2017 میں پولیس آرڈر 2002کچھ ترامیم کی گئی ہیں جس سے
نیشنل پبلک سیفٹی کمیشن کا صوبائی سربراہ پولیس کی تقرری میں ختم کردیا گیا
ہے۔ پولیس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے پناہ قربانیاں دی ہیں اور پولیس
کے افسر اور نوجوان اپنی جانوں کا نذرانہ مادر وطن پر نچھاور کر رہے ہیں
اِس لیے پولیس کی قربانیوں کے حوالے سے کوئی دو آراء نہیں ہیں لیکن انوستی
گیشن کے شعبے کی کارکردگی سب کے سامنے ہے کہ ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو
ظالم بنادیا جاتا ہے اِسی طرح پولیس کی جانب سے ملزمان کے خلاف شواہد پیش
نہ ہو پانے کیس کی پیروی نہ کرنا اِس سے بھی عدالتوں کو پھر شواہد اور
حالات و واقعات کی روشنی میں ملزمان کو رہا کرنا پڑتا ہے الزام عدلیہ پر
دھر دیا جاتا ہے کہ عدلیہ کا قصور ہے۔پولیس کے جواں شیر ایس پی چہودری اسلم
شھید نے کراچی میں دہشت گردی کے خلاف لڑتے ہوئے اپنی جان قربان کی اِس طرح
کے بہت سی مثالیں ہیں ۔ اِس آرٹیکل کا مقصد یہ نہیں کہ پولیس کو بُرا بھلا
کہا جائے بات صرف اتنی ہے کہ ہر شعبے میں اچھے اور بُرئے لوگ ہوتے ہیں۔لیکن
پولیس کے حوالے سے شکایات زبان زدِ عام ہیں ۔ پولیس کی ذمہ د اری کسی بھی
معا شرے میں امن وامان قائم رکھنا ہے۔ معاشرے کے مجبور طبقات کی مدد
کرنا۔باثر افراد کی چیرہ دستیوں سے مظلوم اہر بے کس افراد کو بچانا۔ پولیس
در حقیقت ریاست کی طرف سے ایک ایسے کام پر مامور ہے جس طرح اﷲ پاک فرشتوں
کو اپنی مخلوق کی مدد کے لیے بھیجتا ہے۔ لیکن ترقی پزیر ممالک اور پسمانرہ
ملک جن میں پاکستان، بھارت،برما،بنگلہ دیش بھی شامل ہیں میں پولیس کا کردار
مہذب معاشرہ کی نفی کرتا ہے ۔جاگیردار نہ سوچ وڑیرہ شاہی سرمایہ دارانہ
ذھینیت یہ سب کچھ جس معاشرے میں ہو وہاں پولیس نام کی فورس فرشتوں جیسا
نہیں بلکہ ظالموں کا روپ دھار لیتی ہے۔ برقسمتی سے ہمارا معاشرہ عجیب طرح
کی کشکمش سے دوچار رہتا ہے۔سیاست دان اپنی مد ضی ومنشاء سے اپنے علاقے کا
تھا نیدار فقرر کرواتے ہیں۔ پولیس کومظلوم کی مدد کی بجائے با اثر امداد
اپنے منحالفین کا ناطقہ بند کرنے کے لیے استمال کرتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے
میں عدم برداشت کا رویہ عام ہے۔ کہیں ذات پات رنگ ونسل کے مسائل ہیں اور
کہیں فرقہ وارنہ ہم آہنگی کی کمی ہے۔لیکن پولیس کے لیے ایک بہت برا ٹاسک یہ
ہے کہ قبضہ گرویوں کی ہمنوائی کرنا۔ جائیدار کے جھگڑوں میں پولیس کا کردار
یہ ہے کہ جس شخص نے زیادہ مال دے دیا پولیس اُسکا ساتھ دینا اپنا فرض منصبی
سمجھتی ہے۔ گویا قدر انسانیت کی نہیں قدرتو دولت کی ہے۔ پولیس کے رویے کے
