زندگی میں زندگی کا احساس

 خوشی کا احساس کیسے ہو سکتاہے اِس حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم خوشی کے ساتھ کتنے روابط قائم رکھے ہوئے ہیں۔خوشی کے ساتھ روابط کا مطلب یہ ہے کہ ہم خوشیاں بکھیرنے کے لیے کتنی سعی کرتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے ہمیں وہی چیز میسر آسکتی ہے جو چیز ہم دوسروں کو دئے رہے ہیں۔میرئے دوست ہیں ڈاکٹر عرفان ایک دفعہ اُنھوں نے مجھے ایک انگریزی جملہ کہا تھا کہ اگر تم کسی کو بغیر مسکراہٹ کے دیکھو تو اُسے اپنی مسکراہٹ دے دو۔ اب جناب خود ہی اندازہ لگا لیجیے کہ کتنا خوش قسمت ہوگا جو دوسروں میں مسکراہٹ تقسیم کرتا ہے۔ کہنے کو تو یہ بہت آسان سی بات لگتی ہے اور ہے بھی آسان اُس کے لیے جو اپنے خالق و مالک کا شکر ادا کرتا ہے۔ اِسی لیے کہا گیا کہ جو اپنے ہم عصر دوستوں کو شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اپنے خالق کا بھی شکریہ ادا نہیں کرتا۔ اِسی طرح ایک دوست جو کہ اِس وقت ایک کامیاب ڈاکٹر ہیں اور خود بھی اپنی زندگی سے مطمن ہیں اور اﷲ کی مخلوق بھی اُن سے مطمن ہے۔ وہ بچپن آج سے تیس سال قبل جب ہم بیس سال کے تھے مجھے کہا کرتے تھے کہ کاونٹنگ نہ کیا کرو ۔ جو مل گیا وہ ٹھیک ہے شکر کرو۔ مجھے حیرانی ہوتی ہے اُس دوست پہ کہ وہ بیس سال کی عمر میں بھی کتنا میچیور تھا اور واقعی وہ شخص مطمن زندگی بسر کر رہا ہے ۔اِس لیے دوستو: اگر ہم زندگی میں اپنا وطیرہ بنا لیں کہ ہم ہر وقت اﷲ پاک کا شکر ادا کریں اور اپنے آس پاس کے لوگوں میں آسانیاں تقسیم کریں۔ اﷲ پاک بے نیاز ہے اور وہ جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلت۔ اﷲ پاک کا جب قرب حاصل ہوجائے تو پھر اﷲ کی دوستی میں تو پھر اﷲ عزت سے نوازے گا۔ اِس لیے جب ہم اﷲ پاک سے دوستی کا دم بڑھتے ہیں تو اِس کامطلب یہ ہے اﷲ پاک کی باتیں بھی مانتے ہیں۔ جب ہم اﷲ پاک کی مانتے ہیں تو پھر اﷲ پاک بھی ہماری سُنتا ہے۔ اور اﷲ تو ستر ماؤوں سے زیادہ محبت اپنی مخلوق سے کرتا ہے تو پھر اﷲ پاک ہمیں کیسے ذلت دے گا۔ اﷲ کی دوستی قناعت سے مالا مال کردیتی ہے اور قناعت مومن کے لیے وہ عظیم قدرت کا صلہ ہے کہ موومن پھر دُنیاؤی آقاؤں کیمحتاجی سے بچ جاتا ہے۔ اِک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات۔تو دوستوں پھر بات تو یہ ہی سمجھ میں آتی ہے کہ وہ شخص جو اﷲ پاک کی مخلوق سے محبت کرتا ہے اُسے پھر بدلے میں جو روحانی خوشی و سکون میسر آتا ہے اُس کا کوئی بدل نہیں ہوتا۔ یوں جب انسان اِس سٹیٹ آف مائنڈ سے ہم آہنگ ہوجاتا ہے تو پھر اُسکو حقیقی خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ اُس کے لیے مادیت کی حقیقت مُردار سے زیادہ اور کچھ نہیں ہوتی۔ دُنیاوی زندگی اُس کے لیے ایسا سفر شمار ہوتا ہے جس نے بہت سرعت کے ساتھ طے ہوجانا ہوتا ہے۔ زندگی میں ابدیت نہیں ہے زندگی لافانی نہیں زندگی ایک ایسی پگڈنڈی ہے جس پر وہی زیادہ پُرسکون ہوسکتاہے جس کے پاس مادیت کے اسباب کم ہوں اور اُخروی زندگی کے اسباب زیادہ ہوں۔ اُخروی زندگی کے لیے راستہ بہت آسان ہے۔ اِس کے لیے کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ جو چیز فطرتی تقاضوں کے خلاف ہے وہ انسان نہ کرئے۔ بھلا کرئے اُس کے ساتھ بھلا ہوگا۔ اگر کسی دوست کے ساتھ ہماری ناراضگی ہے ہمیں ایک دفعہ اُس کو احساس دلا کر اُس سے معذرت کرلینی چاہیے کیونکہ ایسا کرنے سے اُس ناراض دوست کا دل جیتا جاسکتاہے۔ معذرت کر لینے سے یہ نہیں ہوتا کہ ہم چھوٹے ہو گئے ہیں یا اُس کی شان میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اِس سے ہمارا ضمیر مطمن ہوجائے گا۔ اور پچھتاوا جو ہمیں اندر ہی اندر سے ملامت کر رہا ہوتا ہے اور وہ پچھتاوا ہمار دُشمن بن جاتاہے اگر اُس کا تریاق نہ کیا جائے۔ اپنے اندر اپنا ہی دُشمن پالنے سے پھر انسان روحانی سکون سے محروم ہوتا چلا جاتا ہے اور وہ پھر ڈیپرشن کا شکار ہوجاتا۔ بات کرلینی چاہیے بات کرنے سے بات بن جاتی ہے کیونکہ بات کرنے سے مزید باتیں کرنے اور سُننے کا موقع ملتا ہے یوں باتیں کرنے سے نفس مطمن ہوجاتا ہے۔ ہمارئے ایک بہت پیارئے دوست ہیں جاوید مصظفائی وہ میرئے سکول کے کلاس فیلو ہیں۔ وہ ہمیشہ خوش رہتے ہیں اﷲ پاک نے اُن کو عزت سے نوازا ہوا ہے اور دُنیاوی رفعتیں عطا کی ہیں لیکن جاوید صاحب انتہائی مطمن انسان ہیں۔وہ بے شک دُنیاداروں کے چنگل میں پھنسے ہوں جو ہر وقت انا پرستی کا شکار ہوں وہ مطمن رہتے ہیں اُن کے اندر مال و دولت کی وجہ سے کوئی بے چینی پیدا نہیں ہوتی۔ اُن کے اندر رونا دھونا نہیں ہے ۔ مجھے جب بھی ڈیپریشن ہو، بے چینی ہو میں فوری طور پر جاوید صاحب سے فون پر بات کرلیتا ہوں مجھے سکون مل جاتا ہے۔ ہر کسی کا کوئی ایسا دوست ضرور ہونا چاہیے جس سے دل کی ہر بات کی جاسکے۔

MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 453 Articles with 430019 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More