گھر جنت کا نمونہ

 ڈاکٹر مولانا محمد اکرم
( مہتمم جامعۃ الارشاد للبنات لاہور)
میاں بیوی کا رشتہ اﷲ تعالی کے بڑے انعامات میں سے ہے ۔یہی وہ رشتہ ہے جو انسان کی زندگی بنانے سنوارنے والا ہے۔یہی وہ عظیم نعمت ہے جس کی بدولت انسان کو اس دنیا میں سکون نصیب ہوتا ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے : ومن ایاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنو الیہا وجعل بینکم مودۃ ورحمۃ ۔ (سورۃالروم :۲۱ ) ـــ
اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تم ہی میں سے جوڑے بنائے تاکہ تمہیں ان کے پاس آرام ملے اور تم میاں بیوی میں ہمدردی اور محبت پیدا کی۔
اور یہ وہ نعمت کہ جس سے بڑھ کر اس دنیا میں ایمان کے بعد کوئی نعمت نہیں ہو سکتی۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا : دنیا ساری کی ساری سازوسامان ہے اور دنیا کا بہترین سامان نیک عورت ہے۔
لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ شادی خانہ آبادی جیسی نعمت کے حاصل ہوتے ہی خانہ بربادی شروع ہو جاتی ہے،گھر گھر میاں بیوی ،ساس بہو کے جھگڑے ہی نظر آئیں گے۔بجائے اس کے کہ شادی کے بعد سکون کی زندگی بسر ہوتی الٹی مصیبت اور زحمت کھڑی ہو جاتی ہے۔
ساس بہو کا ساتھ رہنا ضروری سمجھا جانے لگا ہے ،سب سے بڑے مجرم وہ میاں بیوی سمجھے جاتے ہیں جو ماں باپ سے علیحدہ رہنے کا مطالبہ کرے ۔بیوی ہے کہ زبان نہیں ہلا سکتی اور شوہر حضرات بیوی کے جسم کے مالک تو ہیں ہی اس کے مال ،جہیز اور زیورات کے مالک بن جاتے ہیں ۔بیوی کو قطعاًیہ اختیار نہیں کہ وہ اپنے سامان کے استعمال سے شوہر کے بھائی بہنوں کو منع کرے،یوں بری طرح آج عورتوں پر ظلم و ستم ہو رہا ہے کہ خدا کی پناہ۔ ہو سکتا ہے کہ آج کل اﷲ تعالی کی طرف سے آئے ہوئے عذابوں کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہم نے عورتوں پر ظلم کر رکھا ہے۔نا تو شوہروں کو اپنی بیویوں کے حقوق کا علم ہے اور نہ ہی ان کی رعایت،جو جی میں آیا کرگزرے اور جو رواج چل پڑا اسی کو اختیار کر لیا لیکن ایک مسلمان کی شایان شان یہ باتیں نہیں ہیں۔
مسلمان کی شان تو یہ ہوتی ہے کہ (لا یخافون لومۃ لائم) وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہیں کرتا۔وہ محض اﷲ تعالی ، رسول اﷲ ﷺاور دین کی اتباع اور پیروی کرتا ہے۔
بیوی کو بیوی کے حقوق دے گا گو اس میں اس کی بدنامی ہو ، ماں کو ماں کے درجے میں رکھے گا گو اس کی بیوی ناراض ہو۔
اسی طرح عورتوں کا بھی برا حال ہے کہ نہ تو شوہروں کے حقوق و آداب کا خیال رکھتی ہیں اور نہ ہی تعظیم و تکر یم کا انہیں علم تک نہیں کہ شوہر کے کیا کیا حقوق ہمارے اوپر لازم ہوتے ہیں۔تو پھر کیسے حقوق کو ادا کریں گی اور کیسے ان کی زندگی جنت کی زندگی کا نمونہ بنے گی۔
الغرض میاں بیوی دونوں ہی اس معاملہ میں عنداﷲ قصوروار ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ لڑکا اور لڑکی شادی سے پہلے ضرور اسلامی احکام اورمیاں بیوی کے حقوق و حدود معلوم کریں اور اسی کے مطابق زندگی گزاریں۔
اس مختصر سے مضمون میں میاں بیوی کے حقوق ذکر کر رہا ہوں تا کہ حقوق معلوم ہو سکیں پھر اﷲ تعالی کی بارگاہ میں التجا ء ہے کہ وہ ہمیں ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطاء فرمائے تاکہ ہمارے گھر امن و سکون کا گہوارہ بن کر جنت کا نمونہ پیش کریں۔
