روئے زمین پر آباد انسانوں میں
ہر پانچواں فرد مسلمان ہے دنیا کے نقشے پر ایک اہم جغرافیائی بیلٹ مسلمانوں
کی ہے، مراکش کے صحرا سے لے کر جاوا تک اہل اسلام کی قطار لگی ہوئی ہے، فار
ایسٹ سے ویسٹ انڈیز تک کئی مسلم ریاستیں ہیں۔شرق الہند ہو یا غرب الہند ہر
جگہ مسلمانوں کے قدموں کی دھمک ہے۔ تہذیب مسلم کے کھنڈر بتا رہے کہ عمارت
عظیم تھی یہ عمارت کیسے عظیم بنی تھی اس کا ذکر پچھلے دنوں نارویجن رسالے ِالستریٹنے
وتین سکاپ میں بڑی خوش اسلوبی سے شائع کیا۔ اس رسالے میں دیئے گئے اس
تحقیقی مضمون سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کی علم وحکمت میں کی ہوئی کاوشوں
کو اہل مغرب کتنا اہم مقام دیتے ہیں۔۔۔
ملاحظہ ہو آج کا مغرب عرب دنیا کو بنیاد پرستی سے منسوب کرتا ہے، لیکن
ازمنہ وسطیٰ میں مغرب جب اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا تو اس وقت عرب علم و
حکمت کا مرکز تھا۔ان کے نئے دین اسلام نے ان کو راغب کیا کہ وہ اللہ کی
بنائی ہوئی کائنات کو سمجھیں۔ گیارہ سو عیسوی کے دوران ایک عرب طبیب کو
عیسائی پادری نے اپنے خیمے میں بلا کر گھڑسوار کا علاج کرنے کو کہا ، جس کی
ٹانگ پر ایک پھوڑا تھا ۔ عرب طبیب کے علاج سے جونہی مریض کو بہتری محسوس
ہونا شروع ہوئی ، ایک فرانسیسی ڈاکٹر خیمے میں داخل ہوا، اس نے عرب طبیب کو
ایک طرف دھکیل کر مریض سے مخاطب ہو کر پوچھا ؟ تمھارے لیے کیا بہتر ہے، ایک
ٹانگ سے زندہ رہنا یا دو کے ساتھ مرنا؟ اور ساتھ ہی ایک بھاری ہتھوڑے سے اس
کی ٹانگ پر وار کیا لیکن ایک وار سے کام نہ چلا۔ دوسرے فیصلہ کن وار سے
مریض کی ٹانگ سے خون کے پھوارے پھوٹ پڑے اور وہ موقع پر ہلاک ہوگیا۔عربی
طبیب جھنجلا کر خیمے سے با ہر نکل گیا اور بو لا یہ ہے عیسائیوں کا علم اور
ان کی طبی صلاحیتیں۔۔۔
یہ ایک واقعہ ہی مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان پایا جانے والا فرق ظاہر
کرنے کے لئے کافی ہے۔ قرآن سب سے زیادہ زور علم، تحقیق اور کائنات کو
جانچنے اور سمجھنے پر دیتا ہے۔آج کا مغرب عرب اور مسلمان دنیا کو قدامت
پسندی اور مذہبی جنونیت سے تعبیر کرتا ہے۔ لیکن جب نویں صدی میں پورا یورپ
جہالت کے اندھیروں میں چھپا ہوا تھا۔اس وقت عرب علم وحکمت، دانش کا مرکز
تھا۔یاد رکھیے کہ آج کی دنیا کی تحقیق اور علم اس وقت کی عربوں کی ہوئی
تحقیق پر مبنی ہے۔ پانچویں چھٹی عیسوی میں عیسایوں اور مسلمانوں میں زبردست
قسم کی سرد جنگ جاری تھی۔ دونوں تہذیبیں ایک دوسرے کو گنوار، جاہل اور
حقیقی دنیا سے دور سمجھتی تھیں۔یورپ میں عرب کے بارے میں یہ مفروضہ تھا کہ
وہ وحشی درندے ہیں، جبکہ عرب والے یورپ کے لوگوں کو ظالم انسانوں سے تعبیر
