کیا آپ ڈپریشن کا شکار ہیں ؟

تحریر:حوریہ ایمان ملک،سرگودھا
ڈپریشن یعنی ذہنی دباؤ ایک ایسی کیفیت ہوتی ہے جس میں انسان اپنے آپ کو دکھی اور اداس محسوس کرنے لگتا ہے۔ ڈپریشن کے ساتھ ظاہر ہونے والی دیگر علامات انسان کی روز مرہ کی سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کرتی ہے جس کے باعث وہ اور اس کے قریبی لوگ سخت تکلیف و پریشانی کا سامنا کرتے ہیں۔

اکثر لوگ وقتی اداسی اور مایوسی کی کیفیت کو بیان کرنے کے لیے ڈپریشن کا لفظ استعمال کرتے ہیں ، جو کہ کچھ دیر بعد اکثر اپنے آپ ٹھیک بھی ہو جاتی ہے۔حقیقت میں یہ ڈپریشن نہیں۔ طبی ڈپریشن دراصل وہ ڈپریشن ہے جس سے نمٹنے کے لیے ماہر نفسیات کی مدد درکار ہوتی ہے ، چونکہ یہ ایک سنجیدہ نوعیت کا اعصابی دباؤ ہوتا ہے جو خود بخود ٹھیک نہیں ہوتا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اسے ایک سنگین طبی مرض کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔

علامات:
جو شخص ڈپریشن کا شکار ہو اسے ہر وقت اضطراب و بے چینی کی کیفیت کا سامنا رہتا ہے۔ وہ خود میں اور اپنی زندگی میں ایک خالی پن محسوس کرنے لگتا ہے۔ وہ زندگی جینے کی اور خوش رہنے کی امید کھو بیٹھتا ہے۔ ایسے شخص کی سوچ منفی ہوجاتی ہے اور اس کے اندر ایک روشن مستقبل کی امیددم توڑنے لگتی ہے۔ ڈپریشن میں گرفتار شخص کو اپنی زندگی بے معنی لگنے لگتی ہے اور وہ مستقل پشیمانی اور احساس جرم میں مبتلا رہتا ہے۔ ایسے لوگ اکثر چڑچڑے اور بے چین رہنے لگتے ہیں جن سے ان کی ذاتی و پیشہ ورانہ زندگی پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ دیگر علامات میں نیند کا نہ آنا یا ضرورت سے زیادہ نیندکا آنا شامل ہے۔ ایسے لوگ روز مرہ کی سرگرمیوں میں اپنی دلچسپی کھو دیتے ہیں یہاں تک کہ ان کی جنسی زندگی بھی اسی ذہنی دباؤ سے متاثر ہونے لگتی ہے۔

انسان دو صورتوں میں ذہنی و اعصابی دباؤ کا شکار ہوتا ہے ، ایک تو تب جب وہ شدید جذباتی کیفیت(mania) میں ہو اور دوسرا جب وہ احساس مایوسی کا شکار اور کچھ بھی محسوس کرنے سے قاصر ہو(depression)۔

ذہنی دباؤ کا شکار انسان غور و فکر کرنے اور فیصلہ کرنے میں دشواری محسوس کرتا ہے۔ ساتھ ہی اس کی یاداشت بھی کمزور ہوجاتی ہے۔ ڈپریشن کی ایک علامت بھوک کا کم لگنا یا زیادہ بھوک لگنا بھی ہے۔ اس کے علاوہ ایسے لوگ سر اور جوڑوں میں درد اور انہضام کے عمل میں دشواری کا سامنا کرتے ہیں۔ علاج کے باوجود بھی بعض اوقات ان تکالیف پر قابو پانا مشکل ہوجاتا ہے۔ یہ تمام تکالیف بعض اوقات اس حدتک بھی بڑھ جاتی ہیں کہ انسان خود کشی کے بارے میں بھی سوچنے لگ جا تا ہے۔