بقول شاعر:
جنت آں جا کہ ازارے نبا شد کسے را بکسے کارے نبا شد
شوہر کے حقوق بیوی پر یہ ہیں کہ اسلام نے ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی بڑی تاکید کی ہے کہ سب سے پہلے تو شوہر کی اطاعت بہت ضروری ہے کہ وہ ہر کام میں شوہر کی اطاعت کرے لیکن اگر شوہر اﷲ اور رسول اﷲ ﷺ کی نافرمانی کا حکم دے پھر انکار کر سکتی ہے ۔
ارشاد باری تعالی ہے کہ ـ: نیک بیویاں فرمانبردار ہوتی ہیں۔
حدیث مبارک کا مفہوم ہے کہ : اگر غیر اﷲ کے آگے سجدہ جائز ہوتا تو میں حکم دیتا کہ بیوی اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ (ترمذی شریف)
گھر کا نظام چلانے کے لئے خاوند کو بیوی پر ایک درجہ زیادہ دیا گیا ہے تا کہ امور خانہ نظم و ضبط سے چلائے جائیں۔ اطاعت اور فرمانبرداری کا فلسفہ بھی یہی ہے کہ بیوی شوہر کی اطاعت کرے تا کہ گھر میں سکون ہو اور بچوں کی اچھی تربیت کی جائے۔اور اسی طرح بیوی کا دوسرا فرض ہے کہ وہ مرد کی عزت و آبرو کی حفاظت کرے ،پاک دامنی عورت کا سب سے بڑا جوہر ہے کہ شوہر کے بغیر بے قیمت ہو جاتی ہے۔
اس کے بارے میں ارشاد باری تعالی ہے کہ : نیک بیویاں فرمانبردار ہوتی ہیں اور ان کی غیر موجودگی میں اس کی عزت کی حفاظت کرتی ہیں کہ جن کی حفاظت اﷲ نے ان کے لئے پسند فرمائی ہے۔
بیوی کو چاہیے کہ وہ اپنے شوہر سے محبت کرے اگر محبت نہ ہوگی تو اطاعت نہیں ہو گی اگر محبت نہ ہوگی تو زندگی میں سکون نہ ہوگا ۔
رسول اﷲ ﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ : اس عورت سے شادی کرو جو زیادہ محبت کرنے والی ہو۔
بیوی کا فرض یہ بھی ہے کہ وہ اپنے شوہر کی ہر طرح سے خدمت گزاری کرے اس کے آرام و سکون کا ہر وقت ہر طرح سے خیال رکھے۔جب شوہر سارا دن کام کاج کر کے گھر آتا ہے اگر بیوی اپنے شوہر کی طرف مسکرا کر دیکھ لے تو شوہر کی ساری تھکن دور ہو جاتی ہے۔اوروہی بیوی عزت و محبت حاصل کرتی ہے جو زیادہ خدمت گزار ہو اور خدمت کے ساتھ ساتھ عزت واحترام کا بھی خیال رکھے۔
شوہر کی خوشنودی کے لئے عورت کو چا ہیے کہ وہ آرائش و زیبائش کا بھی اہتمام کریں۔ہر شوہر کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ میری بیوی دوسری عورتوں سے ہر لحاظ سے نمایاں نظر آئے۔ بیوی کو چاہیے کہ شوہر کے مختلف کاموں میں معاون و مددگار ثابت ہو تاکہ اس کا بوجھ ہلکا ہو اگر شوہر کو کوئی پریشانی پیش آئے تو اس کی دلجوئی کرے اپنے مفید مشوروں سے اس کی مدد کرے ۔
بیوی پر یہ بھی فرض ہے کہ شوہر کی آمدنی اور مسائل کے مطابق خرچہ کرے فضول خرچی سے اور بے جا مطالبوں سے پر ہیز کرے قناعت پسند ی سے کام لے ۔ لعن طعن سے بچے۔ جو عورتیں بے جا قسم کی نا شکری اور مطالبات کرتی ہیں ان کی خاندانی زندگی بے سکون ہو جاتی ہے ۔اسلام نے عورت کو یہ تاکید بھی کی ہے کہ شوہر کے سکون و خوشی کا خیال رکھتے ہوئے اس کے عزیزواقارب کی کوئی برائی نہ کرے۔ رسول اﷲ ﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ : معیاری اور مثالی وہ بیوی ہے کہ جس پر خاوند کی نگاہ پڑے تو اسے خوشی حاصل ہو۔
