اسلام کا معیار تکریم

اس ربع مسکوں پر مختلف قوم،مختلف رنگ ونسل اور مختلف مذہب و مسلک کے ماننے والے لوگ بسے ہوئے ہیں۔اوریہ رنگ و نسل کا اختلاف شروع زمانے سے چلا آیا ہے،اس کے اثرات ہر زمانے میں نظرآتے ہیں،پھر زمانۂ قدیم ہی سے قوم و خاندان اور ذات پات کو عزت و ذلت کا معیاراور کسوٹی گردانا گیا ہے ،جس کے سبب بہت سی خرابیاں پیدا ہوئی اور بڑے بڑے تغیرات وقوع پذیر ہوئے،قوموں کی باہمی تفریق اور منافرت بھی اسی سبب سے ہے۔مذہب اسلام نے نہ صرف اس تفریق کی بنیاد کو ختم کیا بلکہ اس ذات پات ،قومی نسلی ورنگی عزت و ذلت کے معیار کی جڑ کاٹ دی۔چنانچہ اﷲ رب العزت نے ارشاد فرمایا: یا ایھا الناس انا خلقنکم من ذکر و انثی وجعلنکم شعوبا و قبائل لتعارفوا ان اکرمکم عند اﷲ اتقکم ان اﷲ علیم خبیر(سورہ حجرات آیت ۳۱)
ترجمہ:اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تم کو مختلف خاندان بنایا ہے تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرسکو اﷲ کے نزدیک تم سب میں بڑا شریف وہی ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو، اﷲ خوب جاننے والا پورا خبردار ہے(بیان القرآن) اس آیت کریمہ کے اندر اﷲ جل و علی نے مساوات کا عظیم اصول بیان فرمایا ہے کہ: کسی کی عزت و شرافت کا معیار اس کی قوم اس کا قبیلہ اور اس کا وطن نہیں ہے بلکہ تقوی ہے۔ اور اﷲ تعالی نے مختلف قبائل خاندان اور کنبے صرف اور صرف اس لیے بنائے ہیں کہ دنیا میں بسنے والے بے شمار انسانوں میں باہمی پہچان بن جائے۔اس آیت کریمہ کی تفسیر میں مولانا عبدالماجد دریابادیؒ رقم طراز ہیں: انسان کو ایک مرد اور ایک عورت (آدم و حوا) سے پیدا کیا اس لحاظ سے سارے انسان یکساں و ہم سطح ہوئے، شعوبا و قبائل لتعارفوا کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ: اس لیے مختلف قوموں اور خاندانوں میں تقسیم بنیاد تفاخر کی نہیں ہوسکتی، البتہ بنیاد باہمی امتیاز و تعارف کی ہے۔نیز جعلنکم اور خلقنکم دونوں لفظوں سے اشارہ اس طرف ہے کہ یہ تو جو کچھ کیا ہے ہم نے کیا ہے ، تمہارے امتیاز وافتخار کا اس میں کونسا پہلو ہے؟

الحاصل اﷲ رب العزت والجلال کے نزدیک شرف،فضیلت و مقبولیت تمامتر ذاتی پرہیزگاری پرمبنی ہے نا کہ قوم و نسل ا ور آباؤاجدادپر فخرکرنے میں، کسی کے برہمن اور چھتری ہونے میں اس کی عزت ہے، نا کسی کے پارسی اور ہریجن ہونے میں ذلت۔ اﷲ تعالی نے انسانی آبادی کی تقسیم صرف دو ہی وطبقوں میں رکھی ہے متقی اور غیر متقی۔ اس کے علاوہ اس کے یہاں نہ امیر وغریب کی تقسیم ہے نہ رنگ و نسل کی، نہ گورے کالے کی اور نہ خاندان وپیشے کی۔

معلوم یہ ہوا کہ اسلام کا معیارِ عزت وتکریم تقوی اور پرہیزگاری اور طاعت و فرماں برداری ہے،قوم وخاندان ،کنبے اور قبائل صرف باہمی تعارف اور امتیاز کے لیے ہے۔ حدیث شریف میں ہے من بطأ بہ عملہ لم یسرع بہ نسبہ (جس کا عمل اس کو پیچھے کردے اس کا نسب اس کو آگے نہیں بڑھا سکتا) حضرت عبداﷲ ابن عمر کی روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر(تاکہ سب لوگ دیکھ سکیں) طواف فرمایا، طواف سے فارغ ہوکر آپنے خطبہ دیا ، جس میں فرمایا: الحمدﷲ الذی اذھب عنکم عیبۃ الجاہلیۃ وتکبرھا، الناس رجلان: بر تقی کریم علی اﷲ وفاجر شقی ھین علی اﷲ ثم تلا یا ایھا الناس انا خلقنکم الآیۃ (البغوی،شرح السنۃ ۶/۵۰۶)تمام تعریف اس اﷲ کے لیے ہے جس نے تم سے جاہلیت کی نخوت اور تکبر کو دور کردیا، آدمیوں کی دو ہی قسمیں ہیں، مومن تقی جو پرہیزگار ہو وہ اﷲ کے نزدیک عزت دار اور کریم ہے، اور جو شخص فاجر شقی ہے وہ اﷲ کی نظر میں ذلیل و خوار ہے پھر آپ (صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی (آیت) ’’ان اکرمکم عند اﷲ اتقکم‘‘۔

متعدد آیا ت وروایات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ عزت و تکریم اور فضیلت و برتری کا معیار اﷲ رب العزت کے نزدیک تقوی اور پرہیزگاری،اطاعت و فرماں برداری اور اعمال صالحہ ہیں،مال و دولت،قوم و خاندن، برادری و ذات یہ عزت و ذلت کا معیار نہیں ہے۔
چنانچہ علامہ اقبال نے خوب کہاہے:
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

سرخروئی و کامیابی شرافت و بزرگی،عزت وتکریم اسی کی ہے جو متقی ہو،اور جو تقوی میں اونچا ،اعلی اور اتقی ہے وہی اﷲ کے نزدیک بڑا شریف اور مکرم ہے۔ لہذاہم کو چاہیے کہ ذات پات،رنگ ونسل اورخاندان کی بندشوں میں عزت و بڑائی کو نہ تلاش کریں،بلکہ قبائل وخاندان کی تفریق سے نکل کر تقوی وطہارت اوراطاعت الہی پر گامزن ہوں،عزت وبڑائی اﷲ کے قبضۂ قدرت میں ہے اور وہ ہی اپنے متبعین کو عطاء کرتا ہے۔خداوند قدوس سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق ارزانی فرمائیں۔آمین

Shoaib Alam Qasmi
About the Author: Shoaib Alam Qasmi Read More Articles by Shoaib Alam Qasmi: 7 Articles with 5243 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.