کہتے ہیں اگر کسی قوم میں تعلیم ، تربیت اور احساس جیسی
چیزیں نہ ہوں تو وہ قوم ایک مردہ شخص کی مانند ہے جس میں روح ہی موجود نہیں۔
اگر آس پاس کے ماحول پر توجہ دی جائے تو ہمیں اکثر ایسے لوگ ملیں گے جو صرف
اپنی بات منوانا چاہتے ہیں مگر کسی اور کی کبھی سننا بھی گنوارا نہیں کرتے۔
ایسے لوگ اکثر خود نقصان اٹھاتے ہیں اور پھر دوسروں کو کوستے ہیں۔ ہم آج
بھی پڑھے لکھے ہونے کے باوجود اپنی حرکتوں اور عادتوں سے یہ ثابت کردیتے
ہیں کہ ہم کس شخصیت کے مالک ہیں۔میں عموما ان لوگوں کی بات کر رہا ہوں جو
بس انا میں رہتے ہیں جن کے بات کرنے میں صرف 'میں' جھلکتا ہے۔
ویسے تو خواتین میں بہت سی اچھایاں پائی جاتی ہیں مگر ایک برائی جو ان کی
سب اچھائیوں کو دیمک کی طرح چاٹ لیتی ہے وہ یہی برائی ااور انا کی ہے۔ ایک
بے وقوف عورت اپنے شوہر کو غلام بنا کر رکھتی ہے اور خود غلام کی بیوی بن
کر زندگی گزارتی ہے جبکہ بات کی جائے عقلمند عورت کی تو ہمیشہ اپنے خاوند
کو راجا کی طرح سمجھے گی اور خود رانی کی طرح اپنے شوہر کے ساتھ زندگی گزار
دے گی۔ ویسے ہم نے اکثر یہ بھی دیکھا ہے اور سنا بھی ہے کہ ساس اور بہو کے
جھگڑے کیا کبھی کسی نے یہ سنا ہے کہ سسر اور داماد کے جھگڑے؟
اس کا جواب دوں تو وہ یہ ہوگا کہ ایسا کبھی نہیں سنا ہوگا اپنے ایسا ہمارے
ہاں زیادہ تر مرد حضرات گھریلو جھگڑوں میں ملوث نہیں ہوتے کیوں کہ مرد کا
کام گھر سے باہر روزی روٹی کمانے کا ہوتا ہے اس کو نہیں پتہ ہوتا کہ گھر
میں کیا ہورہا ہے۔ ہم بلند و بالا دعوے کرتے ہیں کہ عورتوں کو حقوق ملنے
چاہیئے مگر کیا اپنے یہ سوال کسی مرد سے کیا کہ اس کے حقوق کہاں ہیں؟ ہمارے
معاشرے میں لڑکے لڑکیوں کی غلط تربیت کی وجہ سے انہیں بعد میں مسائل کا
سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ارد گرد نظر دوڑائی جائے تو مختلف جامعات اور کالجوں میں یہ جلن کٹن اور
ایسی بہت سی خطرناک برائیاں بڑھ رہی ہیں لوگوں میں برداشت کا مادہ کم ہوتا
جارہا ہے۔ اگر ان مسائل پر توجہ نہ دی تو ہم ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھ
دیں گے جہاں کوئی کسی کی نہیں سننا چاہتا۔ تو آپ سب سے صرف درخواست ہے کہ
بس اس بارے میں ذرہ سوچیں۔ |