جب زندگی شروع ہوئی۔۔۔۔۔ حصہ ١۴

یہ عبرت ناک منظر دیکھ کر بے اختیار میرے لبوں سے ایک آہ نکلی۔ میں نے دل میں سوچا: ’’کہاں گیا ان کا اقتدار؟ کہاں گئے وہ عیش و عشرت کے دن؟ کہاں گئے وہ عالیشان محل، مہنگے ترین کپڑ ے ، بیرونی دورے ، شاندار گاڑ یاں ، عظمت و کروفر اور شان و شوکت؟ آہ! کہ ان لوگوں نے کتنے معمولی اور عارضی مزوں کے لیے کیسا برا انجام چن لیا۔‘‘

صالح بولا: ’’یہ سب ظالم، کرپٹ اور عیاش لوگ تھے جن کی ہلاکت کا فیصلہ دنیا ہی میں ہو چکا تھا۔ تاہم یہ ان کی اصل سزا نہیں ۔ اصل سزا تو جہنم میں ملے گی۔ جس طرف فرشتے انہیں لے جا رہے ہیں وہاں سے جہنم بالکل قریب ہے ۔ اسی مقام سے انہیں حساب کتاب کے لیے لے جایا جائے گا جہاں ان کی دائمی ذلت اور عذاب کا فیصلہ سنایا جائے گا۔ پھر انھیں دوبارہ بائیں طرف لایا جائے گا۔ جہاں سے گروہ در گروہ انہیں جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔‘‘

حساب کتاب کے ذکر سے مجھے بے اختیار وقت کا خیال آیا تو میں صالح سے پوچھا: ’’صالح! رسول اللہ کی دعا کو قبول ہوئے طویل عرصہ گزر گیا ہے ۔ مگر اب تک یہ حساب کتاب کیوں نہیں شروع ہوا؟‘‘

’’یہ تم سمجھتے ہو کہ طویل عرصہ ہوا ہے ۔ میدان حشر میں وقت بہت آہستگی کے ساتھ گزر رہا ہے ۔ جس کی بنا پر یہ طویل عرصہ لگتا ہے ۔ مگر عرش تلے بہت ہی کم وقت گزرا ہے ۔ تم جاننا چاہتے ہو کہ اتنا وقت بھی بہرحال کیوں لگ رہا ہے ؟‘‘

’’تم نے بتایا تھا کہ جن لوگوں کو معاف کیا جانا ہے اس سختی کو ان کی معافی کا ایک عذر بنادیا جائے ۔‘‘
’’ہاں یہ ایک وجہ ہے ۔ مگر دوسری وجہ لوگوں کو یہ احساس دلانا ہے کہ یہاں سارا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ بات یہ ہے عبد اللہ! انسانوں نے اپنے کریم اور مہربان آقا کی قدر نہیں کی۔ آج وہ آقا لوگوں کو یہ احساس دلا رہا ہے کہ انسان کس درجے میں اس کے محتاج اور اس کے سامنے بے وقعت ہیں ۔

اس کی طاقت و عظمت کا پہلا اظہار قیامت کا دن تھا جب انسانوں کی دنیا برباد ہوگئی اور ان کا سب کچھ تباہ ہو گیا تھا۔ انسان کی ساری طاقت اسے قیامت کے ہولناک حادثے سے نہیں بچا سکی۔ دوسرا موقع آج حشر کا دن ہے جب سب کو معلوم ہو چکا ہے کہ خدا کے سامنے کسی کی کوئی وقعت نہیں ہے ۔ تیسرا موقع اب آ رہا ہے یعنی حساب کتاب کا جب اللہ تعالیٰ براہ راست آسمانوں اور زمین کا کنڑ ول اپنے ہاتھ میں لے لیں گے ۔‘‘
’’تو کیا ابھی تک ایسا نہیں ہوا؟‘‘

’’نہیں ابھی تک ایسا نہیں ہوا۔ ابھی تک نظام کائنات بظاہر فرشتے چلا رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ صرف ان کو احکامات دے رہے ہیں ۔ تھوڑ ی ہی دیر میں وہ سارے معاملات براہِ راست خود سنبھال لیں گے ۔ تاکہ جنوں ، انسانوں اور فرشتوں سمیت ہر مخلوق جان لے کہ سارا اختیار اور اقتدار صرف اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے ۔ سردست سارے آسمانوں میں بکھری ہوئی کائنات جو انگنت فاصلوں پر پھیلی ہوئی تھی، اس کو سمیٹا جا رہا ہے ۔ تمھیں تو معلوم ہے کہ پچھلی دنیا میں یہ کائنات لمحہ بہ لمحہ پھیل رہی تھی۔ اب اللہ کے حکم پر فاصلے سمٹ رہے ہیں اور یہ بے شمار کہکشائیں ، ستارے اور سیارے جو پوری کائنات میں پھیلے ہوئے ہیں ، دوبارہ قریب آ رہے ہیں ۔‘‘
’’ایسا کیوں ہے ؟‘‘، میں نے حیرت سے پوچھا۔

’’یہ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو اہل جنت میں بطور انعام تقسیم کر دیں گے ۔ پھر ان جگہوں پر اللہ کے انعام یافتہ بندوں کی بادشاہی اور اقتدار قائم ہوجائے گا۔ کائنات کو واپس سمیٹنے کا عمل ہی وہ چیز ہے جسے قرآن کریم نے آسمانوں کو خدا کے داہنے ہاتھ پر لپیٹ لینے سے تعبیر کیا ہے ۔‘‘

