مریالی موڑ ڈیرہ اسماعیل خان کی وہ جگہ ہے جہاں سے ڈیرہ
اسماعیل خان میں رہنے والا ہر شخص ضرور واقف ہے، اگر مریالی مور کو کسی نے
نہیں دیکھا تو یہ اس کی خوشبختی ہے،مگر نام سے ضرور واقف ہو گا، یہ ڈیرہ
اسماعیل خان میں ایسی جگہ پر واقع ہے جہاں ڈیرہ میں آنے والوں کو اپنے لہجے
میں سب سے پہلے ویلکم کہتا ہے اور ڈیرہ سے جانے والے بھی بیشتر مریالی موڑ
سے ہو کر گزرتے ہیں اور یہ موڑ انہیں دور تک مٹی سے اٹا چہرہ لئے خدا حافظ
کہتا ہے اور جانے والے ڈری ڈری حیرت سے پھٹی نگاہوں سے اسے پیچھے مڑ مڑ کے
ایسے دیکھتے ہیں جیسے مٹی کا کوئی طوفان ان کا پیچھا کر رہا ہومگر وہ
بیچارہ معصوم سا مریالی موڑ ہوتا ہے مریالی موڑ کے سینے پر وقت نے آہنی
جوتے پہن کر ایسی دھمالیں ڈالی ہیں کے ان کے آثار آج بھی اس کے سینے پر
واضع نظر آتے ہیں بلکہ نبیانا افراد بھی ان آثار کو صرف بخوبی دیکھ سکتے
ہیں اور تو اور دوکانداروں نے بھی اب دکانوں پر لکھنا شروع کر دیا ہے کہ
مریالی موڑ کے بننے تک ادھار بند ہے ڈیرہ کے آثار قدیمہ کی لسٹ میں شامل بے
چارہ مریالی موڑ۔ اتنی کسمپرسی کے باوجود آج بھی اپنی شخصیت پہ نازاں یوں
اکڑے رہتا ہے جیسے کولمبو امریکہ دریافت کرنے اسی سے پوچھ کر گیا ہومریالی
موڑ پر دو چیزیں کثرت سے پائی جاتی ہیں ، ایک بھکاری اور دوسرے کتے بارشوں
کے دنوں میں مریالی موڑ کا نظارہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ ایک تو
بارش کے بعد دھول مٹی کا طوفان تھم جاتا ہے اور اسکرین ایک دم کلئیر ہو
جاتی ہے جسمیں مریالی موڑ ایسا لگتا ہے جیسے کسی پنڈ کا چوہدری سفید اجلی
قمیض میں ملبوس کاندھے پہ سڑک کے رنگ کی شال رکھے۔۔۔ آنکھوں میں سرمیلی شام
کی کالک بھرے کچھ زیادہ ہی ہو گیا نا !!!!! اچھا رہنے دیں رش میں چلتا ہے
مریالی موڑ پر ویسے بھی بہت رش ہوتا ہے بارش کے بعد مریالی موڑ کے اوبڑ
کھابڑ دامن میں پانی اس انتہا سے جمع ہو جاتا ہے کہ جیسے مریالی موڑ نہیں
ڈیم ہو اس ڈیم سے گزرنے والا ہر آدمی اس سے فیض یاب ہوتا ہے پانی کی بوندیں
ہرآدمی سے یوں لپٹتی ہیں جیسے صدیوں کا سنجوک ہودیکھنے لائق منظر ہوتا ہے
جب کسی کا موٹر سائیکل پانی کے بیچوں بیچ بند ہو جائے سب سے پہلے وہ اپنے
آس پاس دیکھتا ہے کہ کوئی اسے دیکھ تو نہیں رہا اگر کوئی دیکھ کر ہنس لے تو
بس پھر اس کا دن خراب اور نا دیکھ رہا ہو تو وہ اس معصومیت سے منہ بناتا ہے
جیسے وہ آج پہلی بار موٹر سائیکل چلا رہا ہو وہ صاف کپڑوں اور نئے جوتوں کے
ساتھ پانی میں آخر کار اتر کر موٹر سائیکل کو کھینجنے لگ جاتا ہے کے اسے
پانے سے باہر لا سکے بالکل ایسے جیسے کوئی لوہے کا گدھا پانی میں بیٹھ جائے
اور مالک اْسے کھینچے باہر لانے کے لئے اچھا جب کوئی نیا یہ بہت دنوں بعد
بارش میں مریالی موڑ سے گزرے تو پانی نے اس ؤخبصورتی سے روڈ کو برابر کئے
ہوتا ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کہاں گڑھا ہے اپنی دھن میں آنے ولا جب ایک
دم گڑھے میں گرتا ہے توکئی ٹائروں کی خوشبو لئے ٹھنڈا یخ پانی کا ایک
چھینٹا جیسے ہی منہ پر پڑتا ہے تو ایک جھر جھری سی نکلتی تب جا کے وہ صاحب
اس پانی کی عظمت جانتے ہوئے اس میں غوطہ لگا تے ہیں اور ہم جیسے ادیب ہجر
کا ایک مچ اپنے اند جلائے زمانے کے کرب اپنے تخیل کی ہلکی ہلکی آنچ پر ہضم
کرنے لائق بناتے اگر بارش میں مریالی موڑ سے بارش میں گزریں تو اول تو وہ
پانی دیکھ کے گھر کو واپس ہی لوٹ جاتے ہیں اور اگر مجبوری ہو کے جانا ہی ہے
تو روڈ کے سائڈ سے کچے رستوں سے خود کو بھی اور سائکل موٹر سائیکل کو بھی
بچاتے ہوئے اس قدرآہستہ سے گزرتے ہیں جیسے ابھی ابھی اپریشن کرا کے آئے ہوں
اسی اثناء میں کوئی گاڑی گزرتی ہے اور پانی کا ایک دیو قامت چھینٹہ موصوف
کے اوپر گرتا ہے تو ادیب سے ایک شررررر کی آواز آتی ہے جیسے کسی گرم تووے
پر پانی کا چھینٹہ ماریں مریالی موڑ پر اﷲ پاک کا یہ بھی خوصوصی کرم ہے کہ
ایک گھنٹے کی بارش کا اثر ایک ماہ تک ایسے رہتا ہے جیسے ابھی ابھی بارش
ہوئی ہو اور اس کے بعد بھی گیلے گیلے آثار کئی مہینوں تک آسانی سے مل جاتے
ہیں بشرط یہ کہ اس دوران دوبارہ بارش نہ ہو توہاں پر گردے میں پھتری کے
مریضوں کے لئے بہت مفید رستہ ہے۔۔۔ کہ مریالی موڑ سے پڑنے والے خطرناک قسم
کے ہچکولے بعض اوقات گردے کی پتھری کو بھی منہ میں لے آتے ہیں یہاں سے
گزرنے والوں کو ایسا لگتا ہے جیسے بڑے جھولے پر بیٹھ کر تاروں کو چھونے جا
رہے ہوں میں حکومت وقت سے مریالی موڑ کے بنانے کی التجا نہیں کرتا وہ ان کا
کام ہے اور وہ مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ کب بنایا جائے بارحال میں صرف اتنا
کہوں گا کہ مہربانی فرما کر مریالی موڑ سے پہلے اور بعد میں دو عدد حمام
بنا دئے جائیں تاکہ مریالی موڑ سے جانے کے بعد یا آنے کے بعد لوگ اپنا حلیہ
درست کر کے منزل کی طرف جا پائیں۔
|