پاکستان ایک جذبہ ایک جنون

بروز جمعہ آگے آنے والی تعطیل کے حوالے سے خوشی اور اطمینان کا تھکاوٹ شکن احساس تھا۔میں درس و تدریس کے فرائض کی انجام دہی کے بعد سستانے کے لئے ریسٹ روم میں آیا ہی تھا کہ ایک محبت بھرا حکم نامہ میرا منتظر تھا۔متن کا مفہوم کچھ یوں تھا کہ لٹریری فورم کے زیر اہتمام 12سے 16 سال کی عمر کے بچوں کے درمیان"پاکستان،ایک جذبہ ایک جنون" کے عنوان سے ایک تقریری مقابلے کا انعقاد کیا گیا ہے، جس میں دو اضلاع کے 16 سے زائد اسکولوں کے بچے حصہ لیں گے اور بطور جج آپ کی خدمات نا صرف ہمیں درکار ہیں بلکہ ہم نے اپنے صیغہ محبت میں منتقل کر بھی دی ہیں،لہذا وقت کی پابندی کیجیے گا۔ایک لمحے میں وہ تمام خوشیاں غارت ہو گئیں جو اس ویک اینڈ سے منسوب تھیں۔پیغام تیار کرنے والے نے خاص مہارت سے لفظوں کو ترتیب دیا تھا اور متن میں انکار کی گنجایش تک نہ چھوڑی تھی۔ چارو ناچار قاصد کو ہاں کہہ کر رخصت کیا اور خود بے بسی کے عالم میں سوچنے لگا کہ گھر کے اندر اور باہر دوستوں کو کن الفاظ میں اتوار کو اپنی عدم دستیابی کی اطلاع پہنچانی ہے ۔پھر دل میں بار بار یہ خیال آتا کہ چھوٹے بچے ہیں کیا تقریر کریں گے۔کبھی سوچتا کہ مجھے باری باری سب کی تقریر سننا پڑے گی۔کبھی یہ خیال ذہن کی سلوٹوں پر ابھرتا کہ اتنے چھوٹے بچے تلفظ کیونکر صحیح ادا کر پائیں گے۔کبھی یہ گمان غالب آتا کہ ان چھوٹے بچوں کو کیا علم کہ جذبہ حب الوطنی کیا ہوتا ہے۔کبھی یہ سوچ خیالات میں خلل ڈالتی کہ بچے سب ایک جیسے معصوم ہوتے ہیں ،میں ان میں فرق کیسے کر سکوں گا۔غرض اسی فکر میں دو دن گل ہو گئے اور وہ گھڑی آ گئی کہ جب میں ڈائس پر کھڑا حاضرین اور شرکاءِ مقابلہ کو مقابلے کے قواعد و ضوابط پڑھ کر سنا رہا تھا۔ایک جملے پر پہنچ کر میری زبان لڑکھڑا گئی۔لکھا تھا،"اوپر سے دیکھ کر تقریر کرنے والے کو نا اہل قرار دیا جائے گا"۔لو یہ کیا بات ہوئی بھلا؟اگر اس شق پر عمل کرنے لگے تو پھر تو ہمارے سارے سیاستدان نا اہل قرار پائیں گے۔میں سوچنے لگا کہ اگر وہ اتنے بڑے ہو کر قومی جذبے پر زبانی تقریر نہیں کر سکتے تو اتنے کم عمر بچوں سے زبانی تقریر کی امید رکھنا سراسر نا انصافی ہے ؟خیر قواعد و ضوابط قلمبند تھے اور میرے پاس کابینہ کی اکثریتی تعداد بھی موجود نہ تھی کہ خاموشی سے اپنی مرضی کی ترمیم کر لیتا۔ تقریری مقابلہ شروع ہوا۔میں نے پہلے مقرر کو دعوت خطاب دی۔اس نے رسمی انداز میں تقریر کا آغاز کیا ۔میں نے رسمی اندازمیں جانچنا شروع کیا۔ننھے مقرر کے منھ سے لفظ دھاروں کی طرح بہہ رہے تھے کہ اچانک ایک جوشیلی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔صاحب صدر! یہ پاکستان ہے راشد منہاس کی ماں کا،جس کے پھول جیسے بیٹے نے اپنے جسم کے ٹکڑے فضاؤں میں بکھیر کراس وطن کی فضاؤں میں اپنے لہو سے قوس قزح کے رنگ بھر دیے۔یہ پاکستان ہے سوار محمد حسین کے بوڑھے باپ کا،جس نے اپنا آخری سہارا بھی وطن عزیز کے تحفظ کی خاطر قربان کر دیا۔ماحول بدل چکا تھا۔پہلے ہی مقرر نے میری اور ہال میں موجود حاضرین کی کیفیت،طبیعت اور رائے بدل کے رکھ دی تھی۔میرے رونگھٹے کھڑے ہو گئے،جسم کپکپا نے لگا،پور پور میں سنسنی بھر گئی،آواز بھرا گئی،مجھے ہوش نہ تھی لیکن میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اب حاضرین میں سے کوئی بھی اس کیفیت سے مبرا نہیں تھا۔مقررین اپنی باری سے آتے گئے،اگلے مقرر نے پھر چونکنے پر مجبور کر دیا۔صاحب صدر! یہ وہ پاکستان ہے جہاں پانچ وقت اذانوں کی آوازیں ہواؤں کو معطر کرتی ہیں۔سجدوں کا تقدس ارض پاک کی پاکیزگی میں اضافہ کرتا ہے ۔کھیتوں میں لہلہاتی فصلیں اور چمنستانوں میں رقص کرتے پھول ہماری امن اور حریت کی داستانیں رقم کرتے ہیں،مگر اب یہ حالات نے کیا کروٹ بدلی کہ عالم کا رنگ ہی بدل گیا۔رنگ سہمے سہمے دکھائی دینے لگے ہیں۔ ہوائیں رک رک کر چلنے لگی ہیں۔رہبر امن و شرافت کی قدروں کو پامال کرنے لگے ہیں۔یہ لہو میں نہائے ہوئے قبروں میں اترنے والے کون ہیں؟یہ میرا لہو ہے۔یہ پاکستان کا لہو ہے۔
یہ میں کس کے نام لکھوں جو الم گذر رہے ہیں
میرے شہر جل رہے ہیں،میرے لوگ مر رہے ہیں

