نہ تخت وتاج میں نہ لشکروسپاہ میں ہے
جوبات مردِقلندرکی ایک نگاہ میں ہے
یہ روشن وتابناک دَورجسے عقل وخردکازمانہ کہاجاتاہے،جہاں اُس نے ذہن
وفکرکونئی روشنی اورجدیداُجالے دیے ہیں وہیں روح کے بعض گوشوں کودبیزتاریکی
اورگھنگوراندھیرابھی دیا۔اتنی گہری تاریکی کہ نئی روشنی کے ذہن ومزاج کے
لئے خداکاوجودمشکوک ہوگیا۔رسولوں کی بے غباررسالت پرشکوک وشبہات کی
گردغبارڈال دی گئی۔اولیاء اﷲ کی کرامتیں عہدِماضی کے قصّے قراردیے
گئے۔انسانیت کواس تاریک ترین ماحول سے نجات دلانے کے لئے ضروری ہے کہ قدم
قدم پرروحانیت کی مشعلیں روشن کی جائیں،شمعیں جلائی جائیں اورچراغ راہِ
منزل کااُجالاکیاجائے ۔تاکہ عہدِجدیدکی مادّی تاریکیوں میں بھٹکنے والے لوگ
اس شمع ہدایت کی رشنی میں اپنی منزل کانشان تلاش کرسکیں۔
ختم نبوت کے بعدسے آج تک علماء،صلحاء اوراولیاء کی مقدس جماعت نے دین متین
کی اشاعت کے فرائض انجام دیئے ہیں اوراسی محترم جماعت نے
کفروالحاداوربدمذہبیت کے تاریک ترین دَورمیں اسلام کی روشنی اوردین
کااُجالاپھیلاہے۔سچ پوچھئے توہمارے ملک ہندوستان میں اولیاء اﷲ اوران کی
کرامتوں نے اسلام کی سب سے زیادہ خدمت کی ہے۔راجستھان کی خشک پہاڑیوں کے
دامن سے لے کربنگال کی مرطوب سرزمین تک جہاں کہیں اسلام کوفروغ ہواوہ
اُنہیں اصحابِ کرامت بزرگوں کے طفیل اورصدقے میں ہوا۔اولیاء اﷲ کی کرامتیں
دِلوں کے سیاہ زخم پرچلانے کاایک تیزنشتراورکفرکاسینہ چاک کرنے کاایک عظیم
خنجرہے۔اگرعطائے رسول ،حضرت خواجہ غریب نوازؒکی مبارک نعلین فضامیں
پروازکرنے والے کاتعاقب نہ کرتی توشایدجوگی جے پال جیساساحر اِس
قدرجلدمسلمان نہ ہوتا۔اولیاء اﷲ کی کرامتوں نے نہ جانے کتنے گمراہوں کوراہِ
حق دکھایا۔ہدایتوں سے ہمکنارکیا اورصراط مستقیم کی راہ دکھائی اوررہتی
دنیاتک دکھاتی ہی رہے گی۔
عہدحاضرکی لائق صدتکریم ذات اورقدم قدم پرعقیدتوں کے پھول نچھاورکئے جانے
والے جنوب ہندکی عظیم شخصیت ہے رازیٔ دَوراں ،غزالی ٔزماں،عمدۃ
المحدثین،سیدالمحققین ،حامی سنن،ہادیٔ دَکن،ماحی ٔ بدع وفِتن،آئینۂ ذاتِ
رضا،وقت کے بوحنیفہ،اولادِرسول ،جگرگوشۂ بتول،شمس العلماء پیرسیدمقبول
احمدشاہ قادری ابن پیرسیدنعمان شاہ قادری سہروردی شامی کشمیرعلیہ الرحمۃ
والرضوان کی ،جن کی زندگی کاایک ایک لمحہ اورحیات کی ایک ایک ساعت سرمایۂ
سعادت اوردولتِ افتخارہے۔جن کی ساری عمرشریعت کاعلم پھیلاتے اورطریقت کی
راہ بتلاتے گزری اورجن کی زندگی کاایک ایک عمل شریعت کی میزان اورطریقت کی