کرتے تھے۔دونوں اطراف کے ایک دوسرے پر الزامات کافی حد تک غلط تھے، لیکن
مسلمانوں نے جو مغرب کی تصویر کشی کی تھی وہ سچائی کے زیادہ قریب تھی۔۔۔
گیارہویں صدی عیسوی میں عرب مسلمان دنیا میں اپنے علم، طاقت، ثقافت کی بنا
پر چھائے ہوئے تھے۔ اسلام اس دور میں عرب سے لیکر ،شمالی افریقہ اور شمالی
افریقہ سے لیکر یورپ تک پھیلا ہوا تھا۔یہ سنہری دور ٩٠٠عیسوی سے لیکر ١٣٠٠
تک جاری رہا۔ اس دور میں عرب سویلسیشن انتہائی ترقی یافتہ ، انتہائی ماڈرن
اور سائنسی علوم پر مشتمل تھی۔۔۔
یہ عرب ہی تھے جنھوں نے آج کی دنیا کے ہر علم کا پہلا دروازہ کھولا۔
پانچویں، چھٹی عیسوی میں علم صرف چرچ بالخصوص عیسائی پادریوں تک ہی محدود
تھا۔ پادری علم کو عام انسان کے لیے شجر ممنوعہ قرار دیتے تھے ، لیکن دوسری
طرف عرب مسلمانوں میں علم عام آدمی میں فروغ پارہا تھا ۔ اس وقت مسلمانوں
نے طبعیات، ریاضی ، فلکیات اور کیمیا میں نئی راہیں ایجاد کیں۔ جن سے آج
سارا مغرب اور پوری دنیا استفادہ کر رہی ہے، لیکن یہ الگ بات ہے کہ مغرب
اپنے روایتی تعصّب کے باعث اس کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ عرب والوں کا علم
٩٠٠ عیسوی میں پوری آب وتاب سے چمکا، اس علم کی وجہ سے مسلمان ایک چھوٹے سے
جزیرے لیکر مشرق میں دریائے سندھ اور مغرب میں شمالی اسپین تک جا پہنچے۔
مسلمانوں نے یہ حکومتیں جنگوں سے یا ہتھیاروں سے نہیں جیتیں بلکہ ان کے پاس
سب سے بڑا ہتھیار اسلام میں علم کی اہمیت اور اسلام کی ثقافت کے فروغ میں
تھا۔ دوسرے مذاہب کے برعکس اسلام ذات پات سے پاک ، امیر غریب کی تمیز سے
مبرا اور انصاف پر مبنی ایک نظام تھا۔اسلام کے اس نظام میں دوسرے مذاہب کے
ماننے والوں کو عزت وحترام دیا جاتا تھا، ان کی بات سنی جاتی تھی ۔ لیکن اس
وقت کے عیسائی دوسری سوچ رکھنے والے اور دوسرے مذاہب ماننے والوں کو سزائیں
دیتے تھے بلکہ وہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو آگ میں ڈال دیتے تھے۔۔۔
جب طارق بن زیاد نے ٧١١ عیسوی میں اسپین میں قدم رکھا تو وہ بہت حیران ہوا
کہ مقامی لوگوں نے کو ئی خاص مزاحمت نہ کی، کیونکہ مقامی لوگ اس وقت عیسائی
مذہب ماننے والوں کے ظلم وستم سے تنگ آچکے تھے بلکہ بعض جگہ مسلمان فوج کو
بڑی گرم جوشی سے خوش آمدید کہا گیا۔ اسپین کی فتح نے مسلمانوں کی ترقی اور
تجارت کے لیے نئی راہیں کھول دیں۔جس کی وجہ سے عرب معاشرہ میں دینی ودنیوی
علوم کا تیزی سے فروغ ہونے لگا۔ مسلمانوں کے دور حکومت میں جنوبی اسپین کا
علاقہ قرطبہ دنیا کا سب سے خوبصورت اور مثالی علاقہ تھا، ٩٥٠ عیسوی میں یہ
