اترپردیش کے مدارسِ اسلامیہ میں این سی ای آرٹی کی
کتابیں شامل کرنے کایوگی حکومت کافیصلہ اگرایک طرف لائقِ تحسین ہے تودوسری
طرف باعثِ تشویش بھی ہے ۔لائقِ تحسین اس لیے کہ جن موضوعات کی کتابوں کی
شمولیت پریوگی حکومت مصرہے ،اس کی اہمیت سے انکارقطعاًممکن نہیں ۔سائنس ،ریاضی
اور انگریزی کے بغیردورِحاضرمیں بھرپوراورقابلِ قدرزندگی نہیں گزاری جاسکتی
کیوں کہ ترقی کی ساری راہیں انہی کی پگڈنڈیوں سے ہوکرگزرتی ہیں اوریوگی
حکومت نے انہی مضامین کی کتابیں داخل نصاب کرنے کاحکم دیاہے ۔یہ فیصلہ
بظاہربالکل مدارس اسلامیہ کے حق میں ہے، یہ کتابیں مدارس کے طلبہ کو مزید
’’دھاردار‘‘ بنائیں گی مگردوسری طرف تشویش اوراضطراب اس بات کاہے کہ یہ
فیصلہ ایسی حکومت کی جانب سے لیاگیاہے جو مسلمانوں کوہراساں کرنے اورانہیں
مسلسل ذہنی طور پردبائومیں رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرتی ہی رہتی ہے ۔اگست
میں جب سے یوگی آدتیہ ناتھ سریرآرائے حکومت ہوئے ہیں تب سے ان کے
وزرااورآرایس ایس کے غنڈے مسلسل ایسے بیانات بلکہ اقدامات کررہے ہیں کہ
مسلمان خود کو دو نمبر کاشہری تصورکررہے ہیں۔ایسی حکومت کی جانب سے اگرکوئی
فیصلہ اگرچہ بظاہر مسلمانوں کے حق میں ہی ہوتب بھی اسے قبول کرنے میں تامل
ہوتاہے بلکہ تامل ہونابھی چاہیے کیوں کہ جب کسی کی نیتوں میں فتورمیں
ہوتواس سے خیرکی توقع بہت کم ہی کی جاسکتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ایک مشتبہ شخص
کی جانب سے این سی ای آرٹی کی کتابیں شامل کرنے کا فیصلہ قبول کرنے میں
ذمے دارانِ مدارس کوتشویش ہو رہی ہے اوریہ تشویش بالکل بجاہے لیکن اسے قبول
کرنے کے سوااورکوئی چارہ بھی نہیں ہے ۔اس کے خلاف احتجاج کرنے سے بھی کوئی
فائدہ نہیں ہوگا کیوں کہ ہم مسلمانوں کے احتجاجات عملا بے سودواقع
ہوتےہیں۔اس کی بھی بہت ساری وجوہ ہیں۔ہمارے یہاں عموماًتنظیم سے کام نہیں
ہوتااورنہ ہی بصیرت ہوتی ہے ۔ شوق خود نمائی زیادہ ہوتاہے ۔یہاں یہ بات بھی
ذہن میں رکھیے کہ دیگرکمیونٹی کے لوگوں میں بھی شوق خودنمائی فزوں ہوتاہے
مگرچوں کہ وہ عموماًمنصوبہ بندی اورتنظیم سے کام کرتے ہیں اس لیے وہ کامیاب
بھی ہوجاتے ہیں مگر ہمارے یہاں اس طرح کی کامیابی نہیں ملتی اس لیے اربابِ
مدارس کویہ مشورہ دیناکہ اس سلسلے میں کوئی مضبوط اوربامقصدمنصوبہ بندی
کرنی چاہیے ، بالکل بے مقصدہوگاکیوں کہ مشورے اسی وقت مشورے ہوتے ہیں جب ان
پرکان دھراجاتاہے اورقابلِ قدر سمجھا جاتاہےاورجب ان پرقابل قدرنہ
سمجھاجائے تویہ مشورے محض ’’بکواس ‘‘کادرجہ رکھتے ہیں اس لیے کم ازکم ہم
تویہ ’’بکواس ‘‘نہیں کرسکتے ۔
اب جب یہ فیصلہ آہی چکاہے اوراسے قبول کیے بغیرکوئی چارہ بھی نہیں ہے تواب
صرف کرنے کاکام یہی ہے کہ یہ کتابیں شامل کرلی جائیں ۔ریاضی اورسائنس کی
کتابوں میں حکومت اپنی طرف سے ’’مداخلت‘‘نہیں کرسکتی کیوں کہ ریاضی کااصول
تودودوچارکی طرح بالکل واضح اوردوٹوک ہوتاہے البتہ انگریزی کتاب میں آرایس
ایس کے نظریات کی آمیزش ہوسکتی ہے بلکہ یقین یہی ہے کہ آمیزش ضرور ہوگی
تواس سلسلے میں مدارس کے طلبہ خوداتنے ہوشیارہوتے ہیں کہ وہ اچھی طرح حسن و
قبح کوپرکھ سکتے ہیں اس لیے میراخیال ہے کہ ذمے داران مدارس کوبہت زیادہ
پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ حکومت کے فیصلے کومن وعن قبول کرلیں ، اس
کے خلاف احتجاج کرکے اپنی قوت ضائع نہ کریں اور مخالفین کواعتراضات کرنے
کاموقع نہ دیں ۔بس صرف ایک بات کاعہدکریں کہ اس فیصلے سے اگرحکومت کے
مقاصدنیک نہیں ہیں تونہ سہی ،ہم ان کے مقاصد کو مکمل نہیں ہونے دیں گے ،ہم
ان کے منصوبےناکام بنادیں گے اور ایساکوئی کام نہیں کریں گے جس سے مسلمانوں
کاتشخص مجروح ہواورمدارس کی قرار واقعی حیثیت پر آنچ آئے ۔ایک بات ہمیشہ
یادرکھنی چاہیے کہ ملک میں ہم اقلیت میں ہیں اس لیے اپنی یہ حیثیت ذہن میں
رکھیے،قانون کے دائرے میں رہ کرکام کیجیے ،ہاں ا گر کوئی ایساقانون
ہوجوشریعت اسلامیہ سے براہ راست طورپرمتصادم ہوتوپھرہم چاہے اقلیت میں ہوں
یا ہم اس اقلیت میں بھی اقلیت میں ہوں تب بھی ہم اسے برداشت نہیں کریں گے ۔خیرسے
حکومت کایہ فیصلہ ایسا نہیں ہے کہ اس سےاس طرح کی بو آتی ہواس لیے خاموش
رہیے اورکاروانِ حیات کاسفرجاری رکھیے بلکہ میرے فہم ناقص میں بڑے مدارس کے
ذمے داران کوایک کام یہ بھی کرناچاہیے کہ یوگی کے اس فیصلے پران کو مبارک
بادی کے خطوط لکھے جائیں اورانہیں بتایاجائے کہ یہ فیصلہ مدارس کے حق میں
ہے۔ ان شاء اللہ ذمے داران مدارس کے ان خطوط سے بہتراثرات مرتب ہوں گے ۔اگرخطوط
نہ بھی لکھے جاسکیں تواخبارات میں تائیدی بیانات ضرور شائع کرائے جانے
چاہیے ۔آگے آپ کی مرضی۔ |