پاکستان کی سری لنکا کے ہاتھوں دوبئی میں دونوں ٹیسٹوں
میں شکسٹ نے یہ بات واضح کردی کہ کوئی بھی کھیل ہو اس میں نوجوان خون کے
ساتھ ساتھ تجربے کا ہونا بہت ضروری ہے۔ تجربہ کار بلے بار یونس خان، مصباح
الحق کی ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی ہوم کنڈیشن میں کھیلی جانے والی پہلی سیریز
میں سری لنکا جیسی ناتجرباہ کار ٹیم سے شکست نے یہ بات ثابت کردی کہ کپتان
سرفراز احمد جنہوں نے اپنی اعلی کپتانی اور بلے بازی کے باعث انگلینڈ میں
کھیلی گئی چیمپینز ٹرافی میں پاکستان نے بھارت کو واضح شکست دے کر چیمپئن
کا چمپین بنوایا ۔ ابھی ٹیسٹ کرکٹ میں کپتانی کیلئے اپنے آپ کو اہل ثابت نہ
کرسکے۔ وہ پہلے ٹیسٹ میں جہاں پاکستان کو صرف 136رنز فتح کیلئے چاہئے تھے
نازک موقع پر باہر نکل کر کھیلتے ہوئے آؤٹ ہوگئے۔ ان کے بعد ٹیل اینڈ پریشر
برداشت نہ کرسکے اور 22رنز سے جیتا ہو امیچ ہارگئے۔ دوسرے ٹیسٹ میں بھی
پاکستان کی 5وکٹیں جلد گرگئیں لیکن 147 رنز کی شراکت جو کہ اسد شفیق اور
سرفراز احمد کے درمیان ہوئی کپتان پھر ساتھ چھوڑ گئے اور پاکستان میچ 68
رنز سے ہار گیا ٹیسٹ کرکٹ کا مزاج ون ڈے کرکٹ اور ٹی ٹونٹی کرکٹ سے قطعا
مختلف ہے۔ ٹیسٹ کرکٹ تحمل مزاجی، صبر چاہتاہے جبکہ دیگر کرکٹ میں جارحانہ
انداز ضرورت ہوتاہے۔ اگر ہمارے بلے باز ٹیسٹ کرکٹ جو کہ اصل کرکٹ کو ون ڈے
اور ٹی ٹونٹی کے مزاج پر کھیلیں گے تو پھر ہمارا بنگلہ دیش سے بھی جیتنا
مشکل ہوجائیگا۔ ہم یونس خان، مصباح الحق پر ان کے کیرئیر کے دوران سست روی
کا الزام لگاتے نہیں تھکتے تھے لیکن ان کی ایسی ہی بلے بازی کے باعث
پاکستان گذشتہ سال ٹیسٹ کرکٹ میں نمبر ون ٹیم بن گیا تھا۔ میں یہ سمجھتاہوں
کہ دونوں بلے باز تاحال پاکستان ٹیسٹ کرکٹ میں مزید کھیل سکتے تھے لیکن ہم
عمر کو دیکھتے ہیں کارکردگی کو نہیں ۔ ہم نے ماضی میں بھی کئی بہترین بلے
بازوں کو عمر کا رونا روکر ضائع کردیا۔ آج بھی ہماری پرانی رو ش برقرار ہے۔
ہماری کرکٹ میں تمام تر خرابیوں کا ذمہ دار ہمارا کرکٹ بورڈ ہے جو کہ
نااہلوں کے ہاتھوں میں ہے۔ پاکستان میں جاوید میانداد ، ظہیر عباس، ثقلین
مشتاق، مشتاق احمد، عبدالقادر، ماجد خان، رمیز راجہ، آصف اقبال، جیسے تجربہ
کار کرکٹر موجود ہیں لیکن کرکٹ بورڈ کی سربراہی ایک صحافی نجم سیٹھی کے
ہاتھوں میں ہے۔ کبھی کوئی جرنیل آتاہے تو کبھی کوئی سیاستدان، ملک بھر کے
اداروں کا بیڑا غرق بھی نااہلوں کی بھرتیوں نے کیاہے۔ کھیل میں بھی سیاست،
اقرباء پروری نے ہماری پہچان ہاکی ، کرکٹ، سکوائش کا بیڑا ڈبویا ہے۔ ملک
میں ضلعی سطح اور قومی سطح پر جو کرکٹ ہورہی ہے اس میں ون ڈے، ٹی ٹونٹی
قابل ذکر ہے جبکہ ہمارے تین روزہ اور سہ روز فرسٹ کلاس میچز میں بھی پہلی
اننگز تک محدود کھیلنا ہوتاہے۔ ایسی صورتحال میں ہم اچھے ون ڈے اور ٹی
ٹونٹی کرکٹر تو پیدا کرسکتے ہیں لیکن ہم انضمام الحق، سعید انور، یونس خان،
