قدرت اﷲ شہاب کی جھنگ میں دو دفعہ تعیناتی ہوئی پہلی
مرتبہ اسسٹنٹ کمشنر رہے اور دوسری دفعہ ڈپٹی کمشنر ۔وہ اپنی ایک بدنام
زمانہ کتاب شہاب نامہ میں جھنگ میں آپ بیتی پر لکھتے ہوئے ایک انتہائی
دلچسپ اور حیرت انگیز واقع لکھتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی
کی وہ پہلی اور آخری رشوت جھنگ میں ہی ایک بیوہ بڑھیا عورت سے لی ،لیکن
حیران ہوا کہ یہاں کے باسی کتنے عجیب ہیں جو اپنے جائز کام کیلئے بھی رشوت
دیتے ہیں اور ساتھ منتیں بھی کرتے ہیں ۔ضلع جھنگ میں کرپشن ،استحصال ،رشوت
ستانی کوئی آج کی بات نہیں بلکہ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جو
انسانیت ،عدل ،انصاف اور تہذیب جیسے الفاظ کو بھی شرما دیتے ہیں ، جبکہ
استحقاق نے تو دو عشروں تک اس سرزمین کو تعصب اور فرقہ واریت کی آگ میں
جھونکے رکھا ۔اس تعصبانہ آگ نے یہاں کے باسیوں کو یہ سبق پڑھا دیا کہ اگر
پنپنے کی خواہش ہے تو یا تو جھک جاؤ اور خوشامدی بن جا ؤ اور اگر سرمایا ہے
تو خودد استحقاق کی جنگ میں کود پڑو ۔اس آگ کی لپیٹ میں عام عوام ہی نہیں
بلکہ بیوروکریسی بھی بری طرح لپیٹ میں آئی اسی میں محکمہ پولیس سر فہرست
ہے، اس ادارے کی اگر بات کی جائے تو یہ برصغیر پاک و ہند میں سنتالیس سے
بھی پہلے اس ادارے کو انگریزوں نے کچھ ایسا منظم کیا کہ رشوت ستانی ایک
لازمی جزو قرار پایا ،اگر میں یہ کہوں کہ رشوت کو مرکزیت حاصل کے تو کہنا
غلط نہیں ہو گا ،پاکستان بننے کے بعد اس رشوت والے ناسور کو ختم کرنے کیلئے
بہت سے اقدامات اٹھائے گئے جیساکہ آمدو رفت کیلئے فنڈز ،سٹیشنری کے سامان
کیلئے فنڈز ،تحقیقات کے بعد ایمانداری اور بحق مقدمے کے اندراج کیلئے
الاؤنس اور اسی طرح کے دیگر فنڈز بھی مقرر کئے گئے ،اس کے علاوہ دیگر کئی
اداروں کی نسبت محکمہ پولیس کے ملازمین کی تنخواہوں میں بھی کافی حد تک
اضافہ کیا گیا لیکن نتیجہ ،کچھ نہیں !اس پر مبالغہ آرائی جو مجھے نظر آتی
ہے وہ نام نہاد جمہوریوں ،جاگیر داروں اور اشرافیہ کی بے جا مداخلت
،اختیارات کا ناجائز استعمال ہے ،اگر کوئی پولیس افسر حلال کمانے والا
تعینا ت ہو جائے اور وہ ان کی مداخلت اپنے کام میں پسند نا کرے ،نعرہ حق
لگانے والا ہو تو یہ اشرافیہ اس کا جینا حرام کر دیتے ہیں اس کی وجہ یہ کہ
وہ بھاری مینڈیٹ لے کر یا تو پارلیمنٹ میں بیٹھا ہوتا ہے اور یا پھر علاقے
کا جابر جاگیر دار ہوتا ہے جو کسی صورت یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ لوگوں کے
مسائل اداروں میں حل ہو ں، خاص طور پر پولیس تھانوں میں ان کا گہرا اثرو
رسوخ ہوتا ہے اور شاید یہ المیہ صرف ضلع جھنگ کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا
ہے ،لوگ تو بڑے تو ہو گئے لیکن ابھی تک سینٹی منٹ سے نکل نہیں پائے ہیں اور
ان کی آنکھیں موندے پیروی انہیں ذلیل و رسوا کرنے کیلئے کافی ہے ۔جبکہ
سیاستدانوں نے تو سمجھ لیا ہے کہ اگر جھنگ کی عوام پر حکمرانی قائم رکھنی