ترازوپرتولاہواہے۔اس دورمیں خودممدوح کی شخصیت مسلمانانِ کرناٹک کی سرمدی
سعادتوں کی ضمانت ہے۔
آپ کی پیدائش 1313ھ مقام ڈنگی وچہ،ضلع بارہ مولہ(صوبہ کشمیر)میں ہوئی۔
تمام علوم نقلیہ وعقلیہ کے حصول کے بعدخدمت دین انجام دینے کے لئے جنوب
ہندکے ضلع ہاویری(کرناٹک) کامشہورومعروف قصبہ ''ہانگل شریف ''میں آپ تشریف
لائے جبکہ وہاں بدمذہبیت اور گمراہیت دن بدن ترقی وعروج پرتھی،سادہ لوح
مسلمانوں کے ایمان کولوٹنے میں ایری چوٹی کا زورلگایاجارہاتھاغرضیکہ کوئی
بھولے بھالے مسلمانوں کو اپنے دام فریب میں لاکرمحبت رسول ،عقیدت اسلاف
واولیاء کوچھننے کی ناپاک سازش کررہے تھے ایسے پُرفتن ماحول میں حضرت
پیرسیدمقبول احمدشاہ قادری کشمیری علیہ الرحمہ نے اپنے فیضان علم اورتوفیق
الٰہی سے ہزاروں مسلمانوں کوراہ راست دکھاکران کے ایمان کو پختہ اورعقیدوں
کو مضبوط کردیا۔
آپ کاگھرانادین وملت ،علم وادب اورتقویٰ وطہارت کاسرچشمہ ہے ۔آپ کی علمی
لیاقت اورآپ کی کرامتوں کاچرچہ ہندوستان کے ہرعلاقہ خصوصاکرناٹک میں بہت
مشہورومعروف ہے۔آپ کی ذات ہرجہت سے ہمہ صفت موصوف نظرآتی ہے جہاں آپ علم
وفن کے گنج گراں مایہ تھے وہیں آپ کی زندگی کاہرگوشہ شریعت اسلامی کی
پاسداری کااعلیٰ نمونہ تھا،آپ کی ایمانی جرأت کسی بھی قسم کی مصلحت کوشی
اورچشم پوشی سے مبراتھی،خلاف شرع کام دیکھ کرفوراًاس کے ازالے کی کوشش
فرماتے،کوئی بے داڑھی والامسلمان اگرسامنے آجاتاتواُسے داڑھی رکھنے کی
تلقین فرماتے،یوں ہی اگرکوئی کھلے سرآپ کی بارگاہ میں حاضرہوتاتواسے
سرپرٹوپی رکھنے کی تاکیدفرماتے،دینی محافل اورجلسے وغیرہ میں اگرکسی خطیب
وشاعرسے کوئی خلاف شرع بات صادرہوتی توبرملااُسے ٹوکتے اورغلطی کاازالہ
فرماتے،توبہ کراتے،اگرکبھی کوئی مسلمان عورت بے پردہ نظرآتی توشدت کے ساتھ
اس سے پردہ کراتے،یوں ہی کسی کوسترعورت کھولے دیکھتے تواس فعل سے منع
فرماتے یااگرکوئی کام الٹے ہاتھ سے کرتاتواس کوروکتے اوراسلامی نظام اخلاق
سے اُسے آگاہ فرماتے اگرچہ وہ غیرمسلم ہی کیوں نہ ہو،کہ اسلام کی دعوت
کائنات کے ہرفردکے لئے ہے چاہے وہ قبول کرے یانہ کرے،چھوٹے چھوٹے بچے بچیوں
سے بڑی عقیدت ومحبت تھی،اُن کاروناآپ کوبے چین وبے قرارکردیتاتھایہی وجہ ہے
کہ آج بھی چھوٹے چھوٹے بچے آپ کے روضۂ مبارکہ کے قریب کثرت سے موجودرہتے
ہیں اورآپ کے فیوض وبرکات سے مالامال ہوتے رہتے ہیں۔
آپ کارخ انورپُرجلال تھااس کی ہیبت سے کسی کوآپ کے بارے میں آپ سے پوچھنے