حوالے سے اخلاقیات اور انسانی اقرار جیسے الفاظ عجیب طرح کے رویے کے متقاضی
ہیں۔یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہماری سوسائٹی پولیس کی غنڈہ گردی کے زیرعتاب ہے۔
محاظ کا لفظ پولیس اپنے لیے استعمال کرکے عملی طور پر جس طرح سے عوام کے سا
تھ وحشیانہ اور درندوں والا سلوک کیا جاتا ہے اُسکے بعر لفظ محافظ لفظ
راہزن کا مترادف بنتا ہوا دیکھائی دیتا ہے۔ معاشرے جب ارتقائی سفر میں ہوتے
ہیں تو بلاشبہ بہت سے مسائل اور دُشواریاں پیش آتی ہیں لیکن جب ارتقاء کی
جانب پیش رفت انہتاء تک پہنچ جانے کے بعد بھی مثبت جانب جانے کے بجائے منفی
اثردکھائے تو پھر کیا کہا جاسکتا ہے۔ مسلم سوسائٹی نے تو آج سے 1432سال قبل
اپنی ارتفاء کی منازل طے کی تھیں اور عیظم رہنما حضور اکرمﷺ اور عیظم کو ڈ
آف لائف قران مجید کے ثمرات سے مستفید ہوتے ہوئے انسانیت کا بول بالا کیا
تھا۔ جن ممالک میں بے روز گاری بہت کم ہے یا نہ ہونے کے برابر ہے اور سماجی
انصاف تک عوام کی صورتحال بھی بہت بہتر ہے۔ پولیس کا محکمہ حقیقت میں خادم
ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔ اِس حوالے سے برطانیہ ،امریکہ ،یورپ کی مشالیں سامنے
ہے۔ گویا جہاں معاشی آسودگی ہے وہاں سکھ اور چین بھی ہے۔ اور اُن معاشروں
میں پولیس بھی انسانیت کے دائرے میں رہ کر انسانوں سے انسانوں جیسا سلوک
کرتی ہے۔ بے چین،معاشی نا ہموار یوں سے مزین سوسائٹی میں پھر انڈر ورلڈ
اپنی مثال آپ بن جاتی ہے۔منشیات منی لانڈرنگ ، انسانی سمگلنگ سب کچھ عام
ہوتا ہے۔ پو لیس تو فقط ان گینگسٹرز کی حا شیہ بردار ہوتی ہے اور ان ما
فیاز کے لیے ٹاوٹ کا کردار ادا کرتی ہے۔سرکا ر کے ساتھ ساتھ ان ما فیاز سے
بھی اپنی خدمات کا عوضانہ ما ہا نہ بنیادوں پر وصول کرتی ہے۔ کرپشن عا م
ہے۔ اس وطن میں اب جسم فروشی بھی انھیں قانون کے محافضوں کی سرپرستی میں با
قاعدہ ایک پروفیشن بن چکی ہے۔ کرپشن عام ہے انصاف بکتا ہے۔ ڈ گریو ں کی لوٹ
سیل لگی ہوئی ہے۔ انسانی اعضاء کی تجارت ہوتی ہے۔اس ملک کا حکمران طبقہ
پارلیمینٹ کو ربڑ سٹیمپ سمجھتا ہے ۔جس معاشرے میں بیشتر عوامی نمائیندے
پارساء نیک نہ ہو بلکہ پرلے درجے کے بدکردار ،عیا ش لٹیرے ہوں رکن قومی
اسمبلی جمشید دستی نے پارلیمنٹ میں شراب و دیگر خرافات کی جانب جب توجہ
دلائی تو تھوڑی دیر کے لیے ارتعاش پیدا ہوا لعن طعن کی گئی بعد میں پھر
خاموشی ۔ جس سوسائٹی کے سیاست دان جعلی ڈگریوں کے حامل ہوں اس سو سائٹی میں
پھر پو لیس فریشتوں جیسی صفات کی حامل کیسے ہو سکتی ہے۔ جیسی سوسائٹی ویسے