ہے تو اس کا واحد حل بیوروکریسی پر قبضہ کرنا ہے جو کہ وہ کر چکے ہیں ۔ضلع
جھنگ جہاں ایسی غلامی کی زنجیر میں جکڑا ہوا ہے وہیں ہر سطح پر اہمیت کا
بھی حامل ہے خاص طور پر یہ سیکورٹی کے اعتبار سے ،یہی وجہ ہے کہ یہاں پر
محکمہ پولیس کے نہایت قابل اور اچھے افسران کی تعیناتی کی جاتی ہے لیکن یہ
صرف ظاہری طور پر ہے کیونکہ ان تعیناتیوں کے پیچھے سیاسیوں کا خاص ہاتھ
پایا جاتا ہے ۔ حال ہی میں ضلع جھنگ میں ضلعی پولیس افسر کی اہم تعیناتی کی
گئی ہے جس کا نام ملک لیاقت علی ہے اور وہ کیپٹن ریٹائرڈ ہیں انہوں نے آتے
ہیں جھنگ میں دبنگ انٹری ماری ہے ۔پہلے ہی دن جھنگ کی عوام کی بات کی ہے
اور پھر محرم الحرام کے دنوں میں ضلع بھر کے سیکورٹی انتظامات کو جس خوش
اسلوبی سے سنبھالا وہ بھی قابل تحسین ہے ۔اس کے علاوہ تمام تر پولیس تھانوں
میں جمعہ کے روز قرآن خوانی کے احکامات اور مختلف پولیس تھانوں اور چوکیوں
کے علاقہ جات کی مساجد میں لوگوں کے مسائل کی شنوائی اور ساتھ ہی ان کا
ترجیحی بنیاد پر حل کرنے کی کوشش کرنے کا اقدام بھی قابل ستائش ہے ۔ملک
لیاقت علی قلم کار بھی ہیں اور دانشور بھی ،ان کا حال ہی میں ایک کالم
پڑھنے کا اتفاق ہوا جس کا عنوان ’’بدمعاش سپاہی‘‘ ہے جو عام عوام اور محکمہ
پولیس کے درمیان تعلقاتی فاصلے پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ بتاتا ہے کہ محکمہ
پولیس عوام دوست ہے نہ کہ عوام دشمن ۔ان کے جذبات پڑھ کر انتہائی مسرت
ہوئی، لیکن یہاں پر ملک لیاقت علی سے میرے کچھ سوالات ہیں کہ اگر تفتیشی
افسران کو مختلف مدوں میں فنڈز جاری ہوتے ہیں تو اس کے با وجود کرپشن کرنے
پر مجبور کیوں ہیں ؟ کیا محکمہ پولیس میں تعینات ہونے والے افسران اس اہل
نہیں ہوتے کہ کھرے اور جھوٹے کے درمیان حق کا فرق کر سکیں ؟ اس کیلئے مختلف
مقدمات کی ثالثی سیاسیوں اور جاگیرداروں کے ڈیروں پر کیوں ہوتی ہے؟ملک صاحب
نے جس طرح عوام کی بات کی ہے ،کیا وہ عوام الناس کیلئے اپنے دروازے
بلاامتیاز کھلے رکھیں گے؟ کیا وہ مختلف تھانوں اور چوکیوں میں تعینات
افسران کے عوام کے ساتھ ہتک آمیز رویوں کی روک تھام اور تھانوں کو عوامی
آماجگاہ بنا پائیں گے؟ کیا حق دار کی شنوائی اور حق رسی بلا تعصب یقینی ہو
پائے گی؟ملک صاحب نے لکھا کہ عوامی انا اور ڈویوٹی کے مابین جنگ ہوتی
ہے،لیکن لگتا ہے ملک صاحب حقیقت سے کوسوں دور سے گزرے ،کیوں کہ وہاں پر
ڈیوٹی اور انا کی کی جنگ نہیں بلکہ وردی کے غرور اور معصومیت کے درمیان جنگ
تھی۔ملک صاحب کیا آپ ملکی معصوم عوام کے سامنے وردی کے اس غرور کو مٹا کر
دوستانہ ماحول پیدا کرسکتے ہیں؟جس بدمعاشی کے پیچھے ملک صاحب نے پولیس کی
معصومیت دکھانے کی کوشش کی ہے ،کیا بتا سکتے ہیں کہ ایک پولیس اہلکار کی
اولاد شاہانہ زندگی کیسے گزارتی ہے ؟اور اس کے سائیڈ بزنس کیسے بن جاتے
ہیں؟امید ہے ملک صاحب میرے ان چند معصوم سوالوں کو التجا سمجھتے ہوئے جواب
ضرور شائع کروائیں گے۔ |