جینا تو مشکل تھا ہی مگر اب مرنا بھی مشکل ہوگیا

انسان کا جینا مشکل تو ہوتا ہی ہے مگر مرنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ کسی کے ذہن اور غمان میں بھی نہیں تھا کہ قبرستان جیسی جگہ کو بھی لوگ کاروبار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ مہنگائی، پریشانی اورحالات سے پریشان عوام اب قبرستان جیسے جگہوں میں بھی پس کر رہ گئی ہے۔ قبرستان جیسی جگہ کو کاروبار کے طور پر استعمال کرنا بے حسی کی علامت ہے۔ تاہم عوام بھی کیا کرے پریشان حال عوام کس سے اپنے گلے شکوے کرے اور کون ان کی سنوائی کرے ۔

اگر بات کی جائے جینے کی تو ایک انسان کو اوسط عمر 40 برس ہے اگر ایک انسان پر اس کی پوری عمر پر لگائے جانے والے پیسوں کا حساب لگایا جائے تو یہ موجودہ دور کےتقریبا 1ارب روپے بنتے ہیں۔ اور ایک انسان کو اپنی وفات کے بعد قبر تک رسائی کے لئے 25 ہزار روپے درکار ہوتے ہیں۔ جی بلکل ایک مہینے کے راشن کے برابر رقم درکار ہوتی ہے۔ قبر کی رقم عموما فلاحی اداروں کے کاموں میں لگائی جاتی ہے کیونکہ قبرستان کی زمین کاروبار کے غرض سے وقف نہیں کی جاتی۔ اس لئے قبروں کی رقم مناسب ہو تاکہ عام آدمی جو کسی بھی طبقہ سے تعلق رکھتا ہو قبر کا حصول ممکن ہو۔ بات کی جائے عرب ممالک کی تو وہاں پر رائج نظام ہمارے لئے جیتی جاگتی مثال ہے۔ قبر کا حصول بھی نا ممکن بن گیا ہے قبرستان میں قبروں کی تعداد حد سے تجاوز کے باعث جگہ ملنا مشکل ترین عمل بن گیا ہے۔ قبرستان اگر ہر سال مسمار کیا جائے تو اس مسئلے پر کسی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔ پارلیمنٹ میں عموما بحث میں آنے والے موضوع عوامی مفاد کی عکاسی نہیں کرتے ۔اگر اس مسئلے پر بحث کی جائے اور ایک قانون بنایا جائے تو اس پر عمل پیرا ہوکر عوام کی فلاح اور بہبود پر کام کیا جاسکتا ہے۔

Ather Hayat
About the Author: Ather Hayat Read More Articles by Ather Hayat: 8 Articles with 8638 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.