معاشرے کی اصلاح کیسے اور کیوں ضروری ہے

تحریر: بنت عطاء ،کراچی
جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے وایسے وایسے معاشرے میں تبدیلی رونما ہورہی ہے۔ ایک طرف جدید ٹیکنالوجی کا دور دورہ ہے تو دوسری جانب نوجوان نسل بگڑتی چلی جارہی ہے۔ اس خرابی اور بگاڑ کے ذمہ دار میڈیا سمیت میں اور آپ بھی ہیں۔ ہمارا پسندیدہ مشغلہ یہی ہے کہ ہم دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرئیں۔ معاشرے کے سدھار کے لیے ہم خود سے کوئی عملی اقدام نہیں کرتے۔ دوسروں کے حق میں ہم بہترین جج اور اپنے حق میں ہم بہترین وکیل ہیں۔ دوسروں پر ہم جھٹ سے کفر، شرپسند یا فسادی ہونے کا فیصلہ سنا دیتے ہیں اور اپنی ہر چھوٹی بڑی غلطی کی ہزاروں تاویلیں، دلائل پیش کرکے اپنا دفاع کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔

معاشرے کی اصلاح کے لیے واحد کام جو ہم کرتے ہیں وہ دوسروں کو نصیحت ہے۔ ہم ہر اچھے کام کی دوسروں کو نصیحت کرکے سمجھتے ہیں ہمارا فرض پورا ہوگیا۔ اسی نصیحت پر خود عمل پیرا ہونا بھول جاتے ہیں۔ عمل قول سے زیادہ تاثیر رکھتا ہے معاشرے کی اصلاح ہماری اپنی ذات سے شروع ہوتی ہے۔ اصلاح آپ کے قول سے نہیں آپ کے عمل سے ہوگی لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ آپ کیا کہ رہے ہیں لوگوں کی توجہ اس بات پر زیادہ ہوتی ہے کہ آپ کیا کر رہے ہیں۔

سب سے پہلے خود میں بہتری لانے کی کوشش کیجیے۔ جب تک آپ خود بہتر نہیں ہوں گے آپ دوسروں کو بھی بہتر نہیں بنا سکتے۔ اگر ہم میں سے ہر شخص صرف اپنی ذات کو بہتر بنانے میں لگ جائے تو ہمارا سارا معاشرہ بہتر ہوجائے گا۔ فرمان باری ہے کہ’’اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاؤ‘‘۔ پہلے خود کو بچانے کا حکم دیا گیا اس کے بعد دوسروں کو بچانے کہا گیا۔ جو برائی آپ کو دوسروں میں نظر آئے غور کیجیے کہیں وہ آپ میں بھی موجود تو نہیں ہے۔ اگر خدانخواستہ ہے تو پہلے اسے دور کیجیے۔ مثلا آپ نے کسی کو جھوٹ بولتے دیکھا، کوئی والدین کی نافرمانی کر رہا ہو، بچوں سے شفقت سے پیش نہیں آرہا تو بجائے اس کے کہ آپ اسے لعن طعن کرنے لگ جائیں پہلے اپنے ضمیر سے پوچھیں کہیں یہی سب کچھ مجھ میں تو نہیں۔ اگر ایسا ہے تو پہلے اسے دور کریں۔

اپنی اصلاح اس لیے بھی بے حد ضروری ہے کہ بچے کی پرورش میں ماحول کا بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ اگر آپ جھوٹ بولیں، نماز نہ پڑھیں، اﷲ کے احکام کی خلاف ورزی کریں، قوانین اور ضوابط کی پاسداری نہ کریں تو آپ کبھی یہ سب کرنے کا اپنے بچے کو نہیں کہہ سکتے۔ آپ کا بچہ آپ کے نقش قدم پر چلے گا۔ بچہ آس پاس موجود افراد کی نقل و حرکت کا بغور مشاہدہ کرتا ہے پھر انہیں عمل میں لانے کی کوشش کرتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا جس گھر میں ماں پابندی سے نماز پڑھتی ہو بچہ اپنی ماں کو جائے نماز بچھائیے مخصوص انداز میں رکوع سجود کرتے دیکھتا ہے پھر ایک وقت آتا ہے کہ اسے اپنی ماں کی یہ نقل و حرکت متاثر کن لگنے لگتی ہے۔ وہ خود اپنی ماں کے برابر آکر کھڑا ہوتا ہے سر گھما کے بار بار اسے دیکھتا ہے اس نے ہاتھ کیسے باندھے، وہ کب رکوع سجود کرتی ہیں، کب اور کس طرح بیٹھتی ہیں۔ بچہ اس کے ساتھ وہی سب دہراتا ہے۔ غیر اختیاری طور پر اس کے ذہن میں نماز کی اہمیت بیٹھتی ہے اور بچپن سے ہی نماز کی عادت پختہ ہوجاتی ہے۔

