نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہِ الکریم
اما بعد ۔ صدرِ عالی جناب، قابلِ صد احترام معلّمینِ کرام اور وطنِ عزیز کے
رٹو طوطو ! اس میں ذرّہ برابر بھی کوئی شک نہیں کہ امتحانات ذہانت کا
پیمانہ ہوتے ہیں مگر لارڈ میکالے کے اس پاکستان میں امتحانات صرف رٹے کا
پیمانہ ہیں۔امتحانات میں جو نمبر زیادہ لے لے اسے قابل اور ذہین سمجھا جاتا
ہے۔ ذرا اس عمارت سے باہر نکل کر مختلف سکولوں کے بڑے بڑے اشتہارات دیکھ
لیجئیے۔ طلباء و طالبات کے نمبروں کی فہرستیں بڑے اعزاز اور فخر کے ساتھ
گلیوں اور بازاروں میں آویزاں نظر آئیں گی جو ظاہر ان کی رٹے بازی کی مہارت
کی آئینہ دار ہیں نہ کہ ذہانت کے۔
صدرِ عالی مُقام! بدقسمتی سے ہم ایک قوم نہیں ہیں بلکہ بھیڑوں کا ایک ریوڑ
ہیں۔ جس طرف ایک بھیڑ چلتی ہے ساری اسی طرف چل پڑتی ہیں۔ معلوم نہیں ہم
کیوں اپنی ناکامی کا تجزیہ نہیں کرتے اور اس تجزیے کے نتائج کو مدِ نظر رکھ
کر مستقبل کی حکمتِ عملی وضع نہیں کرتے۔ تعلیمی ادارے کے سربراہ کی باز پرس
صرف فیل پاس کی بنیاد پر ہوتی ہے جو صرف رٹے کے ذریعے ہوتے ہیں۔اساتذہ کو
بہترین کارکردگی پر انعامات صرف نمبروں کی بنیاد پر دیے جاتے ہیں جو رٹے کے
مرہونِ منّت ہوتے ہیں۔احتساب و انعام کے اس نظام میں سوچ و فکر، تحقیق و
تخلیق ، نیاپن اور جدّت نام کی کسی چیز کا عمل دخل نہیں ہے۔نہ جانے ہم
اسلام کے داعی ہونے کے باوجود قرآن کی اس دہائی پر کان کیوں نہیں دھرتے جو
پکار پکار کر افلا یتفکّرون ، افلا یعقلون ، افلا یتدبّرون ، افلاینظرون
کہتا ہوا نظر آتا ہے۔
صدرِ عالی مرتبت ! جب ہمارے پورے نظامِ تعلیم ، نصاب اور نظامِ امتحانات کی
تمام تر جزئیات عالمی بینک ، ایشین بینک ، آئی ایم ایف اور یو ایس ایڈ کی
بھیک سے طے کی جائیں گی۔ جب سارے کا سارا نظامِ تعلیم ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ
کر تیار کیا جائے گا۔ جب ہمارا نظامِ امتحانات سامراجی ٹکڑوں پر پلنے والے
پالیسی ساز پل پل بدلتی تعلیمی پالیسیوں کی بھینٹ چڑھاتے رہیں گے تو کیا
فہمِ علم و فن کے پھول کھلیں گے یا رٹے بازی کے خاردار جگل وجود میں آئیں
گے؟ غلام قوم کی سب سے بڑی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ سوچنے سمجھنے اور تجزیہ
کرنے کی صلاحیتوں سے عاری ہو جاتی ہے بقولِ اقبالؒ
غلامی میں نہ کام آتی ہیں تدبیریں نہ شمشیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
آئیے میں وجہ بتاتا ہوں کہ ہمارے امتحانات ذہانت پ کا پیمانہ کیوں نہیں ہیں
اور فقط رٹے کا پیمانہ کیوں ہیں؟ دنیا بھر کے ماہرینِ تعلیم و فلسفہ اس بات
پر متفق ہیں کہ انسان کی سوچ وفکر کی زبان وہ ہوتی ہے جس میں وہ حمد و نعت
اور دیگر جذبات ِ غم و حُزن اور محبت و عقیدت کے گیت گاتا ہے۔ با الفاظِ
دیگر جو زبان اس کے جذبات کی ترجمان ہوتی ہے وہی اس کی سوچ کی زبان ہے اور
یہ ایک فطری بات ہے کہ لوگوں کی سوچ اور ابلاغ کی زبان ان کی مادری اور
قومی زبان ہوتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر
لوگوں کی زبان میں بھیجے تاکہ سوچ و فکر کے عمل کے ساتھ بہتر ابلاغ ہو
سکے۔ہمارے نصاب اور امتحان کو ایک غیر ملکی زبان میں لازمی کر کے سوچ و فکر
اور تحریری و تقریری ابلاغ کے آگے ایک ایسا کوہِ گراں کھڑا کر دیا ہے جو
ذہانت کو کچل کر صرف رٹے کو ہی آگے لاتا ہے۔ سوچ پر بٹھائے جانے والے یہ
غیر فطری پہرے اگر بیچ میں سے ہٹا دیے جائیں اور نصاب و امتحان ہماری مادری
اور قومی زبان میں لیا جائے تو میں یقینِ کامل سے کہتا ہوں کہ امتحانات
حقیقی ذہانت کا پیمانہ ہوں گے نہ کہ رٹے کا مگر افسوس صد افسوس کہ ہماری
حالت یہ ہے کہ
گھٹتا ہے سانس مفت کتابوں کے دھوئیں میں
پیتا ہوں آج یوں بھی زہر تم کو اس سے کیا؟
چھینی میری دلچسپیاں تم نے کتاب کی
رٹے کا پی رہا ہوں زہر تم کو اس سے کیا
امداد ہے کہ ہے یہ میری زیست کی قیمت
بکتے ہیں آج یوں بھی بشر تم کو اس سے کیا؟ |