معاشرے کو ان پڑھ غریب مصیبت زدہ محنت کش بےپردہ عورت سے کوئی مسئلہ نہیں

ایک بڑے اور بہت معروف نیوز چینل نے اپنے سوشل میڈیا پیج پر پاک آرمی کی ایک میڈیکل آفیسر کی میجر جنرل کے عہدے پر تعیناتی کے بارے میں خبر ان کی تصویر کے ساتھ پوسٹ کی ۔ اور حسب دستور ایک ذہنی بیمار نے اپنی گھٹیا سوچ کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ اس کے چہرے پر پھٹکار برس رہی ہے اور ایسی عورتیں گھریلو نہیں رہتیں ۔ ہم نے لکھا کہ " ایک سویلین لیڈی ڈاکٹر بھی گھریلو عورت نہیں ہوتی اس کی شکل بھی ایسی ہی ہوتی ہے مگر ان بدزبانوں کی بدبختی کہ انہیں اسی پھٹکار ماری عورت کی وجہ سے تھوک کر چاٹنا پڑتا ہے اپنی گھریلو عورتوں کے بیمار پڑنے پر اسی گنہگار عورت کی مدد اور محتاجی کا سامنا کرتا پڑتا ہے ۔ "

ہمارا یہ کمنٹس سینکڑوں لائکس کے ساتھ ٹاپ پر گیا بیس پچیس لوگوں نے ریپلائز میں اتفاق رائے کا اظہار کیا کسی ایک نے بھی اختلاف نہیں کیا ۔ پانچوں انگلیاں ایک جیسی نہیں ہوتیں ۔ موجودہ دور میں لڑکیوں کے لئے اچھی تعلیم و تربیت کتنی ضروری ہے بیشتر لوگوں کو اس کا ادراک ہے یہی وجہ ہے کہ لاکھوں لڑکیاں اسکولوں کالجوں میں پڑھ رہی ہیں کچھ بن کر نکل رہی ہیں اور زندگی کے مختلف شعبوں میں سرگرم عمل ہیں مگر یہیں ایک ٹولہ ایسا بھی ہے جو اپنی بچیوں کو تعلیم تو کیا ووٹ کے لائق بھی نہیں سمجھتا ۔ اور انہی کی پڑھائی ہوئی پٹیاں ہوتی ہیں کہ کچھ عقل کے اندھے گانٹھ کے پورے ایک تعلیمیافتہ پروفیشنل عورت کو ایک طرف تو نہایت حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور دوسری طرف جب اپنے سر پر پڑتی ہے تو اسی عورت کے آگے دُم ہلاتے پھرتے ہیں ۔ ان کی ساری شریعت دھری رہ جاتی ہے ۔

ایک بےحد معزز اور قابل خاتون فوجی میڈیکل آفیسر سے متعلق پوسٹ پر ایک ایسے ہی پرلے درجے کے جاہل منافق نے انتہائی ناشائستہ ریمارک پاس کیا ۔ جب ہر طرف سے پھٹکاریں پڑیں تو موصوف نے اپنی بدتمیزی پر شرمندہ ہونے کی بجائے پورے ادارے پر بہتان باندھ دیا کہ یہاں کسی کی عزت محفوظ نہیں ہے اور یہاں کوئی عورت باعزت نہیں رہ سکتی ۔ پھر جب گالیوں کے ساتھ کسی جانب سے سنگین نتائج کی دھمکیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا تو اپنے سارے نازیبا کمنٹس ڈیلیٹ کر دیئے پھر معذرت کی بھی تو ساتھ ہی پھر وہی رٹ کہ عورت گھر میں بہتر ہے ۔ ہم کب کہتے ہیں کہ عورت گھر میں بہتر نہیں ہے؟ عورت اگر اپنی قابلیت اور صلاحیت سے کسی اعلا مقام پر پہنچتی ہے تو بہت سے لوگوں کو فوراً دین یاد آ جاتا ہے ۔ یہی عورت جب کھیتوں میں کام کرتی ہے بوائی کرتی ہے فصلوں کی کٹائی اور چُنائی میں حصہ لیتی ہے کنوئیں یا چشمے سے پانی بھر کر لاتی ہے لکڑیاں کاٹ کر لاتی ہے مویشی چَراتی ہے ان کے فُضلے سے اُپلے تھاپ کر ایندھن تیار کرتی ہے ڈھابہ چلاتی ہے تنور پر روٹیاں لگاتی ہے گھروں میں جھاڑو پونچھا کرتی ہے لوگوں کے برتن مانجھتی ہے مچھلیاں اور جھینگے صاف کرتی ہے بھٹہ خشت پر بیگار بھرتی ہے تعمیرات میں معاونت کرتی ہے محنت مزدوری اور جفاکشی میں کہیں پیچھے نہیں رہتی اور ظاہر ہے کہ یہ سارے کام برقعہ پہن کر نہیں کئے جا سکتے تب تو کسی فتوے باز کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا ۔ عورتوں کے ان سارے کاموں کو بند کروا کے انہیں گھروں میں بند کرنے کی بات کبھی کوئی نہیں کرتا ۔ اصل میں ہمارے معاشرے کو مسئلہ عورت کے باہر جا کر کام کرنے سے نہیں اس کے اعلا عہدے باعزت مقام خود کفالت خود انحصاری باہمتی اور مرد کی بالا دستی سے آزاد مقام سے ہے ۔ اس معاشرے کو اپنے نشئی نکھٹو ہڈ حرام شوہروں کے جوتے لاتیں اور حالات کی ٹھوکریں کھاتی ہوئی ان پڑھ مصیبت زدہ غریب محنت کش مزدور عورتوں سے کوئی مسئلہ نہیں ہے اسی لئے کبھی انہیں گھر بٹھانے کی بات نہیں کرتے ۔ کبھی ان کے مقام و حقوق کی بات نہیں کرتے ۔ انہیں ‎تعلیم یافتہ ملازمت پیشہ خود مختار ملکی معیشت و معاشرت میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے والی باہمت اور بہادر عورتوں کے اندر پڑے ہوئے کیڑوں کو چُننے سے فرصت ملے تو کچھ بات بنے ۔

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 228 Articles with 1854355 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.