عوام پاکستان کے غم و غصے کے اظہار اور شدید احتجاج
کے بعد آخر کار مسلم لیگ ن کی قیادت نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے حلف نامہ
کو اصل الفاظ کے ساتھ بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ لیکن انتہائی افسوسناک
امر ہے کہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والی ریاست پاکستان میں
برسراقتدار جماعت نے فردواحد کے مفادات کے لئے پارلیمنٹ سے منظور کئے گئے
’’انتخابی بل2017ء‘‘ میں نومنتخب اراکین کے حلف نامہ کو اقرار نامہ میں
تبدیل کرنے کی سازش کی ۔ نومنتخب امیدوار کے کاغذات نامزدگی کے لئے حلف
نامہ کی شق 2 میں درج ہے ’’میں حلفیہ طور پر بیان کرتا ہوں کہ میں حضرت
محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو بطور پیغمبر اور آخری نبی مانتا ہوں اور میں
کسی ایسے شخص کا مقلد نہیں ہوں جو اپنے آپ کو نبی کہتا ہو ۔‘‘ الیکشن
ترمیمی بل 2017 ء میں اس شق میں سے ’’میں حلفیہ طور پر بیان کرتا ہوں‘‘ کے
الفاظ کو تبدیل کرتے ہوئے ’’میں اقرار کرتا ہوں‘‘ میں تبدیل کردیا گیا ، جو
کہ اہل پاکستان کے لئے ناقابل قبول، انتہائی قابل اعتراض، اور قابل مذمت
تھا ۔جبکہ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے عجیب ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے
ختم نبوت کے حلف نامے میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کی تردید کی تھی، بلاشبہ
حکومتی عہدیدار اتنے بھی سادہ نہیں کہ انہیں حلف اور اقرار میں فرق معلوم
نہ ہوسکے ۔معلوم ہوتا ہے کہ یہ تبدیلی قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار
دینے والی آئینی ترامیم کے اثرات کو ختم کرنے کی ابتداء اور گہری سازش تھی،
جو کہ7 ستمبر 1974ء کو اس وقت کے وزیر قانون حفیظ پیرزادہ کی سربراہی میں
تمام سیاسی جماعتوں کی مساوی نمائندگی سے الیکشن قوانین میں ترمیم کرکے
نافذ کی گئی تھی ۔ اس شق میں اس وقت حلفیہ بیان پر خاصی بحث و تمحیص ہوئی
تھی جس پر تمام اراکین و ماہر قانون متفق ہوئے تھے کہ حلف نامہ میں یہ
الفاظ ہی ضروری اور مناسب ہیں، جبکہ قادیانی اقلیت حلف نامہ سے ختم نبوت کے
ان الفاظ کو حذف کروانے کے لئے روز اول سے کوشاں رہی ہے۔ اس طرح انتخابی
بل2017ء کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد الیکشن میں حصہ لینے کے لئے کسی بھی
مسلم امیدوار کو عقیدہ ختم نبوت پر حلف اٹھانے یا قسم کھانے کی ضرورت نہیں
رہتی بلکہ امیدوار کو صرف اقرار کر نا پڑتا ، اور حلف کی بجائے اقرار نامے
کی وجہ سے قادیانی بھی خود کو اقلیت ظاہر کرنے کی بجائے مسلمان ظاہر کرنا
شروع کردیتے۔ اسی وجہ سے اس بل پر ملک کے دینی و عوامی حلقوں میں شدید
اضطراب پایا جاتا تھا۔
واضع رہے کہ پاکستان میں قرآن و سنت کے خلاف کوئی بھی قانون سازی نہیں کی
جاسکتی، اس طرح حالیہ انتخابی ترمیم آئین کے آرٹیکل 227 کے بھی منافی ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ حکومتی وزراء کی جانب سے حلف نامہ میں اس ترمیم کا مقصد
اہل مغرب کی خوشنودی حاصل کر نا تھا ، تبھی حلف نامہ کی جگہ اقرار نامہ کے
الفاظ کو شامل کیا گیا۔ جبکہ حلف کو اقرار سے بدلنے کے قانونی مضمرات بھی
ہیں کیوں کہ جھوٹے حلف پر سزا ہے لیکن جھوٹے اقرار پر کوئی سزا نہیں۔ حکومت
کے ایسے غیر دانش مندانہ اقدامات ہی آمریت کی راہ ہموار کرنے کا سبب بنتے
ہیں، آئین کے آرٹیکل 62,63 کا مطلب صادق اور امین ہونا ہے جو محترم ہستی کی
صفات سے منسوب ہے۔ اس میں ترمیم کرکے ایک نااہل فرد کو اہل قرار دیا گیا،
کوئی نااہل شخص کس طرح ایک سیاسی پارٹی کی سربراہی کرتے ہوئے نظام حکومت
میں مداخلت کرسکتا ہے۔ جبکہ پاکستان بھر سے مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام
نے حلف نامہ میں کسی بھی قسم کی تبدیلی و ترمیم کو کلی طور پر مسترد کرتے
ہوئے کہا ہے کہ ختم نبوت صلی اﷲ علیہ وسلم عقیدہ و ایمان ہے اس پر کسی
کمپرومائز کی کوئی گنجائش نہیں۔پاکستان علماء کونسل نے حکومت کی جانب سے
کاغذات نامزدگی سے حلف نامے کو اقرار نامے میں تبدیل کرنے کے بارے میں
حکومتی وضاحتوں کو مسترد کر تے ہوئے اس عمل کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے
کہ بہت عرصہ سے تحفظ ناموس رسالت اور تحفظ ختم نبوت کے قانون کیخلاف گہری
سازشیں ہو رہی تھیں اور کچھ عالمی قوتیں قادیانیوں کو پاکستان میں رعایت
دینے اور ختم نبوت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قانون میں ترمیم کرانے کا منصوبہ
رکھتی ہیں، انتخابی اصلاحات بل میں ختم نبوت کی شق میں تبدیلی ناقابل قبول،
ناقابل برداشت ہے۔ بلاشبہ 27 رمضان المبارک کی شب اور 14اگست 1947ء کے دن
اسلامی جمہوریہ پاکستان کامعرض وجود میں آنا اہل اسلام اور اہل پاکستان کے
لیے قدرت کا ایک بہت بڑا انعام ہے، مگر صد افسوس کہ یہاں برسر اقتدار آنے
والی حکومتیں ملک میں نظام شریعت کے نفاذ کی بجائے خارجی قوتوں کو خوش کرنے
کے لئے مذہبی معاملات میں چھیڑ چھاڑ کرتی چلی آئی ہیں۔ انتخابی بل میں
حالیہ تبدیلی معمولی نہیں بلکہ ایک گہری سازش معلوم ہوتی ہے جس کو بے نقاب
کرنا، اور اس کے ذمہ دار کا تعین کرنا انتہائی ضروری ہے۔حکومتی شخصیات کو
آگاہ ہونا چاہئے کہ عوام پاکستان ختم نبوت صلی اﷲ علیہ وسلم کے معاملے پر
ایسی کسی کوشش کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
٭……٭……٭ |