طلبا کی مجروح عزت نفس

عزت نفس کسی بھی انسان کے لیے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ ہمارے طلبا و طالبات اسی وقت معاشرے میں بھرپور تعمیری کردار ادا کرسکتے ہیں کہ جب وہ اعتماد کی دولت سے بھرپور ہوں۔جبکہ عزت نفس مجروح ہونے کی صور ت میں اعتماد کی کمی ہمیں بکثرت طلبا میں نظر آتی ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام میں اس نقص کو دور کرنا نہایت اہم ہے۔ خود اعتمادی کی کمی ہی وہ وجہ ہے کہ جس کے باعث ہمارے گریجوایشن اور ماسٹرز کرنے والے طالب علم بھی عملی میدان میں کوئی بھی کردار ادا کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ آپ بی اے پاس یا ایم اے پاس طالب علم کو کسی بھی موضوع پر دو منٹ بات کرنے کا کہہ دیں ، وہ ہونقوں کی طرح آپ کا منہ دیکھے گا۔پہلا جواب عموما یہی ملتا ہے کہ یہ ہمیں پڑھایا نہیں گیا ۔ حالانکہ یہ انتہائی بھونڈا جواب ہے۔ کیونکہ تعلیم کا مقصد صرف نصاب کی کتابیں رٹنا نہیں ہوتا بلکہ طلبا کے لیے علم وآگہی کے دروازے کھولنا ہوتا ہے تاکہ وہ جی بھر کر اپنے علم کی پیاس بجھا سکیں اور معاشرے کو درپیش مسائل کا حل دریافت کریں۔مگر ہمارے ہاں صورحال برعکس ہے ۔تعلیمی اداروں سے فارغ ہونے والے طلبا مسائل حل کرنے کی بجائے خود مسائل کی وجہ بن رہے ہیں۔

مثلا یونیورسٹی یا کالج کے نوٹس بورڈپر تعلیمی وظائف حاصل کرنے والے طلبا و طالبات کی فہرست آویزاں کی جاتی ہے۔ اگر یہ وظائف تعلیمی قابلیت یا اعلی کارکردگی کی بیناد پر ہوں تو طلبا نوٹس بورڈ پر اپنا نام دیکھ کر یقینا خوشی محسوس کرتے ہیں اور اسے اپنے لیے ایک اعزاز تصور کرتے ہیں ۔ مگر ایسے طلبا جو اپنے مالی حالات کے باعث مجبور ہوں اور ضرورت کی بنیاد پرانہیں تعلیمی وظائف دیے جائیں تو ان کا نام نوٹس بورڈ پر آویزاں کرنا سراسر تذلیل ہے ۔ جس طالب علم کو ضرورت کی بنیاد پر تعلیمی وظیفہ دیا جاتاہے اس کی عزت نفس اس اعلان سے مجروح ہو کر رہ جاتی ہے۔ تعلیمی ادارے کے تمام طلبا و دیگر لوگ اس بات سے واقف ہوجاتے ہیں کہ فلاں طالب علم اس قدر غریب ہے کہ اس کے والدین تعلیمی اخراجات کا بوجھ برداشت نہیں کر پارہے اسی لیے وہ حکومت یا دیگر تعلیمی وظائف دینے والوں سے مدد کا خواہاں ہے۔ بظاہر یہ صورتحال اس قدر سنگین محسوس نہیں ہوتی ہے مگر جس طالب علم کا نام یوں نوٹس بورڈ پر آویزاں ہوتاہے ، اس کی حالت بہت عجیب ہوتی ہے۔ ایسا طالب علم اعتماد کی کمی کا شکار ہوتا ہے۔ یوں وہ تعلیمی میدان میں تو شاید نمبر وغیرہ لے کر امتحان پاس کرلے مگرعملی زندگی میں ہمیشہ کے لیے اعتماد کی کمی اس کا مقدر ٹھہر جاتی ہے۔ ایسے طالب علم اپنے تعلیمی ادارے میں بھی نظریں چراتے پھرتے ہیں۔ یہ بات بجا ہے کہ بہت سے طالب علم دھوکہ کے ذریعے اپنے آپ کو غریب ظاہر کرتے ہیں اور یوں کسی کا حق مارتے ہوئے ان پیسوں سے عیاشی کرتے ہیں ۔ ایسے طلبا کے لیے یہ معاملہ بالکل معمول کے مطابق ہے ۔ مگر کوئی بھی حقدار طالب علم اس میں نہایت سبکی محسوس کرتا ہے کہ اس کی غربت کا چرچا ہو اور ہر کوئی اس کے حالات سے واقفیت حاصل کرے۔ معاملہ صرف طالب علم کا نام نوٹس بورڈ پر آویزاں کرنے تک محدود نہیں ہے بلکہ تعلیمی وظائف کے لیے کیے جانے والے انٹرویو بھی اس معاملے میں سنگین کردار ادا کرتے ہیں۔ طالب علم سے ایسے ایسے سوالات پوچھے جاتے ہیں کہ جو اس کی عزت نفس کو مجروح کرنے میں بھرپور کردار اد اکرتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ طالب علم کی تحقیق کرنا ضروری ہے کہ آیا وہ مستحق بھی ہے یا نہیں مگر تحقیق کرنے اور طالب علم کو زچ کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے اور ہمارے ارباب اختیار کو اس فرق کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔

ایک طالب علم جب سکول میں اپنے تعلیمی سفر کاآغاز کرتا ہے تو اس موقع پر اسے بھرپور اعتماد دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر اس کا اہتمام بہت شاذ ہے۔عمومااس کا آغاز طلبا کی سزا سے ہوتا ہے۔ کسی بھی طالب علم کی غلطی پر پوری کلاس کے سامنے اسے بے عزت کیا جاتا ہے ۔ ایسے موقع پر بہت کم یہ اہتمام ہوتا ہے کہ طالب علم کی غلطی کا اصل محرک جانتے ہوئے اسے غلطی سدھارنے کا موقع دیا جائے۔بلکہ پہلی ہی غلطی سنگین شمار ہوتی ہے اور طالب علم دو صورتوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ اولا ًوہ اعتماد کی کمی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اپنی صلاحیتوں کا کھل کر اظہار نہیں کر پاتا ہے ۔یوں ایک با صلاحیت نوجوان معمولی سی غلطی کے باعث اپنی صلاحیتوں سے محروم ہوجاتا ہے۔ دوئم ایسا طالب علم وقت گزرنے کے ساتھ ڈھیٹ ہوجاتا ہے اور اس پر بعد ازاں کسی مار یا ڈانٹ کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔ یہی طالب علم جب عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے تو ایک بے حس فرد کاکردار اداکرتا ہے جسے معاشرے میں ہونے والی ناانصافیوں سے کچھ خاص غرض نہیں ہوتی ہے۔ یوں ایک بے حس معاشرہ وجود میں آتا ہے۔

مزید براں کالج اور یونیورسٹی میں بھی اس معاملے پر کچھ خاص دھیان نہیں کیا جاتا۔ بلکہ عموما کلرک اور دیگر عملہ طلبا کی تذلیل کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ہے۔فیس بھرنی ہو یا معمولی نوعیت کا کوئی بھی کام ہو اس کے لیے طلبا سے بلا مقصد چکر لگوانا اور ان کو ذلیل کرنا ان افراد کا وطیرہ بن چکا ہے۔ اس کلچر کے باعث طلبا میں ایک سنگین خرابی در آتی ہے جسے چاپلوسی کہا جاتا ہے ۔ طلبا عموماً اساتذہ ا ور دیگر ماتحت عملے کی چاپلوسی کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ انداز بعد ازاں ان طلبا کی عادت بن جاتا ہے اور عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد بھی یہ عادت ان میں موجود رہتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے معاشر ے میں تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل طلبا کی اکثریت چاپلوسی کے ذریعے اپنا کام نکلوانے کی کوشش کرتی ہے۔

متذکرہ بالا مسائل بظاہر بہت معمولی نوعیت کے ہیں مگر درحقیقت ان ہی مسائل کے باعث ہماری معاشرتی زندگی میں بہت سا بگاڑ در آیا ہے۔ ابتدا بہت معمولی عمل س ے ہے کہ جس میں طالب علم کی عزت نفس مجروح کی جاتی ہے مگر اس کا نجام نہایت خطرناک ہے۔ ان حالات میں ہمارے ارباب اقتدار اور وزارت تعلیم کو سنجیدگی سے اس مسئلہ پر غوروخوض کی ضرورت ے۔ بہت سی دیگر وجوہات کے ساتھ ان مسائل کی ایک بڑی وجہ طلبا میں اعتماد کی کمی ہے اور یہ اعتماد میں کمی اس باعث ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں طلبا کی عزت نفس کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ سکول،کالج اور یونیورسٹی ہر جگہ طلبا کی عزت نفس کو مجروح کرنا پسندیدہ مشغلہ ہے۔

آج ضرورت اس امرکی ہے کہ تعلیمی اداروں کے ماحول کو بہتر بنایا جائے اور ان میں طلبا کی اعتماد سازی کے حوالے سے خصوصی اقدامات اٹھائے جائیں۔ کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے یہ امر نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ اس کے تعلیمی اداروں سے فارغ ہونے والے اعتماد کی دولت سے بھرپور ہوں۔ صرف اسی صورت میں وہ معاشرے کی تعمیر و ترقی میں پنا کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ بصورت دیگر یہی طلبا جب علمی میدان میں قدم رکھتے ہیں تو سنگین معاشرتی برائیوں کے فروغ پانے کا خطرہ موجود رہتا ہے۔

اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے اساتذہ کی تربیت کی ضرورت ہے۔ ایسے پروگرامات کا آغاز کیا جائے جن میں اساتذہ کو بالخصوص طلبا میں اعتماد سازی کے حوالے سے ورکشاپس کروائی جائیں۔ کیونکہ ہمیں اپنے مسقتبل کو مزید روشن کرنے کے لیے ایسے اقدامات اب ناگزیر ہیں
 

Munzir Habib
About the Author: Munzir Habib Read More Articles by Munzir Habib: 193 Articles with 119034 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.