اس کے برعکس جب بچہ ایسے ماحول میں پروان چڑھے گا جہاں آس پاس ہر وقت چیخ و پکار، لڑائی جھگڑے، گالم گلوچ، مار پیٹ یا گانے بجانے، ڈانس پارٹیاں، دین سے دوری کا ماحول ہو وہاں بچہ انہی سب چیزوں کا عادی ہوجائے گا۔ چاہے آپ اسے لاکھ سمجھائیں کہ یہ سب غلط ہے وہ وہیں کرے گا جو اس نے عملی طور پر ہوتے دیکھا ہے۔

شرعیت اسلامیہ کے نزدیک دین میں زبردستی نہیں ہے۔ دین اسلام بھی تلوار کے زور پر نہیں پھیلا بلکہ عمل سے پھیلا ہے۔ نبی مہربان صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی دعوت اسلام اپنے گھر سے شروع کی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنھا ایمان لانے والی سب سے پہلی خاتون ہیں۔ اسلام کی تبلیغ گھر سے شروع ہوئی اور دنیا کے کونے کونے میں پھیل گئی۔ تبدیلی بتدریج آتی ہے ایسا نہیں ہوگا کہ دو دن میں آپ کو کامیابی مل جائے۔ آپ کو حوصلے، ہمت اور ثابت قدمی سے کام لینا ہوگا۔

یہ لازم نہیں کہ دیندار گھرانوں میں دیندار بچے ہی پروان چڑھیں نہ ہی یہ ضروری ہے کہ بے دین، گناہگار، فاسق و فاجر شخص کے گھر کافر ہی پیدا ہوں۔ معاملہ اس کے برعکس بھی ہوسکتا ہے۔ اسی طرح یہ سوچنا بھی سراسر حماقت ہے کہ ہمارا حسب نسب فلاں پیغمبر یا فلاں ولی اﷲ سے جاکر ملتا ہے تو وہ ہماری سفارش کرکے ہمیں جہنم سے بچالیں گے۔ حسب نسب ہمارے کسی کام نہ آئے گا۔ فرعون جیسے سرکش کی بیوی آسیہ، حضرت موسی علیہ السلام کا فرعون کے گھر پرورش پانا، حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے کا کفر پہ مرنا، حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی کا نافرمان ہی رہنا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا اسلام کی دولت سے محروم رہنا یہ سب اس بات کی واضح مثالیں ہیں۔

اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ ماحول، آپ کا عمل واقعی اثر انداز ہو۔ بات استعداد کی بھی ہے کہ حق بات قبول کرنے کی استعداد کس میں کتنی ہے۔ اگر کسی کی گمراہی مقدر ہو تو اسے کائنات کی کوئی طاقت ہدایت نہیں دے سکتی۔ اس کے باوجود ہمیں حق بات پر عمل کرکے دوسروں کو اپنی جانب متوجہ کرنا ہے کیونکہ ہمارا کام کوشش کرنا ہے ہدایت دینا ہمارا کام نہیں وہ اﷲ کا کام ہے۔ فرمان باری تعالیٰ بھی یہی ہے کہ ’’آپ جس کو چاہیں اسے ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ جسے اﷲ چاہے ہدایت سے نواز دیتا ہے‘‘۔ اسی طرح آپ دوسروں پر جبرا اپنی بات مسلط کرنے کا اختیار بھی نہیں رکھتے اﷲ تعالی فرماتا ہے کہ’’تمہیں ان پر داروغہ بنا کر مسلط نہیں کیا گیا‘‘۔ بلکہ تمہیں قولوا للناس حسنا کی علمی تفسیر بننا ہے۔ یعنی لوگوں سے اچھی اور بہترین بات کرو۔ کوئی آپ کی بات تسلیم کرے نا کرے آپ عمل کرتے جائیں آپ پیچھے نہ ہٹیں۔
 
ہم میں سے ہر شخص کو اﷲ نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دی ہے کسی کے پاس کم ہے کسی کے پاس زیادہ۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس صلاحیت کو کس طرح بروئے کار لاسکتے ہیں۔ کس حد تک ہم اس کا مثبت یا منفی استعمال کرسکتے ہیں۔ معاشرے کی اصلاح کے لیے ہمیں اسی سمجھداری، بردباری، دانشمندی سے کام لینا ہوگا ہمیں خود سمجھنا ہوگا کہ ہمارے آس پاس کا ماحول کیسا ہے۔ ہمیں اس میں خود کو کس طرح ایڈجسٹ کرنا ہے۔

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1025690 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.