اک چراغ اور بجھا

یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ دنیا میں تشریف لانے والا ہر انسان ایک دن لوٹ کر اس دنیا سے جاتا ہے۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے کسی کو مفر نہیں۔ جب کسی کا وقت آجاتا ہے تو موت کسی کو بھی نہیں بخشتی۔ ہر نفس کو ایک دن موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔اموات کا یہ سلسلہ روز اول سے جاری ہے جو روز قیامت تک یوں ہی جاری رہے گا۔ لوگ دنیا سے جاتے ہیں اور کچھ عرصے بعد بھلا دیے جاتے ہیں۔ باشاہ، وزیر، مشیر، سیاست دان،دولت و شہرت سے مالا مال ایسے لاتعداد لوگ زمین میں سوئے پڑے ہیں، جن کے آنکھ بند کرنے کے کچھ عرصہ بعد وہ بھلا دیے گئے، لیکن کتنے عظیم ہوتے ہیں وہ لوگ جو مر کر بھی ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہیں۔ ان کے جانے کے بعد بھی ان کی محبتوں اور چاہتوں کے رنگ نمایاں ہوتے رہیں ہیں۔ جو معاشرے پر رہتی دنیا تک انمٹ نقوش چھوڑ جائیں،جن سے وقتاً فوقتاً جانے والے کی یاد تازہ ہوتی رہے۔

یہبات مسلم ہے کہ دنیا سے جانا والا کوئی بھی انسان دوسروں کے لیے جتنی زیادہ خدمات دیتا ہے، اس کے جانے سے لوگ اتنا ہی رنجیدہ ہوتے ہیں۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ جب کوئی ایسی نابغہ روزگار شخصیت دنیا سے منہ موڑلیتی ہے، جس کی زندگی سے دوسرے کئی لوگ فیض یاب ہورہے ہوں تودنیا سے اس کے چلے جانے کا غم زیادہ ہوتا ہے اور اگر کوئی ایسی شخصیت دنیا سے چلی جائے، جس نے اپنی ساری زندگی ہی دوسروں کے لیے وقف کی ہو تو اس کے جانے کا دکھ یقینا بہت زیادہ ہوتا ہے۔استاذ محترم استاذ الحدیث مولاناغلام قادر رحمہ اﷲ علیہ ایسی ہی عظیم شخصیت تھے، جنہوں نے اپنی ساری زندگی خدمت علم دین کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ استاذ محترم 30 اکتوبر 2017 کو اس دار فانی سے دار البقاء کی جانب کوچ کر گئے۔ انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔ اﷲ تعالیٰ استاذ محترم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ مولانا غلام قادر نوراﷲ مرقدہ حاصل پور (ضلع بہاولپور) کے گاؤں راٹھڑاں میں 1935ء کو پیدا ہوئے۔ حفظ قرآن اور ابتدائی عصری تعلیم گاؤں میں حاصل کی اور مزید دینی تعلیم کے لیے سرزمین اولیاء ملتان کی عظیم درسگاہ جامعہ خیر المدارس کا انتخاب کیا اور درجہ سادسہ تک وہیں تعلیم حاصل کی۔ آپ نے تکمیل حدیث ثانی دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم ٹنڈوالہ یار میں 1979 میں کی، جو اس وقت اساطین علم، کبار علماء کرام کی آماجگاہ تھا۔ آپ نے اپنی تدریسی خدمات کا آغاز جامعہ حنفیہ مڑل(ملتان) سے کیا۔ یہاں آپ چھ سال تک تعلیم وتدریس میں مصروف رہے۔ اس کے بعد اپنے مشفق استاذ و مربی شیخ الحدیث مولانا نذیر احمد نوراﷲ مرقدہ کے حکم پر جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد تشریف لائے اور تا دم آخر جامعہ میں ہی اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔ جامعہ امدادیہ تشریف لانے کے بعد جامعہ کی بہت سی ذمہ داریاں آپ نے سنبھال لی تھیں۔شیخ الحدیث مولانا نذیر احمد نوراﷲ مرقدہ کی عدم موجودگی میں حضرت کے اسباق بھی آپ ہی پڑھاتے تھے۔ جامعہ اسلامیہ امدادیہ میں آپ نے درجہ اولیٰ میں صرف کی ابتدائی کتب سے لی کر بخاری جلد ثانی تک پڑھانے کا شرف حاصل کیا، جن میں علم الصرف، مختصر المعانی، سلم العلوم، شرح نخبۃ الفکر، ہدایہ رابع، التقریب، طحاوی، شمائل ترمذی، ترمذی، مسلم، بخاری جلد ثانی، ترجمہ قرآن مجید شامل ہیں۔ آپ ایک اچھے مدرس کے ساتھ ساتھ بہترین منتظم بھی تھے۔ آپ جامعہ اسلامیہ امدایہ کے نظام مطالعہ، ناظم کتب خانہ، ناظم دارالاقامہ، ناظم مطعم، ناظم امتحان رہے۔