علاقہ ٥٠٠٠٠٠ نفوس پر مشتمل تھا ۔ اس علاقہ میں اس وقت ٦٠٠ مساجد، ان گنت
سرکاری غسل خانے ، اوران گنت کتب خانے (لائبریریاں) تھے، جس میں سب سے بڑی
لائبریری خلیفہ کی تھی جہاں پر مختلف موضوعات پر مشتمل ٥٠٠٠٠٠ سے زیادہ
کتابیں موجود تھیں۔ سارے شہروں کی گلیاں اور سرائیں رات کو روشنیوں سے لیس
تھیں جہاں کبھی اندھیرا نہیں ہوتا تھا۔جبکہ دوسری طرف مغرب کے بڑے شہر
لندن، پیرس اندھیروں میں ڈوبے ہوتے تھے۔ اس دور میں متمول سوداگروں،
شہزادوں اور خلفاء کے اردگرد ہمیشہ علم وحکمت کی دنیا کے ماہر، مثلا بڑے
بڑے فلاسفر اور سائنسدان ہوتے تھے۔ جس خلفیہ کے پاس یا اردگرد سب سے زیادہ
علم وفلسفہ کے ماہر ہوتے تھے ،اسی کی معاشرے میں سب سے زیادہ عزت کی جاتی
تھی۔ اس لیے آپ تاریخ پڑھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس وقت بغداد علم و
حکمت کی دنیا کا مرکز تھا۔جہاں پر سائنسدان ،علماء اور فلاسفر گھنٹوں، دنوں
بلکہ مہنیوں مختلف ڈیروں ، مساجداور کتب خانوں میں سائنس، ریاضی ، طبیعات
اورفلسفے پر بحث ومباحثے کرتے، مقالے لکھتے اور تحقیق کرتے رہتے۔۔۔
٨٠٠ عیسوی میں خلیفہ مشہورالمنصور نے بغداد کی بنیاد رکھی ۔جہاں پر عرب
سائنسی بنیادوں پر مختلف مضامین میں ریسرچ کرتے ۔وہ یونانی علم، فلسفے کے
تراجم عربی میں کرتے تھے اور پھر ان کواپنی قوم وعوام میں فروغ دیتے۔ انہی
تراجم نے عرب کو علم و حکمت میں شاندار کارکردگی کی بنیاد فراہم کی۔ یہ
سارا علم یونانی سوچ کے عین مطابق تھا، ان علوم کے ساتھ قرآن کی سمجھ اور
اس کی ترقی پسند تشریح نے عالم انسانیت کی بھلائی کے لیے علم و دانش کی نئی
راہیں کھول دیں۔۔۔
یہ قرآن ہی کہتا ہے کہ انسانوں جاؤ، اللہ کی زمین میں فکرو تدّبر کرو،
سوچواور ڈھونڈو کہ رب تعالیٰ نے تمھارے لیے کیا کیا اور کون کون سے خزانے
کائنات میں چھپا رکھے ہیں۔ عربوں کے سنہری دور میں علم، عقل وشعور، ریشنل
چیزوں کو دوسرے مذاہب کی طرح گناہ نہیں تصور کیا جاتا تھا، بلکہ اسلام ان
چیزوں کو انسانیت کے لیے ایک بہت ضروری ہتھیار اور اوزار سمجھتا ہے، جن
ہتھیاروں کو آپ استعمال کر کے کائنات اور اللہ کی قدرت کو صحیح طریقے سے
جان اور سمجھ سکتے اسلام نے مسلمانوں کو ہمیشہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں
سے بہتر سلوک ، ان کی عزت واحترام ، ان کو برداشت کرنے کا حکم دیتا ہے۔ عرب
کی اس سوچ نے اس دور میں عرب مملکتوں میں بڑے بڑے جیّد علما، فلسفی اور
محقّق پیدا کئے۔ فلسفی اور محقّق عیسائیوں میں بھی پائے جاتے تھے جو
مسلمانوں کے ساتھ مل کر منطق، فلسفہ، سائنس کو آگے بڑھاتے تھے۔ حالانکہ اس
وقت علم مختلف زبانوں میں پڑھایا اور سکھایا جاتا تھا۔ لیکن دوسری زبان کی