کی جرأت نہیں ہوتی تھی اورآپ خودبھی دینی عقائدومسائل کے سوادوسری باتوں
کوبالکل پسندنہ کرتے تھے۔آپ فرماتے تھے کہ فضول باتوں میں پڑکروقت کیوں
ضائع کرتے ہو۔آپ فرماتے کہ کچھ کام کرویانمازپڑھو،ہرطرف سے آپ کے پاس مسائل
پوچھنے کے لئے سوالات آتے تھے ،آپ کومسئلہ بیان کرنے کے وقت کبھی حدیث بیان
کرنے کی ضرورت پڑتی تواتنے ادب سے حضوراکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کامقدس نام
لیتے کہ آنکھ سے آنسوٹپکنے لگتے تھے اورجب حدیث کی تشریح بیان کرنے لگتے
تومعلوم ہوتاتھاکہ تمام واقعہ جیسے آنکھوں کے سامنے ہورہاہے اورہم دیکھ رہے
ہیں۔اس وقت دنیاکی ساری خواہشات ختم ہوجاتی تھی اوردنیاسے بیزاری اورخدا
وَرسول سے غایت درجہ کی محبت پیداہوجاتی تھی۔آپ فرماتے تھے کہ ہم نے کسی
علم دین کوادھورانہیں چھوڑااگرہم چاہتے توبہت کچھ لکھ سکتے تھے مگراعلیٰ
حضرت فاضل بریلوی قدس سرہٗ جوبڑے بلندپایہ کے جیدبزرگ تھے،آپ کواﷲ تعالیٰ
نے سوسے زائد علوم عطافرمائے تھے ،تقریباً ایک ہزارسے زائد کتاب آپ نے
تحریرفرمائی ہیں، تمام علوم ان کی کتابوں میں موجودہیں۔
آپ نے فرمایاکہ ہم نے دین متین کی تبلیغ واشاعت کے لئے اپنے وطن مالوف
کوچھوڑااوردربَدرپھرتے رہے،اﷲ تعالیٰ کوکیامنظورتھا،افسوس!کہ ہماری یاد میں
روتے روتے ہماراساراگھرفناہوگیا۔آپ فرماتے ہیں کہ اس دنیامیں کتنے لوگ آئے
اورکتنے گئے کون رہاہے کون رہے گا،یہ دنیافانی ہے جس کے لئے بنائی گئی ہے
وہ اب نہ رہے توہم کب رہیں گے،آج ہم اپنے وطن سے ہزاروں میل دورہیں ،کہاں
کشمیراورکہاں ہانگل شریف۔
آپ غوث وقت آبروئے اہلسنت حضرت مفتی اعظم ہندعلامہ شاہ مصطفی رضاخان علیہ
الرحمہ کے ہم عصر تھے ۔غرضیکہ حضرت والاکی ذات عدیم المثال اوروحید عصرکی
تھی ۔آپ کے عرس مبارک کے پربہارموقع پرہزاروں عقیدت مندوں کاازدہام رہتاہے
اورزائرین ومعتقدین کادعویٰ ہے کہ ہماری مرادیں حل ہوتی ہیں اور تمناؤں
کاگلاب کھل جاتاہے۔
آپ نے اپنی دورحیات میں دینی ،ملی،ادبی ،تبلیغی اوراصلاحی خدمات کی انجام
دہی کے لئے ماہنامہ''الرشاد''کااجراء کیا۔یہ پہلارسالہ 1372ہجری شعبان
المعظم سے شروع ہوا،اس کے سارے مضامین معلومات کاخزانہ تھا،اس کے مثل آج تک
اطراف واکناف کاکوئی ادارہ ایسارسالہ پیش نہ کرسکا۔آپ نے دارالافتاء میں
بیٹھ کرفتویٰ نویسی کاکام بھی بہت انوکھے اندازمیں انجام دیا۔آپ کے فتاوے
سے ہی آپ کی تبحرعلمی کاپتہ چلتاہے۔