معصوم فرشتے آتے گئے اور دل پر کاری ضرب لگاتے گئے۔میں ورطہ حیرت میں گم قوم کے ان بچوں میں وہ جذبہ دیکھ رہا تھا کہ جس کے آگے بڑے سے بڑے دشمن بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائیں۔ان جذبوں کے آگے طاقتور سے طاقتور دشمن کو بھی ٹکنے کی مجال نہ ہو۔آج میرے سارے اندازے غلط ثابت ہو رہے تھے۔میں مایوس تھا کہ میری قوم کے اندر جذبہ حب الوطنی ماند پڑ چکا ہے،نئی نسل کو اس موضوع سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ان کی ترجیحات بدل چکی ہیں مگر یہاں تو منظر ہی اور تھا۔مجھے کوئی ٹیپو سلطان نظر آ رہا تھا تو کوئی محمدبن قاسم ،کوئی محمود غزنوی کا روپ دھارے ہوئے تھا تو کوئی سلطان صلاح الدین ایوبی کی تمثیل بنا بیٹھا تھا۔ کسی میں اقبال کا شاہین بول رہا تھا تو کسی میں الپ ارسلان کی للکار سنائی دے رہی تھی،کوئی طارق بن ذیاد کے نقش قدم پر چلتا نظر آ رہا تھا تو کسی میں محمد علی جناح کی روح تڑپ رہی تھی۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں رتبے کا خیال کئے بغیر اٹھ کر اپنی قوم کے ایک ایک بچے کو سلیوٹ کروں۔ میری آنکھوں میں جھلملاتے جگنو پلکوں کی سرحد پار کر کے حدوں سے متجاوز ہو رہے تھے اور ان کا تھمنا محال تھا۔وطن کے حوالوں سے میرے اندیشے امید کے سورج کی روشنی سے منور ہو چکے تھے۔ میرے سامنے قوم کے وہ آ ہنی سپوت سینہ تان کر کھڑے تھے،وہ مضبوط و محفوظ ہاتھ بلند تھے کہ جنہوں نے آئندہ میرے ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنی ہے ۔یہ امر اتنا تسلی بخش ہے کہ فرط محبت سے دل لوٹ ہو رہا ہے۔سلام ہے ان والدین پر اور ان اساتذہ پر جنہوں نے بچوں میں وطن سے محبت کا یہ جذبہ بھرا ہے ۔ایسی تقریبات کا انعقاد ہر سطح پرہوتے رہنا چاہیے ۔ہمیں 23 مارچ،28 مئی، 14 اگست،6ستمبر،9 نومبر اور 25 دسمبر کے علاوہ بھی وطن سے محبت کا اظہار کرتے رہناچاہیے۔کاش یہ تقاریر میرے وطن کے حکمران بھی سنیں،کاش کہ وطن سے محبت کا یہ جذبہ ان میں بھی لوٹ آئے یا وہ لوٹ آئیں جن میں یہ جذبہ موجود ہو۔

Prof Awais Khalid
About the Author: Prof Awais Khalid Read More Articles by Prof Awais Khalid: 36 Articles with 34805 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.