حکمران اُسی طرح کے سماجی رویے۔ ان حا لات میں پولیس نے ان مگر مچھوں کی ہی
وفا داری کرنی ہے خدائی خدمت گزار نہیں بننا۔ اس پولیس کے لیے شرافت، دیانت
کتابی باتیں ہیں۔ پولیس آرڈر میں پو لیس کو جو ذمہ داریاں تفویض کی گئی ہیں
اُن پر عمل پیرا ہو کر معاشرے میں امن و سکون قائم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اب
ہم اصل حقیقت کی طرف آتے ہیں وہ یہ کہ پو لیس کو دباو میں رکھنے کے لیے
اتنے گروہ سرگرمِِِِِِِِ عمل ہیں کہ پولیس چاہے بھی تو اِن ذ مہ داریوں کو
ادا کرنے سے قاصر ہے۔ موجودہ پولیس آرڈر میں پولیس کی مندرجہ ذیل ذمہ
داریوں کا تعین کیا گیا ہے۔ سیکشن3پولیس آرڈر میں عوام سے پولیس کے رویے کے
حوالے سے 4 باتوں کا ذکر ہے۔
(a) یہ کہ عوام کے ساتھ شائستگی اور عزت سے پیش آنا ۔
(b) عوام کے سا تھ دوستانہ رشتہ قائم کرنا۔
(c)ایسے مجبور افراد یا بچے جو کمزور ولاغر ہیں یا غریب ہیں یا معذور ہیں
اُن کی مدد کرنا اگر پبلک مقامات پر یا گلیوں میں جسمانی معذور یا چھوٹے
بچے بے یا رومدگار ملیں تو اُن کی مدد کرنا۔
(d)بچوں اور خواتین کو مدد بہم پہنچانا خاص طور پر جب وہ خطرے میں ہوں ۔
سیکشن 4 سب سیکشن (1) پولیس آرڈرکے مطابق پولیس کے فرائض میں شا مل ہے ۔
(a)شہریوں کی آزادی ، جا ئیداد اورجان کی حفاظت کرنا ۔
(b) عوامی سطح پر امن وامان قائم رکھنا۔
(c)ایساشخص جوپولیس کی custodyمیں ہو اُسکے حقوق اور سہولیات کا قانون کے
مطابق خیال رکھنا۔
((d جرائم کو روکنا اور عوامی تکا لیف کا اعادہ نہ ہونے دینا۔ ((e عوامی
حوالے سے امن و اما ن کے لیے انٹیلی جنس معلومات حا صل کرنا اور ان معلو ما
ت کا تبادلہ کرنا۔ ((f پبلک مقا ما ت ، عبا دت گا ہوں گلیوں بازاروں سڑکوں
میں رکاوٹیں پیدا اہونے سے روکنااور عام شاہرا ہوں پر رکاوٹیں نہ ڈالنے
دینا۔(g)گلیوں اور سڑکوں پر ٹریفک کو کنڑول کرنااوراِسکے بہاؤ کوممکن
بنانا۔
(h)لاوارث جائیداد واشیاء کوقبضے میں لینا اوراِس کا ریکارڈرکھنا ۔
(i)مجرموں کوتلا ش کرکے انصاف کے کہٹرے میں لانا۔(j)اُن افراد کو گر فتار
کر نا جن کو گرفتا ر کرنے کا پولیس کو حق ہے۔ اور اُن کی گرفتاری قابلِ وجہ
بھی ہونی چاہیے۔ ((k جس شخص کو گرفتار کیا گیا ہو وہ اپنی گرفتاری کی بابت
کسی کو اطلاع کر نا چاہتا ہے تو پولیس کا فرض ہے کہ وہ اس بات کو یقینی
بنائے کہ متعلقہ شخص تک اطلاع پہنچنی چاہیے۔ (l) پو لیس کو یہ اختیار حاصل
ہے کہ کسی بھی پبلک مقام، دکان وغیرہ کو بغیر ورانٹ چیک کر سکتی ہے جس کے
متعلق یہ قابلِ اعتماد اطلاعات ہو ں کہ اِن مقامات پر شراب یا منشات پے
گاتی ہیں یا فروخت ہوتی ہیں یا اسلحہ کا ذخیرہ غیر قانونی طور پر کہیں