ہانگل شریف کے خوش عقیدہ سنی مسلمانوں کوآپ کی ذات سے بڑی عقیدت ومحبت
ہے۔ان لوگوں نے اپناتن من دھن سب کچھ آپ کے قدموں میں قربان کردیا۔آپ کی
تشریف آوری سے قبل ہانگل شریف میں لوگ غربت وافلاس کے شکارتھے مگراﷲ تعالیٰ
نے آپ کے قدم کی برکت سے غربت کاوہاں سے خاتمہ فرمادیااور لوگ آج خوشحالی
کی زندگی گزاررہے ہیں توگویایہ شہ ِ کشمیری ؒکاصدقہ ہے۔
آپ کی زبان اقدس میں وہ تاثیرتھی کہ جوفرماتے تھے وہ بفضل خداہوکرہی
رہتا،چنانچہ ایک صاحب اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے جامعہ ازہر قاہرہ مصرجانے
کے لئے اجازت مانگی حضرت والانے فرمایا کہ ''مرنے کے لئے وہاں کیوں
جاناچاہتاہے''جولوگ جاچکے تھے وہاں پھیلی طاعون کی بیماری میں مبتلاہوکرجان
سے ہاتھ دھوبیٹھے،گویاکہ حضرت والا کی نگاہ ولایت مشاہدہ کررہی تھی کہ
مصرمیں طاعون کاوباپھیلاہواہے لہذاوہاں جانا کوئی عقلمندی نہیں،کیونکہ جہاں
طاعون ہووہاں کے لوگوں کو دوسرے علاقہ میں جانے کاحکم نہیں اورغیرطاعون
علاقہ والوں کوطاعون زدہ علاقہ میں جانے کی اجازت نہیں۔
آپ نے تحفظ دین متین کی خاطردین کے دشمنوں سے سینہ سپرہوکرمقابلہ بھی
کیاہے،چنانچہ ایک نومولدفرقہ کے معتقدسے آپ کامناظرہ بھی ہواجہاں ہزاروں
لوگوں کامجمع تھافریق مخالف کامناظرگرجدارآوازمیں اپنی بات عوام
کوبتارہاتھاجونہی حضرت والا تشریف لائے اورکچھ سوال کیاتووہ ’’مولوی صاحب
‘‘دم بخود ہوکررہ گئے اورمزیدبولنے کی جرأت وجسارت نہ کرسکے اوراس طرح آپ
کوفتح مبین حاصل ہوئی۔
آپ نماز پنج گانہ ،اوابین و چاشت کے سخت پابندتھے اس لئے آپ نے وصیت فرمائی
تھی کہ میری نماز جنازہ وہی پڑھائے گاجس کی نماز تہجدکبھی بھی قضانہ ہوئی
ہوچنانچہ وقت جنازہ سب کوئی اپنے دائیں اوربائیں جھانک رہے تھے کہ یکایک
حضرت درویش باباعلیہ الرحمہ(شموگہ)آگے بڑھے اورآپ کی نماز جنازہ کی امامت
فرمائی۔۵؍صفرالمظفر۱۳۹۰ھ مطابق۱۲؍اپریل ۱۹۷۰ء( بروز اتوار۷؍بجکر۲۰؍منٹ
)پرآپ اپنے مالک حقیقی سے جاملے ۔ (اِناللّٰہ واِناالیہ راجعون)آپ
کامزارمبارک ہانگل شریف ضلع ہاویری (کرناٹک)میں مرجع خلائق ہے ۔
آخرمیں مولیٰ تعالیٰ کی بارگاہ عالی جاہ میں دعاء گوہوں کہ آپؒ کافیضان ہم
تمام مسلمانوں پرتاقیامت جاری وساری فرمااوران نفوس قدسیہ کی سچی الفت و
محبت عطافرما۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اﷲ علیہ وسلم۔
صدرالمدرسین:مدرسہ رضویہ غریب نوازوخطیب وامام سنی مؤمن مسجد،کونانور،ضلع
ہاسن(کرناٹک) |