئے یک دم ایک خوبصورت گڑیا اٹھا کر نوبل انعام سے لے کر ہر
ملک وقوم کے ایوارڈوں سے لاد دیا جاتا ہے اورایک سپرہیومن ملکوتی وجود قرار
دے کر اسلامی دنیا کی تعلیم وتہذیب اورثقافت میں مغربی اقدار پر مبنی
انقلاب برپا کرنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ مغرب کی ایجنٹ ساز پالیسی کی
داد نہ دینا کم ظرفی کی بات ہے ۔ کسی زمانے میں لارنس آف عریبیا سے کام لیا
گیا تھا جب کہ آج اس سے زیادہ اہم تہذیبی مشن پر یہ نوبیل انعام یافتہ بچی
اس عمر میں مامور کی گئی ہے تاکہ یہ پوری صدی اس کی کارستانیوں کے نام کی
جاسکے۔مغرب اپنے ایجنٹوں کی سرپرستی میں کبھی کوتاہی نہیں کرتا۔ گورداسپور
میں اس نے جو کمال دکھایا تھا اورداعش کے پیچھے جو دماغ سوزی کی گئی اس سے
کہیں بڑھ کر ملالہ سازی کے لیے سامراجی فیکٹریوں میں کام ہوا اورہورہا ہے
اورتہذیبی ڈی این اے مالیکیول ایسا تیار کیاجارہا ہے جس کی مداح سرائی وقت
کے بادشاہ ٗ صدور ٗ وزرائے اعظم وغیرہ سب سے پہلے کریں اوربے چاری فریب
خوردہ قوم کو یہ خیال بھی نہ گزرے کہ اس مقدس جام کے نام پر ہمیں کیا مہلک
مشروب پلایا جارہا ہے جو دشمن کی آنے والی نسلوں کو یوں برباد کریں کہ بقول
اقبال:’’سونے کا ہمالہ ہوتومٹی کا ہے اک ڈھیر‘‘۔ایک اوردلچسپ پہلو یہ ہے کہ
نصف صدی قبل اہم منصوبوں ٗ چالوں اورسازشوں کے لیے چند دن لندن میں خاص
میٹنگ ہوتی اور’’لندن پلان‘‘کا ذکر اخباری سرخیوں میں ہوتا۔اب معاملہ آگے
بڑھ کر ’’لندن مقام‘‘تک پہنچ گیا ہے کہ مغرب اپنے مہروں کو ان کی اولادوں
سمیت اپنے پاس ہی ٹھکانہ مہیا کرتا ہے اوروہاں کے نوازے گئے لوگ بتائی گئی
پالیسی کے مطابق پاکستان اوردودسرے ملکوں میں سامراجی خدمات سرانجام دیتے
ہیں ۔ الطاف ٗ نواز ٗ بلاول ٗ زرداری وغیرہ چہرے اسی حوالے سے سمجھے جاسکتے
ہیں۔جب آپ کی اولادیں ٗ جائیدادیں ٗ امدادیں ٗ مرادیں سب مغرب سے وابستہ
ہوجائیں گی تو پھر سوائے سامراجی کارستانیوں کی تکمیل کے آپ کے پاس کرنے کا
کام کیا رہ جائے گا۔ ہم ایک عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ امریکہ اوراس کے
حواریوں نے اسلامی دنیا پر اتنا کچھ ’’عمل ‘‘کرڈالا ہے ٗ گاجر ٗ مولی
اورقیمے کی طرح وہ کچھ کردیا ہے کہ اب فطری ردعمل اورقرض اتارنے کا مرحلہ
آنا لازمی ہے ۔ ہم نہیں جانتے اورجدید صلاح الدین کب اورکہاں نمودار ہوگا
تاہم تاریخ کے صفحات اب اسی کے منتظر رہیں گے۔کائنات کے ربّ نے اعتدال ٗ
توازن (چیک اینڈ بیلنس )کا قانون ازل سے قائم کررکھا ہے اورجب کوئی فرعون
اس کائناتی توازن کو بگاڑتا ہے تو اسے غرق کرکے لمحوں میں بے نام نشان
کردیا جاتا ہے ۔ نمرود کو مچھر کے ذریعے رسوا کرنا اس کے لیے بہت آسان ہے ۔
کشتی ٔ نوحؑ کا واقعہ محض پڑھنے پڑھانے کے لیے نہیں آیا۔ |