موجود ہے۔ (M) تمام قانونی ا حکا ما ت کو ماننا اور اُن پر عمل درآمد
کروانا۔ (N) قانون کے دائرے میں رہ کر وقتی طور پر کوئی بھی حکم دیا جائے
اُس کی بجاآوری پولیس کا فرض ہے۔
(O ) قدرتی آفات سے تباہی یا تشدد وغیرہ سے پبلک پراپرٹی کو بچانے کے لیے
مدد فراہم کرنا۔ (P )عوام کو کسی بھی ادارے یا گروپ کے استحصال و دھوکہ دھی
سے بچانا۔ (Q ) معاشرے کے ذہنی طور پر معذور افراد کے جان جان و مال کی
حفاظت کرنا۔(R ) پبلک مقامات پر عورتوں اور بچوں کو ہراساں ہونے سے بچانا۔
سب سیکشن 2 سیکشن 4 کے مطابق (a) پولیس آفیسر ہنگامی صورتحال میں خواتین
اور بچوں کی مدد کرے گا (b) سڑک پر ایکسڈ ینٹ کے شکار لوگوں کی مدد کرنا۔
(c) حادثات میں متا ثرہ افراد اور اُن کے لواحقین کو مدد فراہم کرنا اور
ایسی ہر اطلاع دینا جس سے اُن کی مدد ہو سکے اور معاوضے کے کلیم کرنے میں
اُن سے تعاون کرنا۔(d) سڑک پر حادثات سے متاثرہ افراد کو اُن کے حقوق اور
سہو لیات کے بارے میں آگاہی دینا۔
سیکشن 4 سب سیکشن 3پولیس آردڑ 2002 کے مطابق پولیس آفیسر کا فرض ہے کہ اگر
اُس کے علم کوئی ایسا شخص ہے جو کہ کسی جرم میں ملوث ہے تو وہ پولیس آفیسر
اِس کی اطلاع مجاز عدالت کو دے گا اور قانون کے مطابق ورانٹ، سرچ وارنٹ ،
سمن وغیرہ کے لیے عدالت میں درخواست گزار ہو گا۔ پولیس چادر اور چار دیواری
کے تقدس کو پامال نہیں کر سکتی۔ پی ایل جے 2006 لاہور 721 کے مطابق سیکشن 4
سب سیکشن 10 کے مطابق پولیس کو بغیر وارنٹ قابلِ اعتماد اطلاعات کی بناء پر
کسی بھی پبلک مقام پر داخل ہونے کا حق حاصل ہے۔ لیکن اس اختیار کا مطلب یہ
نھیں کہ نجی احاطے یا گھر میں پولیس داخل ہو سکتی ہے۔
سیکشن 5 سب سیکشن 1 کے مطابق حکومت سرکاری گزٹ میں اگر کوئی ہنگامی
نوٹیفکیشن جاری کرکے پولیس کو خاص ٹاسک انجام دینے کا کہتی ہے۔ جو کہ
معاشرے کے افراد کے لیے ضروری عمل ہو پولیس اُس حکم کو مانے گئی۔ سیکشن 5
سب سیکشن 2 کے مطابق کلاز(1) کے حکم کے مطابق ایمرجنسی حالات میں پولیس
اپنے سینئر پولیس آفیسر کاحکم مانے گی۔
سیکشن چار اور سیکشن پانچ پولیس آرڈر الفاظ کی حد تک تو انتہائی ُپرمغز اور
امید افزاء ہیں لیکن جب اس تھیوری کو عملی حالت میں دیکھا جاتا ہے تو یہ
بات محسوس ہوتی ہے یہ سب کچھ اس سوسائٹی میں قابلِ عمل نہیں ہے۔ جب پولیس
نے اپنے فرا ئض کی ادائیگی پریشر میں کرنی ہے اور جب ہر ایم این اے اور ایم
پی اے تھانیدار کو اپنی انا کے اشاروں پر نچاتا ہے تو امن و امان کیسے قائم
رہ سکتا ہے۔ رب پاک کو حاضر و نا ضر جان کر اگر ہم خود سے یہ سوال کریں کہ