کوئی نئی کتاب یا نئی تحقیق شائع ہوتی تو عربی زبان میں ترجمہ کی جاتی تھی
کیونکہ اس دور میں دنیا میں عربی علم وحکمت کی زبان تھی۔ جیسا کہ آج کل
انگر یزی ہے۔عربی زبان میں ساری تحقیق جمع ہونے کی وجہ سے علمی سوچ ،
دانائی اورحکمت عرب کا اثاثہ بن گئی، جس کی وجہ سے عرب مسلمانوں نے علم اور
تحقیق میں شاندار کارنامے سرانجام دیئے، جس کا پھل آج ساری دنیا کھا رہی
ہے۔۔۔
علم فلکیات سے نمازوں کے اوقات کا تعین ریاضی میں سب سے بڑی ایجاد ٨٠٠
عیسوی میں ہوئی جب مسلمان ریاضی دان خوارزمی نے ہندسوں کے بارے میں ایک
چھوٹی سی کتاب لکھی، اس نے ریاضی میں انقلاب برپا کر دیا۔اس نے صفر کا
ہندسہ ایجاد کیاجو کوئی چیزنہ ہونے کے برابر تھا۔ اس صفر کے ہندسے کی وجہ
سے عرب مسلمان چیزوں کا حساب کتاب منٹوں میں لگا لیتے تھے جبکہ یورپ والے
رومن ہندسوں سے دنوں، مہینوں میں لگاتے تھے۔ فلکیات کو سمجھنے میں ریاضی کا
بہت بڑا ہاتھ ہے، ریاضی میں مسلمانوں کو اس وقت بہت دلچسپی تھی۔ نمازوں کے
اوقات، کعبہ کی سمت کو جانچنے کے لیے ستاروں کا علم ضروری تھا۔ کعبہ کی سمت
ڈھونڈتے ڈھونڈتے مسلمانوں نے فلکیات اور ستاروں سے بہت زیادہ علم حاصل کیا۔
خاص طور پر زمین کا خط استوا، زمین کا قطر عرب مسلمانوں کی کاوشوں کا مرہون
منت ہے۔۔۔
مسلمانوں نے سب سے زیادہ تحقیق طبیعات میں کی ۔ ١٠٠٠ عیسوی میں عرب ڈاکٹروں
نے ناک اورکان کی ہڈیاں جوڑیں ، آنکھوں کی جھلّی صاف کی اور زخم صاف کیے۔ان
کی مسلسل علمی جدوجہد ، کوششوں اور تجربات سے انسانی جسم کے مختلف اجزاء کو
سمجھا اور ان کا علاج دریافت کیا۔اسی سنِ عیسوی میں الرازی نے خسرہ کی
بیماری کو دریافت کیا اور اس کا علاج بھی دریافت کیا۔١٢٠٠ عیسوی میں جگر کا
سسٹم دریافت کیا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ آج کی ادویات کا سارا علم مسلمانوں کی
کی ہوئی تحقیق وعلم پر مبنی ہے۔ اسلام کا ادویات میں سب سے بڑا فلاسفر ابن
سینا تھا، جس نے ادویات کا علم مختلف زبانوں میں، مختلف ممالک سے حاصل کیا
اور اس کو ایک کتاب میں جمع کیا۔ یہ کتاب اس وقت ادویات میں پوری دنیا میں
سب سے زیادہ اہمیت رکھتی تھی اور پوری دنیا کے سکولوں، اور یونیورسٹیوں میں
پڑھائی جاتی تھی، بلکہ آج بھی یہ کتاب پاکستان، ایران اور کئی دوسرے ممالک
میں میڈسن کے نصاب میں شامل ہے۔ دوسری طرف علم کے ساتھ ساتھ مسلمان اس دور
کے جدید دوا خانے اور ہسپتال چلانے میں بھی ماہر تھے۔۔۔
١١٠٠عیسوی میں بغدادکا الداؤدی ہسپتال دنیا کا سب سے بڑا ، مشہوراور جدید
آلات سے لیس ہسپتال تھا ، جہاں پر ڈاکٹر ، حکیم اور میڈسن کے ماہرسینکڑوں