مصباح الحق، محمد یوسف کا متبادل تلاش نہ کرسکیں گے جس کے باعث ہم سری لنکا
کے خلاف دونوں ٹیسٹ میچز جیت کی پوزیشن پر آکر ہار گئے۔ حالانکہ سری لنکا
کی ٹیم کو ہماری ٹیم نے گذشتہ سال 2016ء میں مصباح الحق کی کپتانی میں ٹیسٹ
سیریز میں شکست جبکہ ون ڈے ، ٹی ٹونٹی مقابلے بھی ہم جینے موجودہ سری لنکن
ٹیم کو بھارت نے گذشتہ ماہ کئے جانے والے سری لنکن دورے میں تمام فارمیٹ
میں کلین سویپ کیا جبکہ ہم انڈیا سے کھیلنے کے بڑے خواہشمند ہیں۔ لیکن
ہماری موجودہ ٹیسٹ ٹیم کا مزاج اور کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ہماری ٹیم اس
قابل نہیں ہے کہ وہ انڈیا کی مضبوط ٹیم کا مقابلہ کرسکے۔ ہمارے کرکٹ بورڈ
کو اب یہ سوچنا ہوگا کہ قومی سطح پر ہار جیت تمام تر قومی مزاج، صورتحال کو
تبدیل کرنے کے علاوہ لوگوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ کرکٹ بورڈ کاکام اگر صر ف
مال کمانا ہے تو وہ یہ گر زرداری، شریف برادران سے سیکھ لیں۔ لیکن کرکٹ کی
باگ دوڑ اسی کھیل سے وابستہ لوگوں کے حوالے کریں تاکہ ہمارے اس کھیل کو
ہاکی کی طرح مکمل تباہی سے بچایاجاسکے۔ حیرانگی کی بات ہے کہ ہماری کرکٹ
ٹیم کے کپتان، منیجر، کوچ جنکا فاسٹ بالنگ کا شعبہ مضبوط اور مہلک ہتھیار
ہے کو ہم نے سری لنکا کے خلاف پس پشت ڈال کر سپن وکٹیں بناڈالیں ایسی وکٹیں
جہاں حارث سہیل جیسا پارٹ ٹائم باؤلر بھی صرف ایک رنز دیکر ایک اوور میں
تین وکٹیں لے اڑا اور عالمی ریکارڈ بنالیا لیکن ہم نے پیس وکٹیں تو بنائیں
لیکن باؤلر صرف ایک سپنر ڈالا جکہ سری لنکا نے دو سپنرز کھلواکر میدان
مارلیا۔ ہماری حکمت عملی اور ریٹنگ دونوں ناقص رہیں اسکی چھان بن کی جائے
وہی بابر اعظم جو ٹیسٹ کرکٹ میں سری لنکا جیسی ٹیم کے خلاف بھیگی بلی بنا
ہوا تھا وہ ایک روز میچ میں اسی ٹیم اور ویسی ہی وکٹوں پر شیر بن گیا۔ اس
میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک باصلاحیت بلے باز ہے لیکن ماحول، اور کرکٹ کے
مزاج کے مطابق ہمیں کھیلنا پڑے گا۔ کرکٹ، ہاکی دونوں کی ترقی صرف اس امر
میں مضمر ہے کہ ہم نچلی سطح پر دونوں کھیلوں کو دوبارہ متعارف کروائیں۔
سکول، کالجز، یونیورسٹیز سطح پر کرکٹ بورڈاور HEDمحکہ تعلیم کھیلوں کیلئے
فنڈز او ر سہولیات مہیا کرے۔ بصور ت دیگر کھیلوں میں پاکستان ایک قصہ
پارینہ بن جائے گا۔ کھیلوں کو سیاست سے پاک کریں ہمارے جن کھیل کے میدانوں
پر کالونیاں، مارکیٹیں، اتوار بازار، جمعہ بازار بن گئے ہیں وہ ان سے
واگزار کرواکر انہیں دوبارہ نوجوان نسل کی مثبت سرگرمیوں کیلئے استعمال میں
لاکر ان کی ذہنی نشوونما کی جائے۔کوچنگ کیلئے سنٹرز بنائے جائیں۔ لاہور
قلندر کی طرز پر ضلع سطح سے نوجوان ٹیلنٹ کو سامنے لایاجائے انہیں فاسٹ،
پیس ، سپن اور باؤنسی وکٹو ں پر کھیلنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ بصورت دیگر
بلے بازی کا شعبہ ہمارے باؤلرز کی محنت کو ضائع کرتا رہیگا اور ہم جیتے
ہوئے میچز ہارتے رہیں گے۔ |