کیا کسی شریف النفس انسان کا موجودہ دور میں اسمبلی کا ممبر بننا ممکن ہے
تو اِسکا جواب منفی میں ہونے کے ساتھ ساتھ ہے یہ بھی ہوگا کہ شریف آدمی نہ
تو الیکشن لڑ سکتا ہے اور نہ ہی جیت سکتا ہے۔ہمارے معاشرے میں تھانے اور
کچہری کی سیاست ہوتی ہے۔ کسی کو گرفتار کروادیا کسی کو مروادیا اور کسی کو
علاقے سے ہی غائب کروادیاجنگل کا قانون تو پھر بھی کوئی معانی رکھتا ہے
جہاں درندے ، پرندے ہزاروں سالوں سے بس رہے ہیں۔ ہماری سوسائٹی میں طاقت کا
استمعال ،اقرباپروری اپنی مثال آپ ہیں۔ یہاں عوامی نمائندے کیسے ہوں گے ؟
جیسا ماحول بن چکا ہے ادھر تو شرافت، دیانت امانت سب کچھ منافقت میں ڈھل
چکا ہے۔صرف چند ہزار انسانوں نے پوری قوم کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اِن حا
لات میں پولیس امن و امان کیسے قائم رکھے جب عوامی نمائندے وزیر ،مشیر
سرمایہ دار وڈیرے پولیس کو اپنی من مانی کے لیے استمعال کرتے ہیں۔ماضی میں
سندھ اسمبلی کے ایک ضمنی الیکشن میں حکومتی پاڑتی کی ایک خاتون امیدوار نے
پولیےس آفیسر کے سامنے خاتون پریزائیڈانگ آفیسر کو تھپڑ مارے اور ڈی ایس پی
صاحب باادب ہو کر سارا تماشا دیکھتا رہے۔ یہ ہے وہ پولیس جس نے عوام کو
غنڈوں کی چیرہ دستیوں اور ظلم سے بچانا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے
معاشرے میں میڈیا کے فعال کردار نے کافی حد تک آگاہی دی ہے۔ لیکن حزب
اقتدار ہو یا حزب مخالف، اقتدار میں رہنے کے لیے منشیات فروشوں اور قبضہ
گروپوں کی سرپرستی کرتے ہیں اور یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ کیونکہ وہ بھاری رقوم
خرچ کرکے آئے ہیں اس لیے ہر طریقے سے رقم کماتے ہیں۔ باقاعدہ غنڈے پال رکھے
ہوئے ہیں۔ موجودہ حالات میں وکلاء، سول سوسائٹی اور عدلیہ ہی امید کی کرن
ہیں کہ شائد ہمارہ معاشرہ کبھی گدِھوں سے نجات حاصل کرسکے۔ تھانے بکتے ہیں
ماہانہ بنیادوں پر رقوم اکھٹی ہوتی ہیں۔کتابوں میں لکھے اخلاقیات اور مذہب
کے ا منوآشتی کے اسباق کہیں دور اندھیرے میں دبکے ہوئے ہیں۔عمر ساری تو
اندھیرے میں کٹ نہیں سکتی روشنی کے حصول کے لیے ابھی لمبا سفر درپیش ہے۔
تعلیم ،امن ،صحت، روزگار سماجی انصاف معاشرے کو امنوآشتی کا گہوارہ بنا
سکتے ہیں۔نبی پاکﷺ کا فرمانِ عالیٰ شان ہے کہ وہ شخص ہم میں سے نہیں جس کے
ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ نہیں۔قصور پولیس کا نہیں بلکہ اِس کو
کرپٹ کرنے والوں کا ہے جو پولیس کو دباؤ میں رکھ کر اُس سے ہرناجائز کام
کرواتے ہیں جب پولیس سے حکمران ہی ناجائز کام کروائیں گے تو پھر پولیس کیسے
قانون کی پابندی کرئے گی۔ |