بلکہ ہزاروں میلوں کی مسافت طے کر کے آتے اور میڈسن میں پڑھاتے اور تحقیق
کرتے تھے۔اسی طرز کا ایک اور ہسپتال قاہرہ میں تھا، جہاں پر ہر قسم کی
بیماری کا علاج کیا جاتا تھا۔ یہ ہسپتال ١٠٠٠ بستروں پر مشتمل تھا جو کہ آج
کے ناروے کے سب سے بڑے رکس ہسپتال سے دوگنا بڑا تھا۔ عرب مسلمان اس وقت اسی
طرح تحقیق کرتے، وہی سائنسی طریقے استعمال کرتے تھے جو آج کل مغرب کی
یونیورسٹیوں اور ریسرچ سنٹروں میں رائج ہیں ۔١٢٠٠ عیسوی میں اسپین میں
دوبارہ عیسائی حکومت آنے کے بعد عربوں کا علم، تحقیق اور دانش عیسائیوں میں
منتقل ہونا شروع ہو گئی ۔ پاپائیت ، مولویانہ سوچ اور جنونی سوچ نے
مسلمانوں کی ذہنی آزادی پر مختلف طریقے سے پابندی لگانا شروع کردی۔ قرآن کا
پیغام جس نے عربوں کو تحقیق اورڈھونڈنے کا تجسّس دیا،نے ساری دنیا کو علم
کے خزانے دیئے لیکن اچانک ایک ابھرتی ہوئی مولویانہ سوچ نے ساری تحقیق کو
روک دیا، جس کا خمیازہ آج تک عرب اور مسلمان بھگت رہے ہیں۔۔۔
مثلاً گیارہویں صدی میں مسلمانوں کے مذہبی عالموں نے کہنا شروع کر دیا کہ
جو آدمی ریاضی کے حساب سے ستاروں یا فلکیات کے متعلق جاننے لگے گا ، وہ دین
اسلام سے خارج ہو جائے گا، بلکہ حساب یا ریاضی ہے ہی ایمان کے خلاف۔ ناروے
کے اخبار میں لکھے گئے اس تاریخی آرٹیکل سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ ہم مسلمان
آج دنیا میں تیسرے مقام پر کیوں کھڑے ہیں۔مسلمان اس وقت تک دنیا میں چھائے
رہے ، جہاں حکومتیں انصاف پر مبنی ہوتی تھیں ، جہاں وہ اہلیت اور علم کو سب
سے آگے رکھتے تھے۔ لیکن اگر آپ آج کل کے مسلم معاشرے پر نظر دوڑائیں تو
سوائے مایوسیوں اور نا انصافیوں کے کچھ نظر نہیں آئے گا۔۔۔
مسلم حکومتوں سے لے کر ، سماجی اداروں ، دینی اداروں اور معاشرے میں ہر طرف
بے راہ روی اور غلط نظام کا دور دورہ ہے۔ جہاں عام لوگوں کو کچھ نہیں ملتا۔
جہاں ہمیشہ صرف ایک مخصوص طبقہ ، اپنی منافقت، جھوٹ ، فوج، کالے قانون اور
ڈنڈے کے زور پر وسائل پر قابض ہے۔ عام لوگوں ، عوام کو کچھ سمجھ نہیں آرہی
کہ یہ کیا ہے۔دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ نا اہل قیادت، نااہل مشاورت، نااہل
امامت اور تماش بین سیاست نے مسلمان معاشرے ، ملکوں اور اداروں کو تباہی و
بربادی کے مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔ کسی دور میں علامہ اقبال نے مسلمانوں سے
کہا تھا سبق پھر پڑھ ، صداقت کا، شجاعت کا ، عدالت کا لیا جائے گا تجھ سے
کام دنیا کی امامت کا اور آج حالت یہ ہے کہ سبق پڑھ ، ذاتی مفاد پرستی کا ،
لالچ کا، نفاقت کا ، منافقت کا تو لے گا کا م زبردستی مسلم ملکوں کی ،
اداروں کی اما مت کا۔۔۔ |