وجوہات:
ڈپریشن کیوں ہوتا ہے ؟ ڈپریشن یا ذہنی دباؤ کی کوئی ایک وجہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے کئی جینیاتی، حیاتیاتی، معاشرتی اور نفسیاتی عناصر شامل ہیں۔ ایم آر آئی (میگنیٹک ریسونینس امیج) سے معلوم ہوتا ہے کہ ذہنی دباؤ کا شکار لوگوں کا دماغ عام لوگوں کے دماغ سے مختلف ہوتا ہے۔ ڈپریشن کا شکار شخص کے دماغ کا وہ حصہ جس سے موڈ، بھوک، نیند اور اس کے رویے کا تعلق ہوتا ہے دیگر لوگوں سے الگ ہوتا ہے۔ قدرتی طور پر ہی ذہنی دباؤ کا شکار لوگ عام لوگوں سے مختلف انداز میں برتاؤ کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے روزانہ صبح اٹھ کے کپڑے تبدیل کرنا اور تیار ہونا ہی ایک انتہائی مشکل عمل بن جاتا ہے۔

اقسام:
یاد رہے کہ ذہنی دباؤ عموماً آگے چل کر دیگر شدید نوعیت کی اعصابی وذہنی بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے۔ ہمارے ارد گرد ہمیں ایسے کئی لوگ ملتے ہیں جو ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں۔ بہت حد تک ممکن ہے کہ وہ اس بات سے ناواقف ہوں۔ ڈپریشن کی مختلف اقسام ہوتی ہیں۔ ہر شخص میں ذہنی دباؤ کی مختلف علامات نظر آتی ہیں۔ اس کی شدت، نوعیت اور قسم کا تعلق انسان کے ماحول اور اس کی انفرادی خصوصیات سے ہوتا ہے۔

شدید ذہنی دباؤ:
عام طور پر لوگ زیادہ تر اسی قسم کے ڈپریشن سے دوچار ہوتے ہیں۔ اس کی علامات بھی کافی شدید ہوتی ہیں۔ اس قسم کے ذہنی دباؤ سے انسان کی کام کرنے، سونے، پڑھائی کرنے اور زندگی سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت ماند پڑنے لگ جاتی ہے۔

مستقل محسوس ہونے والا ذہنی دباؤ:
یہ دیرپا رہنے والا ڈپریشن ہوتا ہے جس کی کم از کم مدت دو سال ہوتی ہے۔

مخصوص صورتحال میں محسوس ہونے والا ذہنی دباؤ:
اس قسم کا ذہنی دباؤ انسان کو کسی خاص موقع پر ہی محسوس ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر پوسپارٹم (postpartum) ڈپریشن وہ ڈپریشن ہے جو حاملہ مائیں بچے کی پیدائش کے بعد محسوس کرتی ہیں۔ بعض لوگ سردیوں کے موسم میں اعصابی دباؤ محسوس کرنے لگتے ہیں۔ ایسے لوگ بہار یا گرمیوں کے موسم میں ہلکا پھلکا اور ترو تازہ محسوس کرتے ہیں۔

پاکستان میں اعصابی دباؤ کے اثرات:
پاکستان میں بڑی تعداد میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو کسی نہ کسی شکل میں یا عمر کے کسی نہ کسی حصے میں اعصابی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں۔ مردوں سے زیادہ عورتیں ڈپریشن کا شکار پائی جاتی ہیں۔ پاکستان میں ڈپریشن سے متاثرہ افراد کی شرح 44.4 فی صد ہے جن میں 25.5 فی صد مرد اور57.5فی صد خواتین شامل ہیں۔ البتہ پاکستان میں اس مرض کے بارے میں بہت ہی کم تحقیق کی گئی ہے۔ جس کے باعث زیادہ تر لوگ جانتے ہی نہیں کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہیں۔

ہمارے ملک میں اچھے اور تجربہ کار ماہر نفسیات کی شدید ضرورت ہے۔ ایسا نہیں کہ پاکستان کے ماہر نفسیات اعلی پائے کے نہیں لیکن ان کی تعدادضرورت کے حساب سے بے حد کم ہے۔ ڈپریشن سے متعلق آخری مردم شماری 1998 میں ہوئی تھی اور ایک اندازے کے مطابق اس شرح میں پچھلے 17سالوں میں بڑی حد تک اضافہ ہوا ہے۔

ڈپریشن کسی بھی جسمانی بیماری کی طرح ایک قابل فکر لیکن قابل علاج مرض ہے۔ اسی لیے ذہنی دباؤ سے متاثرہ لوگوں کو محض خوش رہنے کی تلقین کرنے کے بجائے ان کے مسائل اور ذہنی کیفیت کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1141838 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.