مولانا غلام قادر رحمہ اﷲ علیہ ایک عظیم استاذ تھے، جو طلبہ کے ساتھ ہمیشہ انتہائی شفقت کا معاملہ فرماتے۔ طلبہ بھی ان سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔ ان کے مزاج کے سبب طلبہ لطف اور خوشی محسوس کرتے تھے۔ خوش مزاجی، سادگی اور حلم گویا ان کی فطرت ثانیہ بن گئی تھی۔ ان کی گفتگو سامع کے لحاظ سے مختلف ہوتی تھی۔ سامع اگر عالم ہوتا تو گفتگو عالمانہ ہوتی تھی۔ سامع اگر عامی ہوتا تو ان کی گفتگو عامیانہ ہوتی تھی۔ ان کے بیان کا انداز پانی کے بہاؤ کی طرح رواں ہوتا تھا۔ سبق پڑھاتے وقت مشکل سے مشکل مسئلہ کو چٹکیوں میں حل فرمالیا کرتے تھے۔ دین کے کاموں کے لیے ہر وقت تیار رہتے اور بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ آپ سادہ، خوش اخلاق تھے۔ کوئی بڑے سے بڑا سخت مزاج اور سنجیدہ شخص بھی آپ کی مجلس میں مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔انہوں نے پوری زندگی دین کی خدمت میں گزاری۔ ان کی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جسے بھلایا جاسکے۔ ہر جانے والا اپنے پیچھے ایسا مہیب خلا چھوڑجاتا ہے کہ اس کے پْر ہونے کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ جہاں تک علم کے حروف ونقوش، کتابی معلومات اور فن کا تعلق ہے اس کے کرنے والوں کی تو کوئی کمی نہیں، لیکن اسلاف کا ٹھیٹھ مزاج ومذاق ، سادگی وقناعت او رتواضع وﷲیت کا البیلا انداز، جو کتابوں سے نہیں، بلکہ صرف بزرگوں کی صحبت سے حاصل ہوتا ہے، وہ استاذ محترم مولانا غلام قادر رحمہ اﷲ علیہ جیسے عظیم علماء کی وفات کے ساتھ دھیرے ھیرے ختم ہوتا جارہا ہے۔ مولانا غلام قادر رحمہ اﷲ علیہ ایسی باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے، جن کو ایک مختصر تحریر میں سمونا مشکل ہے۔

استاذ محترم کی موت ملک بھر میں ان کے ہزاروں شاگردوں کے لیے یقینا بہت بڑا صدمہ ہے، کیونکہ شاگروں کے لیے ایک عظیم عالم دین شفیق استاذکا دنیا سے منہ موڑ لینا بہت تکلیف دہ ہے، کیونکہ استاذ محترم اپنے شاگردوں کے ساتھ ہمیشہ اپنی اولاد کا سا برتاؤ کیا کرتے تھے۔ ان سے بے پناہ محبت کرتے، ان کو اگر کوئی مشکل پیش آتی تو فوراً اسے حل کرنے کی کوشش کرتے۔ استاذ محترم ایک عظیم استاذ تھے اور خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کی زندگی میں اچھے استاد میسر آجاتے ہیں۔اچھے لوگوں کی وجہ سے اچھا معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور اچھے معاشرے سے ایک بہترین قوم تیار کی جا سکتی ہے۔کسی بھی انسان کے اصلی والدین اس کو آسمان سے زمین پر لے کر آتے ہیں، لیکن استاد اس کی روحانی اور اخلاقی تربیت کے نتیجے میں اسے زمین کی پستیوں سے اٹھا کر آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے اور استاذ محترم مولانا غلام قادر رحمہ اﷲ علیہ نے اپنی ساری زندگی طلباء کی اخلاقی تربیت کے ذریعے آسمان کی بلندیوں تک پہنچانے کا فریضہ ادا کیا۔ استاذ محترم مولانا غلام قادر رحمہ اﷲ علیہ کی وفات پر ملک بھر میں آپ کے ہزاروں شاگردوں تو حالت کچھ یوں ہے:
عجب قیامت کا حادثہ ہے، آستیں نہیں ہے
زمین کی رونق چلی گئی ہے، اْفق پہ مہر مبین نہیں
تری جدائی سے مرنے والے، وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے
مگر تری مرگ ناگہاں کا اب تک یقین نہیں ہے

یہ اشعار شورش کاشمیری نے مولانا ابو الکلام آزاد کے سانحہ وفات پر کہے تھے، لیکن استاذ محترم کی وفات پر ہزاروں شاگردوں کی حالت بھی یہی ہے۔مولانا غلام قادر اس عالم فانی سے عالم بقا کی طرف کوچ کر گئے۔ یہ لکھنا ہی سوہان روح ہے کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے، ان کی وفات کا یقین نہیں آتا، لیکن موت ایک تلخ و ابدی حقیقت ہے، جو آیا ہے اس نے جاناہے۔ سو نہ چاہتے ہوئے بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔اﷲ تعالیٰ استاذ محترم کو جنت الفردوس میں بلند مقام عطا کرے۔
 

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700918 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.