پھر صالح نے آسمان کی طرف نظر کی۔ اس کی پیروی میں میں نے بھی اوپر دیکھا۔ سورج بدستور دہک رہا تھا۔ میں نے پہلی دفعہ یہ بات نوٹ کی کہ چاند بھی سورج کے قریب موجود تھا، مگر وہ بے نور ہو چکا تھا اور بہت آہستگی کے ساتھ سورج کی طرف بڑ ھ رہا تھا۔ یہ دیکھ کر صالح نے کہا: ’’آج آسمان و زمین بدل کر کچھ سے کچھ ہو چکے ہیں ۔ زمین پھول کر بہت بڑ ی ہو چکی ہے اور یوں اس کے رقبے میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے ۔‘‘
’’مجھے یاد ہے کہ زمین کا قطر پچیس ہزار کلو میٹر تھا۔‘‘

’’مگر اب اس میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے ۔ ساتھ ہی یہ زمین اب اس سے کہیں زیادہ حسین اور خوبصورت ہے جتنی پہلے تھی۔ اسرافیل نے دو دفعہ صور پھونکا تھا۔ پہلی دفعہ سب کچھ تباہ ہو گیا تھا جبکہ دوسرے صور پر انسانوں کو زندہ کر دیا گیا۔ ان دونوں کے بیچ میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے زمین بڑ ی ہوئی اور فرشتوں نے اس پر اہل جنت کے لیے اعلیٰ ترین گھر، محلات، باغات اور ان کے سکون و تفریح کے لیے بہترین چیزیں اور تمھارے لیے ناقابل تصور حد تک حسین ایک نئی دنیا بنادی ہے ۔ ہر جنتی کو اس کا گھر اسی زمین میں دیا جائے گا اور اسے رہنے بسنے کے لیے بڑ ے بڑ ے رقبے دیے جائیں گے ۔ زمین کے وسط میں دہکتے ہوئے آتش فشاؤں اور کھولتے پانی کے چشموں کے درمیان میں اہل جہنم کا ٹھکانہ ہو گا۔‘‘

میں نے اس کی بات کا خلاصہ کرتے ہوئے کہا:’’تم نے جو کچھ کہا ہے قرآن کریم کے بیانات سے مجھے اس کا پہلے ہی اندازہ تھا۔ قرآن کریم کے بیانات سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ زمین کے وارث خدا کے نیک بندے ہوں گے اور سطح زمین جنت میں بدل دی جائے گی جہاں اہل جنت کا ٹھکانہ ہو گا۔ زمین کے بیچ میں اہل جہنم ہوں گے ۔ جبکہ آسمانوں میں موجود ستارے اور کہکشائیں بطور انعام و بادشاہی اہل جنت میں تقسیم ہوں گے ۔ ویسے ان میں کیا ہو گا؟‘‘ ’’اس کی تفصیل دربار والے دن سامنے آئے گی۔ دربار والی بات یاد ہے نا؟‘‘

’’ہاں تم نے بتایا تھا کہ حساب کتاب کے بعد اہل جنت کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو نشست ہو گی اس کا نام دربار ہے ۔ اس نشست میں تمام اہل جنت کو ان کے مناصب اور مقامات رسمی طور پر تفویض کیے جائیں گے ۔ یہ لوگوں کی ان کے رب کے ساتھ ملاقات بھی ہو گی اور مقربین کی عزت افزائی کا موقع بھی ہو گا۔‘‘
’’ہاں اس روز انعام بھی دیا جائے گا اور کام بھی بتایا جائے گا۔‘‘
اتنی دیر میں بے نور چاند سورج میں ضم ہو چکا تھا۔ یہ دیکھ کر صالح بولا:
’’آسمان پر موجود نشانیاں بدل رہی ہیں ۔ چاند کا سورج میں ضم ہوجانا اسی کی ایک علامت ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سارے آسمان سمیٹ لیے گئے ہیں ۔ اب کسی بھی لمحے پروردگار عالم کا ظہور ہو گا اور وہ عدالت شروع ہوجائے گی جس کا انتظار تھا۔ اس وقت تمھیں اور ساری دنیا کو معلوم ہوجائے گا کہ اللہ جل جلالہ کس عظیم و اعلیٰ ہستی کا نام ہے ۔‘‘

ابھی صالح کا جملہ ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک زور دار دھماکہ ہوا۔ سب لوگ لرز کر رہ گئے ۔ آواز چونکہ آسمان کی جانب سے آئی تھی اس لیے ہر نگاہ اوپر کی طرف اٹھ گئی۔

میں اور صالح بھی لوگوں کے ساتھ اوپر دیکھنے لگے ۔ ایک حیرت انگیز منظر سامنے تھا۔ آسمان میں شگاف پڑ چکا تھا اور تھوڑ ی ہی دیر میں وہ بادلوں کی طرح پھٹ کر ٹکڑ ے ٹکڑ ے ہو گیا۔ ان شگافوں کو دیکھ کر ایسا لگا کہ آسمان میں دروازے ہی دروازے بن گئے ہیں ۔ ہر شگاف سے فرشتوں کی فوج در فوج زمین کی طرف اترنے لگی۔ ان کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ کسی قسم کی گنتی اور اندازہ محال تھا۔ فرشتوں کے مختلف گروہ تھے اور ہر گروہ کا انداز اور لباس بالکل مختلف تھا۔ وہ فرشتے میدان حشر کے وسط میں ایک جگہ پر اترنے لگے اور انہوں نے درمیان میں موجود ایک بڑ ی اور بلند خالی جگہ کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Owais
About the Author: Owais Read More Articles by Owais: 27 Articles with 28516 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.