بیوی کا اہم فرض یہ بھی ہے کہ وہ اپنے شوہر کے عزیزواقارب سے حسن اخلاق سے پیش آئے خصوصا ساس ، سسر ،نند وغیرہ سے۔میاں بیوی لباس کی طرح ہوتے ہیں لہذا ان کو ایک دوسرے کا خیال رکھنا چاہیے ۔شوہر پر بھی لازم ہے کہ وہ اپنی بیوی کے تمام حقوق کا خیال رکھے اور انہیں ادا کرے تاکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزار سکیں۔بیوی کے فرائض کے ساتھ ساتھ شوہر کے بھی فرائض ہوتے ہیں کہ اسلام نے عورت کو اتنے حقوق دیے کہ اسلام سے پہلے کبھی عورتوں کو نہیں دیے گئے تھے ۔ میاں بیوی کے باہمی تعلقات میں اتنی خوشگواری ہونی چاہیے کہ اس سے اس تعلق کے وہ خاص اغراض جن کے لئے اﷲ تعالی نے اس تعلق کو اپنے عجیب و غریب آثار قدرت میں شمار کیا ہے ۔باہمی اخلاص ، پیار ومحبت ،سکون و چین اگر کسی نکاح سے قدرت کے یہ اغرا ض پورے نہ ہوں تو دونوں میں سے ایک کا قصور ہے۔
کسی شخص نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اﷲ ﷺ ! بیوی کا شوہر پر کیا حق ہے فرمایا : جو خودکھائے اس کو بھی کھلائے جو پہنے تو اس کو پہنائے نہ اس کو مارے نہ اس کو برا بھلا کہے۔
اسلام میں بہتر شخص وہ نہیں جو صرف حقوق اﷲ پورے کرے بلکہ بہتر شخص بننے کے لئے حقوق العباد بھی پورے کرنے بہت ضروری ہیں اور بیویوں کے حقوق ادا کرنے سے انسان کو اور بھی بلند درجہ ملتا ہے
نبی کریم ﷺ کا فرمان مبارک ہے : تم میں سے بہتر ین شخص وہ ہے جو اپنے بیوی کے لئے بہتر ہو ۔ (ترمذی)
ایک صحابی ؓ بڑے عابد وزاہد تھے لیکن وہ اپنی بیوی کی طرف توجہ نہیں دیتے تھے ۔آپ ﷺ نے جب ان کا یہ حال سنا تو فرمایا اسلام سے پہلے جاہلیت کے زمانے میں بیویوں کی کوئی قدرو منزلت نہ تھی وہ ہر وقت معمولی سی خطا پر ماری پیٹی جاتی تھیں۔ (بخاری)
شوہر حضرات کو چاہیے کہ وہ اپنی بیویوں کو ان کے بھائیوں سے حصہ لینے پر کوئی زیادتی وتشدد نہ کریں۔ آج کل یہ مطالبہ بہت زیادہ پایا جا رہا ہے جس سے بہت زیادہ جھگڑا وفساد ہوتا ہے ۔
اسلام نے مہر ، نان و نفقہ اور پرورش اولاد وغیرہ خانگی معاملات کی ہر قسم کی ذمہ داری مرد پر عائد کی ہے ۔ اس لئے انصاف کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ اس کو اپنے گھر کا حاکم اور صدر بنایا جائے تاکہ گھر کا نظام درست اور آپس میں تعلقات کی خوشگواری قائم رہے۔
آپ ﷺ نے نہایت عمدہ تشبیہ دے کر نصیحت فرمائی کہ عورتوں کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کرو کہ ان کی پیدائش پسلی سے ہوئی جس سے اس کے اسی ٹیڑھے پن کے ساتھ تم کام لے سکو تو لے سکتے ہو اور اگر اس کے سیدھا کرنے کی فکر کرو تو تم اس کو توڑ ڈالو گے۔
آپﷺ نے مردوں کو بیویوں کے معاملے میں خوش و راضی رہنے کا نہایت عمدہ نسخہ بتایا کہ اپنی بیوی میں کوئی برائی دیکھ کر اس سے نفرت نہ کرو اور اگر غور کرو گے تو اس میں کوئی دوسری اچھی صفت بھی نظر آجائے گی۔
یہ نصیحت حقیقت میں قرآن پاک کی اس آیت مبارکہ کی تکمیل ہے : اور بیویوں کے ساتھ معقول طریقہ سے گزران کرو ۔اگر تم کو وہ نہ بھائیں تو ممکن ہے کہ تم کو ایک چیز پسند نہ آئے اور اﷲ تعالی نے اس میں بہت خوبی رکھی ہوں۔
(النسآء ۴ : ۱۹)

Abid Ali Yousufzai
About the Author: Abid Ali Yousufzai Read More Articles by Abid Ali Yousufzai: 97 Articles with 75770 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.